ازقلم : ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی
دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں جس کی کتاب حیات میں آزمائش اور مصیبت کا لفظ مندرج نہ ہو بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص جس قدر سخت ترین حالات سے دوچار ہوگا وہ اسی قدر اللہ کا محبوب و مقبول بندہ ہوگا۔ سکون و سلامتی کی جگہ صرف جنت ہے یہی وہ مقام ہے جہاں کوئی مصیبت و پریشانی نہیں ہے لیکن اس کے حصول کے لیے انسان کو تمام مصیبت طلب مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ روایت میں آتا ہے کہ جنت کو ناگوار چیزوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے یعنی جنت کا اصلی حقدار وہی ہوگا جو اس دنیا میں مشاکل و مصائب کا سامنا کرے گا۔ اور یہ اللہ تعالی کا کرم بالائے کرم ہے کہ وہ مومنین کو جنت کا حقدار بنانے کے لیے انہیں مختلف طریقوں سے آزماتا ہے۔ اہل ایمان کو پرکھنا اور ان کا امتحان لینا خداوندی قدوس کی دائمی و جاودانی سنت ہے جو انسانی زندگی کے پیش آمادہ مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ ہے۔ اللہ تعالی عام انسان کو ناگوار حوادثات اور پریشانیوں میں اس لیے مبتلا کرتا ہے تاکہ ان کے گناہوں کی مغفرت ہوجائے۔ لیکن صالحین ،مقربین اور مقبولین بارگاہ کو آزمائشی مراحل سے اس لیے گزارتا ہے تاکہ انہیں مزید قرب خاص کی دولت اور بلندیٔ درجات سے سرفراز کیا جائے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ اس سے انسان کی تربیت مقصود ہوتی ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ دنیا کے سامنے منافق و صاحب ایمان اور مخلص و غیر مخلص ، خبیث و طیب، کھرے و کھوٹے کی شناخت ہوجائے ، تیسری وجہ یہ ہے کہ بندہ مومن کا ایمان ہر کھوٹ و ملاوٹ سے کندن کی طرح صاف ہوکر چمکنے لگے، چوتھی وجہ یہ ہے کہ صاحب ایمان کے پائے استقامت کو دوام بخشا جائے، پانچویں وجہ یہ ہے کہ بندہ مومن زندگی کے ہر مرحلے میں سراپا عجز و نیاز بنکر رجوع الی اللہ رہے، چھٹی وجہ یہ ہے کہ بندہ مومن میں اللہ تعالی کی عطاکردہ نعمتوں کا شعور و احساس اور اس پر شکر ادا کرنے کا جذبہ پیدا ہوجائے، ساتویں وجہ یہ ہے کہ بندہ مومن کو دنیاوی زندگی کی حقیقت سے واقف کروانا ہوتا ہے۔ آٹھویں وجہ یہ ہے کہ بندہ مومن کو کمالات و درجات حاصل ہوجائیں، نویں وجہ یہ ہے کہ بندہ مومن کی مخفی استعداد و صلاحیت ظاہر ہوجائے تاکہ وہ قوت سے اپنے افکار و خیالات کو بہ آسانی عملی جامہ پہنا سکے، دسویں وجہ یہ ہے کہ مومنین کو روحانی قوت حاصل ہوجائے، گیارویں وجہ یہ ہے کہ بندہ مومن پر خود اس کے دعوی ایمان کی حقیقت آشکار ہوجائے کہ کیا واقعتاً اس کا دل ایمان کے نور سے منور ہے جس سے سعادت سرمدی اور نعیم ابدی وابستہ ہے یا پھر اس کے دعوی ایمانی کی حقیقت امیدوں کے فریب، اوہام کے دھوکہ اور رسمی و خیالی پلائو سے زیادہ کچھ نہیں جس کا انجام ابدی شقاوت ہے۔اللہ تعالی کی آزمائش سے راہ فرار اختیار کرنا یا مصلحت کی آڑ میں گمراہی کے لشکر سے ٹکرانے سے گریز کرنا ابدی رسوائی اور دائمی شقاوت کا باعث ہے اسی لیے مومنین کو ابتلاء و آزمائش میں نماز و صبر سے مدد لینے کی تلقین کی گئی ہے چونکہ حسن نیت اور خلوص دل کے ساتھ ادا کی ہوئی نماز اور صبر بوقت آزمائش بندہ مومن کو برائیوں میں ملوث ہونے سے باز رکھتے ہیں۔ ایمان انسان کی قلبی کیفیت کا نام ہے جس کا اظہار ابتلا و آزمائش کے بعد ہی ہوتا ہے ۔ مثلاً کسی نے صاحب ایمان ہونے کا دعوی کیا اس دعوی کی حقانیت کا علم اس شخص کو اسی وقت ہوگا جب اس کے سامنے لاکھوں روپے کی رشوت کا معاملہ آئے گا ۔ اگر اس کے ایمان میں پختگی ہوگی تو وہ رشوت لینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردے گا کہ میرے نبیؐ کا فرمان عالیشان ہے کہ رشوت لینے اور دینے والا دونوں ہی جہنمی ہیں۔ اور اگر اس کے ایمان میں کمزوری ہوگی تو وہ رشوت لینے کی طرف مائل ہوجائے گا۔ اسی باعث ایمان کی پختگی اور امتحان میں شدت لازم و ملزوم ٹہرے ، یعنی انسان آزمائشوں پر جس قدر ثابت قدم رہے گا اس کے ایمان میں اسی قدر پختگی پیدا ہوگی۔ سفیان بن عبداللہ الثقفیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ رسول اللہؐ سے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ مجھے اسلام کے بارے میں ایسی بات بتادیجئے کہ آپؐ کے بعد مجھے کسی سے دریافت نہ کرنا پڑے۔ آپؐ نے فرمایا کہو میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر اس پر ثابت قدم رہو۔ یعنی جب اسلام قبول کرچکے تو اس راہ میں پیش آنے والی دشوایوں کو برداشت کرو۔ کمال ایمان انسانی خواہشات کو مغلوب اور تمنائوں کو قابو میں رکھتا ہے اور اسی ایمانی حرارت کو بڑھانے اور برقرار رکھنیکا اہم ذریعہ ابتلاء و آزمائش ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مرتبہ اس کا بات کا ذکر ملتا ہے کہ اللہ تعالی اہل ایمان کو ابتلاء و آزمائش کے ذریعہ پرکھتے ہیں تاکہ وہ مفوضہ فرائض کو انجام دینے کے لائق بن جائیں۔ عالم اسلام کی بہادر، عظیم و بے مثال خاتون، شہزادی کونین جناب سیدہ فاطمہؓفرماتی ہیں کہ مجھ پر ایسی مصیبتیں اور مشقتیں پڑیں کہ اگر روزِ روشن پر پڑتیں تو وہ شب تاریک میں تبدیل ہوجاتے۔ چونکہ آج ہم اور ہماری نئی نسل تعلیمات اسلامی سے کافی دور ہوچکے ہیں اسی لیے ہمارے ایمان بھی بہت کمزور ہوگیے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج ہم چھوٹی چھوٹی مصیبتوں اور بلائوں سے بھی پریشان ہوجاتے ہیں ۔ہماری اسی غلط روش کے باعث ہی آج امت مسلمہ میں فتنہ ارتداد تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ مسلم بچیاں جہیز کی بڑھتی ہوئی لعنت سے گھبراکر کفر اختیار کرنے کے لیے بھی تیار ہورہی ہیں (العیاذ باللہ) اس معاملہ میںمرتد ہونے والی بچیوں سے زیادہ وہ لوگ قصوروار ہیں جو جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں یا وہ لوگ جو جہیز لینے والوں کی راست یا بالواسطہ تائید کرتے ہیں۔ مسلمان اگر چاہتے ہیں کہ ان کی زندگی کا لمحہ لمحہ پاکیزہ و خوشبودار اور ان کے اخلاق و کردار مہک اٹھیں تو ان پر لاز م ہے کہ واقعہ کربلا کو سننے، سنانے اور اس موضوع پر مضامین تحریر کرنے سے زیادہ پیغام کربلا کی روح کو سمجھنے کی کوشش کریں تاکہ امت مسلمہ میں پھیلے ہوئے فتنوں کا بروقت تدارک ہوسکے۔ اللہ رب العزت نے انسان کو گوناگوں خوبیوں، قوتوں، ہر قسم کی صلاحیتوں و توانائیوں، مختلف استعدادوں اور ادراکات سے اسی لیے سرفراز نہیں فرمایا کہ وہ دیگر جاندار مخلوقات کی طرح دنیاوی مشاغل میں مصروف رہے بلکہ اس کا اصل مقصد رب کائنات کی قدرت اور عظمت کو پہچاننا ہے اور رب کی کماحقہ معرفت حاصل کرنے اور تکلیف و ذمہد اری کا بار آسانی سے اٹھانے، آخرت کی اسارت سے بچنے کے لیے انسان کو دنیا میں مشقت و تکالیفات کے کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ورنہ خوشحالی میں تو ہرکوئی وفاداری کا دعوی کرتا ہے اور بیگانے بھی اپنے بن جاتے ہیںلیکن جب پریشانی آتی ہے تو اغیار تو درکنار اپنے بھی بیگانے بن جاتے ہیں۔ جب بندہ اپنے تعلق کو اپنے مالک حقیقی سے جوڑ لیتا ہے تو رب کائنات اسے ابتلا و آزمائش، کرب و تکلیف، رنج و دکھ میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ یہ ربط و تعلق ہمیشہ مضبوط و مستحکم رہے اور بندہ مومن نفس، مال اور شہوات کی قیود سے ہمیشہ آزاد رہے۔ اس نظریہ سے دیکھا جائے تو ابتلا و آزمائش خداوندی بھی بندہ کے حق میں عظیم نعمت ہے۔ اسی لیے قرآن مجید اپنے ماننے والوں کو نہ صرف پرکھے جانے اور آزمائے جانے کے بارے میں بتاتا ہے بلکہ ابتلاء و آزمائش کے متنوع ذرائع سے بھی واقف کرواتا ہے تاکہ ابتلاء و آزمائش کے وقت بندہ مومن غلط راہ اختیار کرنے کے بجائے صبر کے ساتھ صراط مستقیم پر گامزن رہے۔ احقاق حق اور ابطال باطل کے لیے اللہ تعالی اپنے پسندیدہ اور محبوب بندوں کو خوف، بھوک کے ذریعہ اور مال، اولاد، اور رزق میں نقصان کے ذریعہ آزماتا ہے۔ کربلاء کا تپتا ہوامیدان ایک ایسی آزمائش گاہ تھا جہاں پر یہ تمام ذرائع ابتلاء و آزمائش موجود تھے تو دوسری طرف علوم و فنون اور قضا و افتا میں مقام مرجعیت رکھنے والے ، مجاہدین راہ خدا کے سردار ، سیدنا و سید شباب اہل الجنۃ حضرت امام حسینؓ کا عزم مصمم اور مومنانہ ثبات قدم تھا اسی لیے آپ کی مظلومانہ اوردردانگیز شہادت کو شہادت عظمی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ میدان کربلا میں یہ ماحول تھا کہ کسی بھی وقت تیس ہزار اشقیاء پر مشتمل لشکر جرار حملہ آور ہوسکتا تھا جو درحقیقت دشمنوں کے خوف سے آپؓ کو آزمایا جارہا تھا ۔جگر پارۂ رسول، شہزادۂ بتول کی شہادت سے تین دل قبل ہی آپؓ اور آپؓ کے رفقاء پر پانی بند کردیا گیاجو درحقیقت آپ کو بھوک و پیاس کے ذریعہ آزما رہا تھا۔ اہل عراق کی طرف سے بیعت کے لیے مسلسل اور متواتر خطوط آنے پر آپ نے دین حنیف کی حفاظت اور عیش و عشرت اور تفوق و تفاخر میں مبتلا بدقماش یزید سے نالاں اہل کوفہ کو حفظ و امان دینے کے لیے مدینہ طیبہ میں گھربار چھوڑ کر عام شاہراہ سے ہوتے ہوئے مکہ معظمہ پہنچے پھر وہاں سے کوفہ روانہ ہوئے، جو درحقیقت آپؓ کو مالوں کے نقصان سے آزمایا جارہا تھا۔ قاسم بن حسنؓ، عبداللہ بن حسنؓ، علی اکبربن حسینؓ، عبداللہ بن حسینؓ، علی اضعربن حسینؓ ، عباس بن علیؓ، جعفر بن علیؓ ، عبداللہ بن علیؓ، عثمان بن علیؓ، عمر بن علیؓ، ابو بکر بن علیؓ، عون بن عبداللہؓ، محمد بن عبداللہؓکو شہید کردیا گیا جو درحقیقت آپ کو ثمرات کے نقصان یعنی اولاد کی موت کے ذریعہ آزمایا جارہا تھا۔