وہ خوش نصیب ہیں جو بلگرام جاتے ہیں
مرادِ دل وہ اپنی پاک در سے پاتے ہیں
ہے بارگاہِ مقدس وہ اتنی پر عظمت
فقیر جاتے ہیں اور شہرِ یار آتے ہیں
نہ ہوگا تنگیِ داماں کا پھر انہیں شکوہ
جو اپنے کاسۂ دامن کو بھر کے لاتے ہیں
نبی کا صدقہ اور ان کی آل کا صدقہ
زمیں پے سارے بشر تو انہیں کا کھاتے ہیں
ہے عبدِ واحد و طیب کا آستانہ یہاں
جہاں پے گشت ملک روز و شب لگاتےہیں
انہیں کے عرس کے ایام چل رہے ہیں ابھی
دیوانے عرس سدا دھوم سے مناتے ہیں
بہت تڑپ ہے تمنا ہے جاؤں میں لیکن
میرا بخار کی شدت تو دل جلاتے ہیں
دیارِ پاک میں نہ پہونچنے کا غم ہے بہت
ہاں! اشک یاس و حسرت میں ہم بہاتے ہیں
ہے مثلِ خلد زمیں بلگرام کی یارو
میرے امام رضا تو یہی بتاتے ہیں
ابھی نہ پھر کبھی اپنی تو حاضری ہوگی
امیرؔ دل کو دلاسا یہی دلاتے ہیں