تحریر : ڈاکٹر فیض احمد چشتی
محترم قارئینِ کرام : واقعۂ کربلا کا غم ہر مسلمان کے دل میں ہونا چاہیے اور یہ اہل بیت سے محبت کی علامت ہے ۔ مگر شریعت محمدی ہمیں صبر کا درس دیتی ہے لہذا اس غم کا اظہار مرثیہ وماتم اور چیخیں مار کر رونے کی صورت وغیرہ میں نہیں ہونا چاہیے ۔ جسے اس واقعۂ کربلا کا غم نہیں اس کی محبت اہل بیت رضی اللہ عنہم سے ناقص اور جس کی محبت اہل بیت رضی اللہ عنہم سے ناقص ہے اس کا ایمان ناقص ہے ۔
مصیبت پر صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اپنی مصیبت یا مصائب اہل بیت کو یاد کرکے ماتم کرنا یعنی ہائے ہائے ، واویلا کرنا ، چہرے یا سینے پر طمانچے مارنا ، کپڑے پھاڑنا ، بدن کو زخمی کرنا ، نوحہ و جزع فزع کرنا ، یہ باتیں خلاف صبر اور ناجائز و حرام ہیں ۔ جب خود بخود دل پر رقت طاری ہوکر آنکھوں سے آنسو بہہ نکلیں اور گریہ آجائے تو یہ رونا نہ صرف جائز بلکہ موجب رحمت و ثواب ہوگا ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے : ولاتقولوا لمن یقتل فی سبیل اﷲ اموات بل احیاء ولٰکن لاتشعرون ۔ ترجمہ : اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں ، انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں ۔ (سورۃ البقرہ آیت 154)
ماتم تو ہے ہی حرام ، تین دن سے زیادہ سوگ کی بھی اجازت نہیں ہے حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو فرماتے ہوئے سنا ۔ جو عورت اﷲ اور آخرت پر ایمان لائی ہو، اس کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ سوگ کرے ۔ البتہ اپنے خاوند کی (موت پر) چار ماہ دس دن سوگ کرے ۔ (بخاری حدیث 299، الکتاب الجنائز، مسلم، حدیث 935، مشکوٰۃ حدیث 3471 کتاب الجنائز،چشتی)
حضرت امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں : لیس لاحد ان یعداً اکثر من ثلاثۃ ایام الا المراۃ علی زوجہا حتی تنقضی عدتہا ۔
ترجمہ : کسی مسلمان کو کسی کی موت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنا سوائے عورت کے کہ وہ عدت کے ختم ہونے تک اپنے خاوند کی موت پر سوگ کرسکتی ہے ۔ (من لایحضرہ الفقیہ ج 1)
اس حدیث سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جو ہر سال حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کا سوگ مناتے ہیں اور دس دن سینہ کوبی کرتی ہیں۔ چارپائی پر نہیں سوتے، اچھا لباس نہیں پہنتے اور کالے کپڑے پہنتے ہیں۔ ہاں ایصال ثواب کرنا ان کی یاد منانا اور ذکر اذکار جائز ہے، یہ سوگ نہیں ہے ۔
شیخ الاسلام والمسلمین امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : کون ساسنی ہوگا جسے واقعہ ہائلہ کربلا کا غم نہیں یا اس کی یاد سے اس کا دل محزون اور آنکھ پرنم نہیں ، ہاں مصائب میں ہم کو صبر کاحکم فرمایا ہے ، جزع فزع کو شریعت منع فرماتی ہے ، اور جسے واقعی دل میں غم نہ ہو اسے جھوٹا اظہارِغم ریاء ہے اور قصداً غم آوری وغم پروری خلافِ رضاہے ۔ جسے اس کاغم نہ ہو اسے بیغم نہ رہنا چاہئے بلکہ اس غم نہ ہونے کا غم چاہئے کہ اس کی محبت ناقص ہے اور جس کی محبت ناقص اس کاایمان ناقص ۔ (فتاوى رضویہ، جلد 24، صفحہ 500، 501، رضا فاؤنڈیشن لاہور،چشتی)
شیخ الاسلام والمسلمین امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : تعزیہ آتا دیکھ کر اعراض و روگردانی کریں۔ اس کی طرف دیکھنا ہی نہیں چاہیے ۔ (عرفان شریعت ، حصہ اول، صفحہ: 15)
