ملفوظاتِ و اقوال سرکار غوث اعظم قدس سرہ النورانی رضی اللہ تعالی عنہ (قسط:2)
ازقلم: اے۔ رضویہ ممبئی
مرکز: جامعہ نظامیہ صالحات کرلا ممبئی
امام ابو محمد خشاب نحوی رحمۃ اللہ علیہ:
امام الحافظ عبد الغنی المقدسی بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس دور کے بغداد کے نحو کے امام ابو محمد خشاب نحوی سے کہتے ہوئے سنا کہ میں نحو کا امام تھا، غوث اعظم رَضِی اللّٰہ تَعالیٰ عنٗہ کی بڑی تعریف سنتا تھا مگر کبھی ان کی مجلس میں نہیں گیا تھا۔ یہ نحوی لوگ تھے، اپنے کام میں لگے رہتے تھے۔ ضرب یضرب میں لگے رہتے ہیں، انہیں ایک ہی ضرب آتی ہے، دوسری ضرب یعنی ضرب قلب سے دلچسپی نہیں ہوتی۔ کہتے ہیں کہ ایک دن خیال آیا آج جاؤں اور سنوں تو سہی شیخ عبد القادر جیلانی رَضِی اللّٰہ تَعالیٰ عنٗہ کیا کہتے ہیں؟ میں گیا اور ان کی مجلس میں بیٹھ کر انہیں سننے لگا۔
میں نحوی تھا، اپنے گھمنڈ میں تھا لہذا مجھے ان کا کلام کوئی بہت زیادہ شاندار نہ لگا۔ میں نے دل میں کہا:
’’آج کا دن میں نے ضائع کر دیا‘‘۔
بس اتنا خیال دل میں آنا تھا کہ منبر پر دوران خطاب سیدنا غوث الاعظم رَضِی اللّٰہ تَعالیٰ عنٗہ مجھ سے مخاطب ہو کر بولے:
اے محمد بن خشاب نحوی! تم اپنی نحو کو خدا کے ذکر کی مجلسوں پر ترجیح دیتے ہو۔ یعنی جس سیبویہ (امام النحو، نحو کے موضوع پر ’’الکتاب‘‘ کے مصنف) کے پیچھے تم پھرتے ہو، ہم نے وہ سارے گزارے ہوئے ہیں۔ آؤ ہمارے قدموں میں بیٹھو تمہیں نحو بھی سکھا دیں گے۔ امام محمد بن خشاب نحوی کہتے ہیں کہ میں اسی وقت تائب ہو گیا۔ آپ کی مجلس میں گیا اور سالہا سال گزارے۔ خدا کی قسم ان کی صحبت اور مجلس سے اکتساب کے بعد نحو میں وہ ملکہ نصیب ہوا جو بڑے بڑے آئمہ نحو کی کتابوں سے نہ مل سکا تھا۔
ان حوالہ جات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پتہ چلے کہ آئمہ حدیث و فقہ نے حضور غوث الاعظم رَضِی اللّٰہ تَعالیٰ عنٗہ کے علمی مقام و مرتبہ کو نہ صرف بیان کیا بلکہ آپ کو علم میں اتھارٹی تسلیم کیا ہے۔ مذکورہ جملہ بیان سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کل امام کرامتوں کو ماننے والے تھے، اولیاء کو ماننے والے تھے اور سیدنا غوث الاعظم رَضِی اللّٰہ تَعالیٰ عنٗہ کے عقیدت مند تھے۔ یہ کہنا کہ حضور غوث الاعظم رَضِی اللّٰہ تَعالیٰ عنٗہ کے مقام و مرتبہ اور ان کے القابات کو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ نے اور انکے مسلک والوں نے گڑھ لیا ہے، نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ حدیث، فقہ، تفسیر اور عقیدہ کے کل آئمہ نو سو سال سے ان کی شان اسی طرح بیان کرتے چلے آئے ہیں۔ سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت رَضِی اللّٰہ تَعالیٰ عنٗہ نے تو انکی شان کو اجاگر کر دیا۔
سلکِ عرفاں کی ضیا ہے یہی دُرِّمختار
فخرِ اَشباہ و نظائر بھی ہے عبدالقادر
امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ:
امام ذہبی (جلیل القدر محدث) سیر اعلام النبلاء میں بیان کرتے ہیں کہ:
"ليس في کبائر المشائخ من له احوال وکرامات اکثر من الشيخ عبد القادر الجيلانی”
’’کبائر مشائخ اور اولیاء میں اول تا آخر کوئی شخص ایسا نہیں ہوا جس کی کرامتیں شیخ عبد القادر جیلانی رَضِی اللّٰہ تَعالیٰ عنٗہ سے بڑھ کر ہوں‘‘۔
امام العز بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ: شافعی مذہب میں امام العز بن عبد السلام بہت بڑے امام اور اتھارٹی ہیں۔ سعودی عرب میں بھی ان کا نام حجت مانا جاتا ہے۔ یہ وہ نام ہیں جن کو رد کرنے کی کوئی جرأت نہیں کرسکتا۔ امام العز بن عبد السلام کا قول امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں بیان کیا کہ وہ فرماتے ہیں:
"ما نقلت إلينا کرامات أحد بالتواتر إلا شيخ عبد القادر الجيلانی”
’’آج تک اولیاء کرام کی پوری صف میں کسی ولی کی کرامتیں تواتر کے ساتھ اتنی منقول نہیں ہوئیں جتنی شیخ عبد القادر الجیلانی رَضِی اللّٰہ تَعالیٰ عنٗہ کی ہیں اور اس پر اتفاق ہے‘‘۔
⬅️ امام یحییٰ بن نجاح الادیب رحمۃ اللہ علیہ: جلیل القدر علماء آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر تائب ہوتے۔ ابو البقا بیان کرتے ہیں کہ میں نے نحو، شعر، بلاغت اور ادب میں اپنے وقت کے امام یحییٰ بن نجاح الادیب سے سنا کہ میں حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رَضِی اللّٰہ تَعالیٰ عنٗہ کی مجلس میں گیا، ہر کوئی اپنے ذوق کے مطابق جاتا تھا، میں گیا اور میں نے چاہا کہ میں دیکھوں کہ غوث الاعظم رَضِی اللّٰہ تَعالیٰ عنٗہ اپنی گفتگو میں کتنے شعر سناتے ہیں۔ وہ چونکہ خود ادیب تھے لہذا اپنے ذوق کے مطابق انہوں نے اس امر کا ارادہ کیا۔ صاف ظاہر ہے حضور غوث الاعظم رَضِی اللّٰہ تَعالیٰ عنٗہ اپنے درس کے دوران جو اشعار پڑھتے تھے وہ اپنے بیان کردہ علم کی کسی نہ کسی شق کی تائید میں پڑھتے تھے۔ درس کے دوران اکابر، اجلاء، ادبا اور شعراء کو پڑھنے سے مقصود بطور اتھارٹی ان کو بیان کرنا تھا تاکہ نحو دین، فقہ، بلاغت، لغت، معانی کا مسئلہ دور جاہلیت کے شعراء کے شعر سے ثابت ہو، یہ بہت بڑا کام ہے۔
امام النحو والادب یحییٰ بن نجاح الادیب بیان کرتے ہیں کہ میں آپ کی مجلس میں گیا اور سوچا کہ آج ان کے بیان کردہ اشعار کو گنتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ میں دھاگہ ساتھ لے گیا کہ ہاتھ پر گنتے گنتے بھول جاؤں گا۔ جب آپ ایک شعر پڑھتے تو میں دھاگہ پر ایک گانٹھ دے دیتا تاکہ آخر پر گنتی کر لوں۔ جب آپ اگلا شعر پڑھتے تو پھر دھاگہ پر گانٹھ دے لیتا۔ اس طرح میں آپ کے شعروں پر دھاگہ پر گانٹھ دیتا رہا۔ اپنے کپڑوں کے نیچے میں نے دھاگہ چھپا کر رکھا ہوا تھا۔ جب میں نے دھاگہ پر کافی گانٹھیں دے دیں تو سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ ستر ہزار کے اجتماع میں میری طرف متوجہ ہوئے اور مجھے دیکھ کر فرمایا:
"انا احل و انت تاکد”
’’میں گانٹھیں کھولتا ہوں اور تم گانٹھیں باندھتے ہو‘‘۔ (ذهبی، سير اعلام النبلاء، 20: 448)
یعنی میں الجھے ہوئے مسائل سلجھا رہا ہوں اور تم گانٹھیں باندھنے کے لیے بیٹھے ہو۔ کہتے ہیں کہ میں نے اسی وقت کھڑے ہو کر توبہ کر لی۔ اندازہ لگائیں یہ آپ رَضِی اللّٰہ تَعالیٰ عنٗہ کی مجلس میں آئمہ کا حال تھا۔
منبعِ فیض بھی ہے مجمعِ افضال بھی ہے
مہر عرفَاں کا منور بھی ہے عبدالقادر
قسط جاری۔۔۔