ازقلم : محمد اشرفؔ رضا قادری
بابا فرید، گنجِ شکر، ارفع النظر
دریائے معرفت کے ہو تم قیمتی گُہر
لیتے ہیں تجھ سے بھیک گدایانِ کائنات
جھکتے ہیں تیرے در پہ زمانے کے تاجور
کب ہوگی روشنی مرے صحنِ حیات میں
روحانیت کے چرخ کے اے خاور و قمر
ان کے سروں پہ تیری حمایت کا ہاتھ ہے
عشاق تیرے اس لیے رہتے ہیں بے خطر
’’حضرت نظامِ دین‘‘ نے بخشا ہے تاجِ علم
تا حشر یوں ہی چمکے گا یہ صورتِ قمر
دامن پسارے در پہ کھڑا ہوں بصد خلوص
بابا فرید! نخلِ تمنّا ہو پُر ثمر
گنجِ شکر ہیں، فیض کا مصدر بھی آپ ہیں
مجھ کو عطا ہو گنجِ عمل، علم کی شَکر
اشرفؔ گدا ہے آپ کا سلطانِ معرفت
دربارِ عالی چھوڑ کے جائے بھلا کدھر