تحریر : غلام مصطفٰی رضوی
خیر و شر کے درمیاں معرکہ آرائی ابتدا ہی سے رہی ہے۔ تخلیق آدمیت کے بعد ہی تکریم آدمیت سے منھ موڑنے والا ’’شیطان‘‘ باطل کی علامت بن گیا۔ ابلیسی شر کے مقابل حضرت آدم علیہ السلام ڈٹے رہے۔ معرکۂ خیر و شر عہدِخاتم الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تک جاری رہا۔ خدائی مدد و رضا سے رب کی ربوبیت اور اپنی نبوت و بعثت کا پیغام انبیا و مرسلین علیہم الصلوٰۃ والتسلیم نے خلقِ خدا تک پہنچایا۔ شر ہمیشہ کثرتِ تعداد پر نازاں ہو کر آیا۔ خیر بظاہر کم زور و غریب رہا۔ لیکن تائیدِ ایزدی خیر کی رہنما و مددگار رہی۔ شر لشکرِ جرار کے باوجود ناکام و نامُراد رہا۔ کبھی ایسا بھی ہوا کہ شر ظاہراً غالب رہا۔ وہ افرادی قوت سے لیس بھی رہا؛ اس کا غلبہ ایک عہد تک رہا لیکن خیر کی فکرِ نافع کامیاب رہی اور بعد کے ادوار میں مشعلِ راہ بھی۔ دلوں پر خیر کی حکمرانی رہی۔شر کے فتنہ و فساد کا دورانیہ جز وقتی ثابت ہوا۔ اس لحاظ سے خیر ہی زمانے پر چھایا رہا۔ اور آج بھی طوفانِ باطل کی زد پر خیر ہی غالب ہے۔اسلام منبعِ خیر و برکات ہے؛ جس کا غلبہ انسانیت کے لیے باعثِ سکون و طمانیت ہے۔
خیر کا غلبہ: امام حسین رضی اللہ عنہ خیر کی علامت ہیں۔ شر کے مقابل آپ نے چمنِ اسلام کی حفاظت فرمائی۔ یزید شر کی علامت ہے۔ شریعتِ اسلامیہ کا تحفظ ’’حسینیت‘‘ ہے۔ خلافِ شرع کاموں کی تائید و حمایت یزیدی فکر کا فروغ ہے۔خیر کو اللہ کریم نے دوام سے نوازا ہے، وقتی مغلوب بھی ہوا تو اپنی تعلیماتِ حقہ کی بنیاد پر انقلاب کی دستک ثابت ہوا۔ اس لیے امام حسین رضی اللہ کی دعوتِ عزیمت و حفظِ شریعت کا مرحلۂ شوق اسلام کی نئی صبح کی علامت ثابت ہوا۔آج حسینیت کی کرنیں پوری دُنیا کو منور و روشن کر رہی ہیں۔
استبداد کی شکست: یزید اسلامی نظام کے مقابل قیصر و کسریٰ کے جبر و استبداد کی علامت کے بطور اُبھرا، باطل کا نشاں بن گیا….. خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے دین کی تکمیل ہوئی۔ مکمل نظامِ زندگی و ضابطۂ حیات کے ہوتے ہوئے کسی باطل نظام کا وجود سوہانِ روح تھا۔ یزید نفس ہوا و ہوس تھا۔ اُسے منہاجِ نبوی سے کدورت و بیر تھا جبھی اس مبارک نظام کے مقابل فراعنہ کے طرزِ امارت و مملکت کو فکرو نگاہ کا محور بنایا۔ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہدِ مبارکہ میں اسے اپنے عزائم باطلہ کی تکمیل کی راہ نہیں ملی۔ اس لیے ان کے عہد میں خفیہ طور پر اپنی شر انگیزیاں جاری رکھیں اور حضرت سیدنا امیر معاویہ کے وصال کے فوراً بعد کھل کر سامنے آیا۔ دین و شریعت کی فصیل میں شگاف ڈالنے کی جسارت کر ڈالی۔
ایک تجزیہ: یزیدیت علامتِ شر ہے حسینیت علامتِ خیر ہے۔ دونوں کے درمیاں بُعدالمشرقین ہے، اور جائزہ لیا جائے تو:
[۱]امام حسین نے نبوی منہج کا تحفظ کیا…یزید نبوی راہ کا مخالف ٹھہرا اس لیے آمریت کو راہ دی۔
[۲]مظلوموں کے حقوق کا تحفظ حسینیت ہے…ظلم و جبر یزیدیت ہے۔
[۳]آمریت و ملوکیت یزیدیت ہے…خلافت علی منہاج النبوۃ حسینیت ہے۔
[۴]رعیت سے رحم و کرم و عفو و در گزر حسینیت ہے…بے رحمی و سنگ دلی یزیدیت ہے۔
[۵]یزید بظاہر فاتح رہا ہے…لیکن اس کی فکر مفتوح ہے!… امام حسین شہید ہوئے، پورا کنبہ شہید کر دیا گیا…لیکن تعلیماتِ حسینی آج بھی زندہ ہے۔
[۶]یزیدیت استعارہ ہے باطل کا…. حسینیت استعارہ ہے حق کا۔
[۷]علامتِ شر ہے یزید…علامتِ خیر ہیں حسین۔
[۸]اسلام کی فتح مبین حسینی فکر کی سربلندی اور مرگِ یزید ہے۔
[۹] یزیدیت تشدد سے عبارت ہے…حسینیت پیامِ امن وامان ہے ؎
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے جاں نثاروں کے ساتھ حفاظتِ شریعت کی خاطر جامِ شہادت نوش فرمایا لیکن دین کا چہرہ مسخ نہ ہونے دیا اور اپنے نانا جان کی شریعت کو مغلوب ہونے سے بچایا۔ ظلم و تشدد کے خلاف عزم و یقیں کے ہزاروں دیپ روشن کیے۔ موجودہ دور میں دین کی اصل تعلیمات سے آگہی اور رواداری و عدم تشدد کے ماحول کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ امام حسین و ان کے رفقا رضی اللہ عنہم کے مزاج و کردار کو رہبر و رہنما بنایا جائے تاکہ کشتِ ایماں شادکام ہو۔اورگلشنِ حیات میں شرعی احکام پر عمل پیرا ہو کر بہاروں کی حکمرانی لائی جائے ؎
شہنشاہِ شہیداں ہو انوکھی شان والے ہو
حسین ابن علی تم پر شہادت ناز کرتی ہے
[تاج الشریعہ]