محرم الحرام

تعزیہ داری فتاویٰ رضویہ کی روشنی میں

تعزیہ کی اصل اس قدر تھی کہ روضہ پر نور شہزادہ گلگوں قبا حسین شہید ظلم و جفاصلوات اﷲ تعالٰی وسلامہ علٰی جدہ الکریم وعلیہ کی صحیح نقل بنا کر بہ نیت تبرک مکان میں ر کھنا اس میں شرعاً کوئی حرج نہ تھا کہ تصویر مکانات وغیرہا ہر غیرجاندار کی بنانا، رکھنا، سب جائز، اور ایسی چیزیں کہ معظمان دین کی طرف منسوب ہو کر عظمت پیدا کریں ان کی تمثال بہ نیت تبرک پاس رکھنا قطعاًجائز، جیسے صدہا سال سے طبقۃً فطبقۃً ائمہ دین وعلمائے معتقدین نعلین شریفین حضور سید الکونین صلی ﷲ تعالٰی علیہ و سلم کے نقشے بناتے اور ان کے فوائد جلیلہ ومنافع جزیلہ میں مستقل رسالے تصنیف فرماتے ہیں جسے اشباہ ہو (عہ) امام علامہ تلمسانی کی فتح المتعال وغیرہ مطالعہ کرے،مگر جہال بیخرد نے اس اصل جائز کو بالکل نیست و نابود کر کے صدہا خرافات وہ تراشیں کہ شریعت مطہرہ سے الاماں الاماں کی صدائیں آئیں، اول تو نفس تعزیہ میں روضہ مبارک کی نقل ملحوظ نہ رہی، ہرجگہ نئی تراش نئی گھڑت جسے اس نقل سے کچھ علاقہ نہ نسبت، پھر کسی میں پریاں، کسی میں براق، کسی میں اور بیہودہ طمطراق، پھر کوچہ بکوچہ و دشت بدشت، اشاعت غم کے لئے ان کا گشت، اور ان کے گرد سینہ زنی، اور ماتم سازشی کی شور افگنی، کوئی ان تصویروں کو جھک جھک کر سلام کر رہا ہے، کوئی مشغول طواف، کوئی سجدہ میں گراہے، کوئی ان مایہ بدعات کو معاذاﷲ معاذاﷲ جلوہ گاہ حضرت امام علٰی جدہ وعلیہ الصلوٰۃ والسلام سمجھ کر اس ابرک پنّی سے مرادیں مانگتا منّتیں مانتا ہے، حاجت روا جانتا ہے، پھر باقی تماشے، باجے، تاشے، مردوں عورتوں کا راتوں کو میل، اور طرح طرح کے بیہودہ کھیل ان سب پرطرہ ہیں۔غرض عشرہ محرم الحرام کہ اگلی شریعتوں سے اس شریعت پاک تک نہایت بابرکت ومحل عبادت ٹھہرا ہوا تھا، ان بیہودہ رسوم نے جاہلانہ اور فاسقانہ میلوں کا زمانہ کردیا پھر وبال ابتداع کا وہ جوش ہوا کہ خیرات کو بھی بطور خیرات نہ رکھا، ریاء و تفاخر علانیہ ہوتا ہے پھر وہ بھی یہ نہیں کہ سیدھی طرح محتاجوں کودیں بلکہ چھتوں پر بیٹھ کر پھینکیں گے روٹیاں زمین پر گر رہی ہیں رزق الہی کی بے ادبی ہوتی ہے پیسے ریتے میں گر کر غائب ہوتے ہیں، مال کی اضاعت ہو رہی ہے، مگرنام تو ہو گیا کہ فلاں صاحب لنگر لٹا رہے ہیں، اب بہار عشرہ کے پھول کھلے، تاشے باجے بجتے چلے، طرح طرح کے کھیلوں کی دھوم، بازاری عورتوں کا ہر طرف ہجوم، شہوانی میلوں کی پوری رسوم، جشن یہ کچھ اور اس کے ساتھ خیال وہ کچھ کہ گویا یہ ساختہ تصویریں بعینہا حضرات شہداء رضوان اﷲ تعالٰی علیہم اجمعین کے جنازے ہیں، کچھ نوچ اتار باقی توڑ تاڑ دفن کردیئے۔ یہ ہر سال اضاعت مال کے جرم و وبال جدا گانہ رہے۔ اللہ تعالٰی صدقہ حضرات شہدائے کربلا علیہم الرضوان والثناء کا ہمارے بھائیوں کونیکیوں کی توفیق بخشے اور بری باتوں سے توبہ عطا فرمائے، آمین! اب کہ تعزیہ داری اس طریقہ نامرضیہ کا نام ہے قطعاً بدعت و ناجائز و حرام ہے،ہاں اگر اہل اسلام جائز طور پر حضرات شہدائے کرام علیہم الرضوان کی ارواح طیبہ کو ایصال ثواب کی سعادت پر اقتصار کرتے تو کس قدر خوب ومحبوب تھا اور اگر نظر شوق و محبت میں نقل روضہ انور کی حاجت تھی تو اسی قدر جائز پر قناعت کرتے کہ صحیح نقل بغرض تبرک و زیارت اپنے مکانوں میں رکھتے اور اشاعت غم وتصنع الم و نوحہ زنی و ماتم کنی و دیگر امور شنیعہ و بدعات قطعیہ سے بچتے اس قدر میں بھی کوئی حرج نہ تھا مگر اب اس نقل میں بھی اہل بدعت سے ایک مشابہت اور تعزیہ داری کی تہمت کا خدشہ اور آئندہ اپنی اولاد یا اہل اعتقاد کے لئے ابتلاء بدعات کا اندیشہ ہے،اور حدیث میں آیاہے:اتقوا مواضع التھم۱؎(تہمت کے مواقع سے بچو۔ت)
(۱؎ کشف الخفاء حدیث ۸۸ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۳۷)(اتحاف السادۃ کتاب عجائب القلب بیان تفصیل مداخل الشیطان الی القلب، دارالفکربیروت ۷/ ۲۸۳)
اور وارد ہوا:من کان یؤمن باﷲ والیوم الاٰخر فلایقفن مواقف التھم۲؎۔
جو شخص ﷲ تعالٰی اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ ہرگز تہمت کے مواقع میں نہ ٹھہرے۔(ت)(۲؎ مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی کتاب الصلوٰۃ باب ادراک الفریضۃ نورمحمدکارخانہ تجارت کراچی ص۲۴۹)
لہٰذا روضہ اقدس حضور سیدالشہداء رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ایسی تصویر بھی نہ بنائے بلکہ صرت کاغذ کے صحیح نقشے پر قناعت کرے اور اسے بقصد تبرک بے آمیزش منہیات اپنے پاس رکھے جس طرح حرمین محترمین سے کعبہ معظمہ اور روضہ عالیہ کے نقشے آتے ہیں یا دلائل الخیرات شریف میں قبور پرنور کے نقشے لکھے ہیں
(والسلام علی من اتبع الھدی، واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔)فتاویٰ رضویہ ج٢٤ ص٥١٤)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے