ازقلم: محمد ہاشم اعظمی مصباحی
نوادہ مبارکپور اعظم گڑھ یوپی
مکرمی : ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم یہی دیکھتے رہ گئے کہ ہماری اس دنیا میں کون کیا کر رہا ہے، اور کون کیا نہیں کر رہا ہے؟ کاش ہم یہ دیکھتے کہ ہم کیا کر رہے ہیں، پھر تو دنیا بھی دیکھتی کہ ہم کیا ہیں اور کیا کر رہے ہیں اس لئے کہ زندگی کردار و عمل سے عبارت ہے۔ ربِّ کائنات کا فرمان ہے کہ ” لیسَ ِللانسانَ الاّ سعیٰ” یعنی انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جتنی وہ اس کے لیے کوشش کرتا ہے۔ یہ اصول انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی۔ اقبال نے کہا: علم سے زندگی چلتی ہے قناعت بھی رسم بھی. یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ حضوری ہے نہ درباری ہے اور اسی بات کو اقبال نے دوسرے انداز یوں کہا : عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی.یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے انسان اپنی دنیا آپ پیدا کرتا ہے۔ جو دوسروں کے سہارے جیتا ہے اقبال اسے مردہ انسان سے تعبیر کرتے ہیں۔جو قومیں قوت عمل پہ یقین رکھتی ہیں حالات کے مطابق ہمیشہ صحیح فیصلے کرتی ہیں وہ کبھی انتشار کا شکار نہیں ہوتیں۔ محنت کی عظمت پہ یقین رکھتے ہوئے اپنے اصولوں پہ عمل پیرا ہوتیں ہیں اور کامیاب ہوتیں ہیں۔ ایسی قومیں زوال پزیر نہیں ہوتیں۔ وہ قومیں ترقی کی منازل طے کرتے کرتے ایک عظیم قوم بن جاتی ہیں ۔صرف خوش بیانی کے جوہر دکھا کر دنیا میں کوئی قوم ابھری نہیں ہے ۔ انسان اپنے کام سے ہی پہچانا جاتا ہے۔ ورنہ اچھی باتیں تو دیواروں پر بھی لکھی ہوتی ہے۔ اگر آپ صبح اُٹھ کر اپنے موبائل فون پر واٹس ایپ کا اِسٹیٹس کھولیں تو 80 فیصد آپ کو طرح طرح کی خوبصورت اور سبق آموز باتیں پڑھنے کو ملیں گیں۔ جس میں لوگ اپنی علمی قابلیت کا مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں ۔ اگر ان باتوں کو بھیجنے والے افراد ان میں سے 10ٖفیصد باتوں پر عمل کرنا شروع کردیں تو نہ صرف اُن افراد کی زندگی میں نمایاں فرق نظر آئے گا بلکہ ایک مثبت معاشرے کی تعمیر کا آغاز ہوجائے گا۔ اور قرآن شریف کا حکم بھی یہی ہے، فرمایا: وَقُلِ ٱعۡمَلُوا۟ فَسَیَرَى ٱللَّهُ عَمَلَكُمۡ وَرَسُولُهُۥ وَٱلۡمُؤۡمِنُونَۖ. اے نبی! میرے بندوں سے کہہ دو کہ کام کرتے رہو، اللہ تمھارا کام دیکھے گا، اس کے رسول تمھارا کام دیکھیں گے، اور سارے مسلمان دیکھیں گے۔ ہم دنیا میں اس لیے نہیں آئے کہ ہم دوسروں کا کام دیکھیں ہم تو اس فانی دنیا میں اس لیے آئے ہیں کہ دنیا ہمارا کام دیکھے۔
hasimazmi78692@gmail.com