شیخ الاسلام والمسلمین امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : غرض عشرۂ محرم الحرام کہ اگلی شریعتوں سے اس شریعت پاک تک نہایت بابرکت محل عبادت ٹھہرا تھا، ان بے ہودہ رسوم نے جاہلانہ اور فاسقانہ میلوں کا زمانہ کر دیا ۔ یہ کچھ اور اس کے ساتھ خیال وہ کچھ کہ گویا خودساختہ تصویریں بعینہٖ حضرات شہداء رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جنازے ہیں ۔
کچھ اتارا باقی توڑا اور دفن کر دیے۔ یہ ہر سال اضاعت مال کے جرم دو وبال جداگانہ ہیں۔ اب تعزیہ داری اس طریقۂ نامرضیہ کا نام ہے۔ قطعاً بدعت و ناجائز حرام ہے ۔ تعزیہ پر چڑھایا ہوا کھانا نہ کھانا چاہیے۔ اگر نیاز دے کر چڑھائیں، یا چڑھا کر نیاز دیں تو بھی اس کے کھانے سے احتراز کریں ۔ (رسالہ تعزیہ داری)
تعزیہ بنانا کیسا ؟
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ تعزیہ بنانا بدعت و ناجائز ہے (فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 24، ص 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
تعزیہ داری میں تماشا دیکھنا کیسا ؟
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ چونکہ تعزیہ بنانا ناجائز ہے، لہذا ناجائز بات کا تماشا دیکھنا بھی ناجائز ہے (ملفوظات شریف، ص 286)
تعزیہ پر منت ماننا کیسا ؟
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ تعزیہ پر منت ماننا باطل اور ناجائز ہے (فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 24، ص 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور،چشتی)
تعزیہ پر چڑھاوا چڑھانا اور اس کا کھانا کیسا ؟
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ تعزیہ پر چڑھاوا چڑھانا ناجائز ہے اور پھر اس چڑھاوے کو کھانا بھی ناجائز ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد 21، ص 246، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
محرم الحرام میں ناجائز رسومات
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ محرم الحرام کے ابتدائی 10 دنوں میں روٹی نہ پکانا، گھر میں جھاڑو نہ دینا، پرانے کپڑے نہ اتارنا (یعنی صاف ستھرے کپڑے نہ پہننا) سوائے امام حسن و حسین رضی اﷲ عنہما کے کسی اور کی فاتحہ نہ دینا اور مہندی نکالنا، یہ تمام باتیں جہالت پر مبنی ہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید، ص 488، جلد 24،رضا فاؤنڈیشن، لاہور،چشتی)
محرم الحرام میں تین رنگ کے لباس نہ پہنے جائیں
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ محرم الحرام میں (خصوصاً یکم تا دس محرم الحرام) میں تین رنگ کے لباس نہ پہنے جائیں، سبز رنگ کا لباس نہ پہنا جائے کہ یہ تعزیہ داروں کا طریقہ ہے۔ لال رنگ کا لباس نہ پہنا جائے کہ یہ اہلبیت سے عداوت رکھنے والوں کا طریقہ ہے اور کالے کپڑے نہ پہنے جائیں کہ یہ رافضیوں کا طریقہ ہے، لہذا مسلمانوں کو اس سے بچنا چاہئے ۔ (احکام شریعت)
عاشورہ کا میلہ
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ عاشورہ کا میلہ لغو و لہو و ممنوع ہے۔ یونہی تعزیوں کا دفن جس طور پر ہوتاہے، نیت باطلہ پر مبنی اور تعظیم بدعت ہے اور تعزیہ پر جہل و حمق و بے معنیٰ ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 24، ص 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
دشمنانِ صحابہ کی مجالس میں جانا