آپؐ کے دیگر اعوان و انصار، اصحابِ عزیمت و کردار ،مردانِ میدانِ کارِ زاراور ارباب صدق و صداقت کی شہادت اور خود آپؐ کے تن نازنین کو نیزوں سے تینتیس اور تلواروں سے چونتیس شدید زخم دیے گئے ، بہت سے بدنصیبوں نے آپؓ کو گھیر کر آپؓ پر یکبارگی حملہ کرتے ہوئے چاروں طرف سے تیروں کامینہ برساکر سر اقدس کو تن سے جدا کرکے شہید کردیا، جو درحقیقت آپ کو جانوں کے نقصان کے ذریعہ آزمایا جارہا تھا ۔ تاجدار کربلا امام عالی مقام ؐنے اعلاء کلمۃ الحق ، معالم حق کو اجاگر کرنے اور اسلامی معاشرے سے منکرات مٹانے کے لیے ان تمام ذرائع ابتلاء و آزمائش کا انتہائی صبر و استقامت کے ساتھ سامنا فرمایا ، اپنی اور اپنے عزیز و اقارب ،شیدائیان و محبان کی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے دین اسلام کو زندہ کیا، امن و فساد، عدل و ظلم، وفا و جفا، خیر و شر، حق و باطل کے درمیان خط امتیاز کھینچ دیا اور دنیا کو بتا دیا کہ حقیقی مومن اور دین کا لبادہ اوڑھنے میں والوں کیا فرق ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ واقعہ کربلا کو نہ صرف اسلامی تاریخ بلکہ انسانی تاریخ میں ایک خاص امتیاز حاصل ہے۔ اس عظیم سانحہ کربلا کی تاثیر یہ نہیں کہ ہم ماہ محرم یا بالخصوص عاشورہ کے دن عبادتوں میں مصروف ہوجائیں، غم کا اظہار کریں اور باقی زندگی علی الاعلان غلط کاریوں میں مبتلا ہوکر گزادیں بلکہ امام ہمام حضرت سیدنا امام حسینؓ کی حیرت انگیز قربانی کا حقیقی تقاضہ یہ ہے کہ ہم اسوہ حسینی سے اپنی زندگی کے ہر لمحہ کو روشن و منور کرتے ہوئے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور موجودہ دور کے آزمائشوں اور طاغوتی طاقتوں سے پوری ایمانی حرارت و جرأت کے ساتھ مقابلہ کریں۔ یہ بات ہر مسلمان کو ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ جو حق کی خاطر عزت کے ساتھ موت کی آغوش میں سوجانا پسند کرتا ہے وہ حسینی ہوتا ہے اور جو دنیاپرستی اور اغراض نفسانی کی تکمیل کے لیے ذلت کے ساتھ زندگی گزارنے کو پسند کرتا ہے وہ ابن الوقت اور یزیدی ہوتا ہے اور یہی پیغام کربلا ہے۔ اگر ہم اپنی روشن تاریخ آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس پیغام پر حسن نیت ا ور صدق دل اور خلوص و للہیت کے ساتھ عمل پیرا ہونے پڑے گا۔بعض لوگ مروجہ بدعات و خرافات اور غلط رسومات میں اس قدر منہمک و مصروف ہوجاتے ہیں کہ عاشورہ کے دن بھی وہ نمازوں سے غافل ہوجاتے ہیںجبکہ سیدنا امام حسینؓ نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے وقت بھی نماز کی ادائیگی کو فوقیت دی اور اس کی عملی تصویر دنیا کے سامنے پیش کی۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ واقعہ کربلا سے حاصل ہونے والے حسینی پیغام کو سمجھیں، اسے عام کرنے اور اس کے فیوض و برکات سے سب کو مالامال کرنے کی حتی الوسع سعی و کوشش کریں۔ شہداء کربلا کو خراج عقیدت پیش کرنے کا یہی ایک احسن و بہترین طریقہ ہے۔آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآن ﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائیں۔آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