ازقلم : مشتاق نوری
جب کبھی پھیلتے ظلمت کے شرارے ہوں گے
صبر لے کر مرے شبیر پدھارے ہوں گے
یا حسین! آپ ضمانت ہیں گنہگاروں کی
ورنہ ہم حشر میں پھر کس کے سہارے ہوں گے
عقل ماؤوف ہے یہ سوچ کے، ایام ستم
کیسے شبیر نے کربل میں گزارے ہوں گے
بدر جیسے مرے اللہ نے کربل میں بھی
بہر امداد فرشتے بھی اتارے ہوں گے
زخم کھا کر جہاں گھوڑے سے گرے تھے شبیر
اس کو جبریل نگاہوں سے بہارے ہوں گے
اس قدر ابر سماں ہیں کہ یقینا ماں نے
کاکل حضرت شبیر سنوارے ہوں گے
رسیوں سے جو خواتین کو جکڑا ہوگا
کتنے دل دوز وہ کربل کے نظارے ہوں گے
چاند تارے جو یہ لگتے ہیں بلا کے روشن
میرے شبیر کو جی بھر کے نہارے ہوں گے
ہو کے اعدا کے لگاۓ گئے زخموں سے نڈھال
لڑکھڑاتے ہوۓ امی کو پکارے ہوں گے
ان کی رحلت بھی زمانے میں مثالی ہوگی
جو بھی شبیر ترے عشق کے مارے ہوں گے
ہاں! وہی فاتح عالم ہیں زمانے بھر میں
دل جو شبیر کی دہلیز پہ ہارے ہوں گے
ان کے اشجار بہاروں کو ترس جاتے ہیں
گلشن فاطمی جو لوگ اجاڑے ہوں گے
روح شبیر کو نوری تو منا لے دل سے
وہ جو روٹھے تو عجب حال ہمارے ہوں گے