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ رافضیوں (دشمنانِ صحابہ) کی مجلس میں مسلمانوں کا جانا اور مرثیہ (نوحہ) سننا حرام ہے۔ ان کی نیاز کی چیز نہ لی جائے، ان کی نیاز، نیاز نہیں اور وہ غالباً نجاست سے خالی نہیں ہوتی۔ کم از کم ان کے ناپاک قلتین کا پانی ضرور ہوتا ہے اور وہ حاضری سخت ملعون ہے اور اس میں شرکت موجب لعنت۔ محرم الحرام میں سبز اور سیاہ کپڑے علامتِ سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے۔ خصوصاً سیاہ (لباس) کا شعار رافضیاں لیام ہے۔ (فتویٰ رضویہ جدید، 756/23 رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مسلمانوں کو چاہئے کہ محرام الحرام میں خرافات سے بچیں ۔ سبیلوں اور دکانوں پر نوحہ اور مرثیہ کی کیسٹیں ہرگز نہ بجائیں ۔
محترم قارٸینِ کرام : بدقسمتی سے لوگوں میں پائی جانے والی خرافات و غیر شرعی رسومات ان کے یومیہ ، ماہانہ وسالانہ معمولات کا حصہ بن چکی ہیں اور وہ بڑے اہتمام کے ساتھ ان رسومات کی ادائیگی کرتے نظر آتے ہیں ۔ اسلامی سال کے پہلے بابرکت اور حرمت والے مہینے محرم الحرام میں پائی جانے والی خرافات و بدعات جن کے سبب اس ماہِ مقدس کی ناصرف بے حرمتی ہوتی ہے بلکہ اسلامی اقدار کا کھل کر مذاق بھی اڑایا جاتا ہے نیز ہمارے شہدائے اسلام بالخصوص شہدائے کربلا رضی اللہ عنہم کی یاد منانے کی آڑ میں ایسے غیر شرعی کام سرنجام دیے جاتے ہیں جو اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی ہیں ۔ جن میں سے خلاصہ کے طورپر درج ذیل ہیں :
تعزیوں کو ماتم کرتے ہوئے گلی گلی پھرانا ، تعزیوں کے سامنے سجدہ کرنا ، بچوں کو محرم کا فقیر بنا کر بھیک منگوانا ۔
مال کو ضائع کرناب ، برتن پھوڑنا ، دسویں محرم کو گھرمیں کھانا پکانے کو معیوب سمجھنا ، خود کو فقیر بناکر بھیک مانگنا وغیرہ ۔
ماتم کرنا ، کپڑے پھاڑنا ، نوحے پڑھنا ، رونا پیٹنا ، بطور سوگ سیاہ لباس پہنا ، کالے بلے پہنا ، نئے لباس کو برا سمجھنا وغیرہ ۔
ناچنا ، کودنا ، رقص کرنا، مرد و عورت کا ایک ساتھ مجالس و محافل میں بیٹھنا ، جھوٹے واقعات بیان کرنا وغیرہ ۔
جھوٹی منتیں ماننا ، امام قاسم کی مہندی نکالنا ، فضول کاموں میں لگ کر نمازیں ترک کردینا وغیرہ ۔
حضرت علی و حسنین کریمین یا دیگر بزرگوں رضی اللہ عنہم کی تصاویر بنانا ، ان کا حترام کرنا ، ان کو حقیقت کا رنگ دینا وغیرہ ۔
مذکورہ خرافات و بدعات یا اس طرح کی اور رسومات جو مسلمانوں میں رائج ہیں سب ناجائز و ممنوع ہیں ان سے بچنا ہر صورت لازم ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ خرافات ہماری دنیا اور آخرت کی بربادی کا سبب بن جائیں اور ہمیں علم بھی نہ ہو ۔
ماہِ محرّم الحرام یا کسی بھی مہینے میں نکاح منع نہیں ہے
محترم قارئینِ کرام : یہ شرعی مسلہ ہے شرعی مسلے کو شرعیت کی روشنی میں دیکھیں اسے کسی تعصب کی نظر نہ کریں باقی احترام دس محرم الحرام مدِّ نظر رہے کیونکہ اس دن اہلبیت اطہار اور سیّدنا امام حسین علیہم السّلام اور آپ کے رفقاء رضی اللہ عنہم کی عظیم شہادتیں ہوئی ہیں ۔ جس چیز کے بارے میں کوئی مخصوص حکم نہ ہو تو وہ کام اصل کے اعتبار سے مباح ہوتا ہے ، اور علمائے کرام کے مابین یہ متفق علیہ قاعدہ ہے کہ عادات میں جب تک حرمت کی دلیل نہیں ملتی تو اصل جواز ہی ہے ، چنانچہ کتاب وسنت ، اجماع ، یا قیاس ، اور آثار وغیرہ میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی جو ماہِ محرم میں نکاح وغیرہ سے مانع ہو ، اس لئے اباحتِ اصلیہ کی بنا پر ماہِ محرم یا کسی بھی ماہ میں نکاح جائز ہے ۔ محر م الحرام میں شادی بیاہ و دیگر تقریبات کو ممنوع اور باعث نحوست سمجھنا ، حالانکہ بعض روایات کے مطابق حضرت علی اور سیدہ فاطمہ زہرا رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا کا نکاح محرم الحرام میں ہی ہوا تھا ۔
بعض لوگ محرم الحرام میں شادی کرنے کو برا تصور کرتے ہیں اور اسے بد شگونی (اپنے حق میں برا) قرار دیتے ہیں ، اسی طرح دیگر جائز کاموں کو ناجائز سمجھنا یا غیر شرعی رسومات کا اچھا شگن سمجھنا یعنی اپنے حق میں بہتر جاننا ایسے لوگوں کے لئے سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں ۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تین بار ارشاد فرمایا کہ بد شگونی شرک (یعنی مشرکوں جیسا کام) ہے اور ہمارے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ، اللہ تعالیٰ اسے توکل کے ذریعے دور کر دیتا ہے ۔ (سنن ابو داؤد کتاب الطب باب فی الطیرۃ، ۴/۲۳، الحدیث: ۳۹۱۰،چشتی)
ایک اور روایت میں ہے : جس نے بَدشگونی لی اور جس کے لیے بَدشگونی لی گئی وہ ہم میں سے نہیں ۔ (یعنی ہمارے طریقے پرنہیں) ۔ (معجم کبیر، ۱۸/۱۶۲، حدیث۳۵۵)
اس بارے میں علمائے کرام کا کم از کم اجماعِ سکوتی ہے ، کہ ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین ، ائمہ کرام علیہم الرّحمہ اور ان کے علاوہ دیگر متقدمین یا متاخرین میں سے کوئی بھی ایسا عالم نہیں ملا جو اس ماہ میں شادی ، بیاہ ، اور منگنی کو حرام یا کم از کم مکروہ ہی سمجھتا ہو ۔
لہٰذا اگر کوئی منع کرتا ہے تو اس کی تردید کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے ، اور علمائے کرام میں سے کوئی بھی اس کے موقف کا قائل نہیں ہے ہاں احترام دس محرم الحرام مد نظر رہنا چاہیئے ۔
فتویٰ منہاج القرآن
محرم یا کسی بھی مہینے نکاح مسنون میں حرج نہیں اور شریعت میں کسی دن بھی شادی کرنےکی ممانعت نہیں ہے ۔ مگر محرم میں دھوم دھام سے شادی کرنا سمجھ سے بالا تر ہے ۔ (منہاج الفتاویٰ جلد اوّل صفحہ 480)
اور میں کہتا ہوں ہمیں دس محرم الحرام شہدائے کربلا اور امام حسین رضی اللہ عنہم کی شہادت کو یاد رکھنا چاہیئے کوئی بھی مسلمان دس محرم کو شادی نہیں کرتا اس لیے کہ تمام محبان اہلبیت رضی اللہ عنہم مسلمانوں کے دلوں میں اس دن کی یزیدی تاریخ یاد ہے کہ یزید لعین نے اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم پر ظلم کی انتہاء کرا دی تھی ، صرف اتنی عرض ہے خدا را ایک دوسرے کی ضد میں شریعت کو جہلاء کے ہاتھوں کی لونڈی بنا کر کھلوار مت کرائیے جو شرعی مسلہ ہے اسے مفتی منہاج القرآن جناب مفتی عبد القیوم صاحب ہزاروی کی طرح بیان کرنے کی ہمت کیجیئے شکریہ ۔
امیر الموٴمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا سے شادی اسی ماہِ مبارک میں ہوئی ، اگرچہ اس قول کے علاوہ دیگر اقوال بھی ملتے ہیں ۔ (تاریخ مدینة الدمشق لابن عساکر، باب ذکر بنیہ وبناتہ علیہ الصلاة والسلام وأزواجہ: ۳/۱۲۸، دار الفکر۔ تاریخ الرسل والملوک للطبري، ذکر ما کان من الأمور في السنة الثانیة، غزوة ذات العشیرة، ۲/۴۱۰، دار المعارف بمصر،چشتی)
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اور حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کا نکاح سنہ ۲/ ہجری میں ہوا؛ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ مہینہ کون سا تھا، توا س میں تین طرح کے اقوال ملتے ہیں، محرم الحرام، صفر المطفر اور ذوالحجہ۔ ابن عساکر اور طبری رحمہما اللہ نے محرم الحرام کے مہینے میں نکاح ہونے کی روایت کو ترجیح دی ہے ۔
ماہِ محرم کو ماتم اور سوگ کا مہینہ قرار دینا جائز نہیں ، حدیث میں ہے کہ عورتوں کو ان کے خویش واقارب کی وفات پر تین دن ماتم اور سوگ کرنے کی اجازت ہے اور اپنے شوہر کی وفات پر چار ماہ دس دن سوگ منانا ضروری ہے ، دوسرا کسی کی وفات پر تین دن سے زائد سوگ منانا جائز نہیں ، حرام ہے، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : لا یحل لامرأة توٴمن باللہ والیوم الآخر إن تحد علی میت فوق ثلٰث لیال إلا علٰی زوج أربعة أشھر وعشراً ۔
ترجمہ : جو عورت خدا اور قیامت کے دن پر ایمان رکھے، اس کے لیے جائز نہیں کہ کسی کی موت پر تین رات سے زیادہ سوگ کرے؛ مگر شوہر اس سے مستثنیٰ ہے کہ اس کی وفات پر چار ماہ دس دن سوگ کرے“۔ (بخاري، باب: تحد المتوفی عنھا أربعة أشھر وعشراً إلخ، ص: ۸۰۳، ج:۲، پ:۲۲،چشتی)،( صحیح مسلم، باب: وجوب الإحداد في عدة الوفات، إلخ، ص: ۴۹۶، ج:۱)، (مشکوٰة، باب العدة، الفصل الأول، ص: ۲۸۸)
ماہ محرم الحرام میں شادی وغیرہ کرنے کو نامبارک اور ناجائز سمجھنا سخت گناہ اور اہل سنت و جماعت کے عقیدے کے خلاف ہے ، اسلام میں جن چیزوں کو حلال اور جائز قرار دیا گیا ہو ، اعتقاداً یا عملاً ان کو ناجائز اور حرام سمجھنے میں ایمان کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے ، مسلمانوں کو چاہیئے کہ روافض اور شیعہ سے پوری احتیاط برتیں ، ان کی رسومات سے علیحدہ رہیں ، ان میں شرکت حرام ہے ۔
قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : مسلم ر اتشبہ بہ کفار وفساق حرام است۔“ یعنی: مسلمانوں کو کفار وفساق کی مشابہت اختیار کرنی حرام ہے ۔ (مالا بد منہ صفحہ نمبر 131)
امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ سے ایک سوال ہوا سوال اور جواب پڑھیئے :
سوال : (1) بعض سنی جماعت عشرہ محرم میں نہ تو دن بھر میں روٹی پکاتے ہیں اور نہ جھاڑو دیتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ بعد دفن تعزیہ روٹی پکائی جائے گی ۔ (2) ان دس دن میں کپڑے نہیں اتارتے ۔ (3) ماہِ محرم میں کوئی بیاہ شادی نہیں کرتے ، اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب : تینوں باتیں سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے ۔ (احکام شریعت، صفحہ نمبر 90 جلد 1)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی قادری حنفی علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ :
(1) بعض اہل سنت جماعت عشرہ 10 محرم الحرام کونہ تودن بھرروٹی پکاتے ہیں اور نہ جھاڑو دیتے ہیں کہتے ہیں کہ بعد دفن تعزیہ روٹی پکائی جائے گی ۔ (2) ان دس دن میں کپڑے نہیں اُتارتے ہیں ، (3) ماہ محرم میں بیاہ شادی نہیں کرتے ہیں ۔ (4) ان ایّام میں سوائے امام حسن و امام حسین رضی ﷲ عنہما کے کسی کی نیاز فاتحہ نہیں دلاتے ہیں ، آیا یہ جائز ہے یانہیں ؟
الجواب : پہلی تینوں باتیں سوگ ہیں اورسوگ حرام ہے،اور چوتھی بات جہالت ہے ہرمہینہ ہرتاریخ میں ہرولی کی نیاز اورہرمسلمان کی فاتحہ ہوسکتی ہے ۔ وﷲ تعالٰی اعلم ۔
اسی طرح اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ نے ایک سوال کے جواب میں محرم الحرام میں امام عالی مقام کے نام کا فقیر بن کر بھیک مانگنا یا اپنے بچوں کو فقیر بناکر بھیک منگوانے کو بھی ناجائز و حرام قراردیا ہے ۔ (فتاوی رضویہ، ۲۴/۱۰۲)
مذکورہ دلائل سے یہ بات خوب سمجھ آتی ہے کہ جورسومات شریعت کے دائرہ میں ہیں انہیں کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ جو دائرہ شریعت سے باہر ہوں ان کا کرنا شریعت کو ناپسند بلکہ بعض اوقات ناجائز وحرام تک پہنچ جاتا ہے، مسلمان کو چیزوں پر نہیں بلکہ اللہکریم پر بھروسا رکھنے کا حکم ہے ۔ اسی طرح محر م الحرام کے حوالے سے جن فرسودہ رسومات وتوہمات کو بیان کیا گیا اللہپاک ہمیں ان سے کوسوں دور رکھے اور شہیدان کربلا کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