عقائد و نظریات

تاویلات اقوال کلامیہ(قسط دوم)

تحریر: طارق انور مصباحی

سوال اول:کیا مندرجہ ذیل عبارت صحیح ہے؟

”تکفیر کے لیے دین کی کسی بدیہی بات کی بدیہی طورپر مخالفت ضروری ہے۔
یعنی اگر دین کی بات ہی بدیہی نہ ہوتو اس کی مخالفت بدیہی ہونے کے باوجود تکفیر نہیں ہوگی،اور دین کی بات تو بدیہی ہو، مگر مخالفت بدیہی نہ ہوتو بھی تکفیر نہیں ہوگی“۔

جواب: عہد حاضر میں مذبذبین تکفیر فقہی کا انکار کرتے ہیں، حالاں کہ تکفیر فقہی کا طریق کار بھی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے منقول ہے،لہٰذامذکورہ عبارت کی تعبیر بدلنے کی ضرورت ہے، تاکہ کوئی مریض القلب اس سے فتنہ میں مبتلا نہ ہو۔

(1)ضروریات اہل سنت کا شمار دین کے بدیہی امور یعنی ضروریات دین میں نہیں ہوتا ہے، حالاں کہ ضروریات اہل سنت کے انکار پر فقہائے احناف کفر فقہی کا حکم نافذ کرتے ہیں۔منقولہ بالا عبارت میں صریح لفظوں میں مرقوم ہے:
”اگر دین کی بات ہی بدیہی نہ ہوتو اس کی مخالفت بدیہی ہونے کے باوجود تکفیر نہیں ہوگی“۔
اس جملے سے اہل بدعت استدلال کر کے اپنا مقصد باطل ثابت کرسکتے ہیں کہ تکفیر فقہی کا وجود نہیں، لہٰذا اس عبارت کی تبدیلی کی ضرورت ہے۔اسی میں احتیاط ہے۔

(2)اگر دین کی بدیہی بات یعنی ضروریات دین کا بدیہی انکار نہ ہو، بلکہ نظری انکار ہوتو فقہائے کرام کفر فقہی کا حکم نافذکرتے ہیں۔ انکار بدیہی پر تکفیر کلامی ہوتی ہے، اور انکار نظری پر تکفیر فقہی ہوتی ہے۔منقولہ بالا عبارت میں ہے:
”دین کی بات تو بدیہی ہو، مگر مخالفت بدیہی نہ ہوتو بھی تکفیر نہیں ہوگی“۔
اس جملے سے بھی اہل بدعت استدلال کر کے اپنا مقصد باطل ثابت کرسکتے ہیں کہ تکفیر فقہی کا وجود نہیں، لہٰذا اس عبارت کی تبدیلی کی ضرورت ہے۔اسی میں احتیاط ہے۔

سوال دوم:اشخاص اربعہ کی عبارتیں ضروریات دین کے انکار اور اللہ ورسول (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کی بے ادبی میں صریح متعین اور بدیہی ہیں۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ یہی انکار واستخفاف کسی کے واسطے نظری ہوجائے؟

جواب:اس نظریہ کی بنیاد اس بات پر تھی کہ بدیہی کبھی نظری ہو جاتا ہے اور اس کا بطلان قسط اول میں رقم کیا جا چکا ہے۔جب اشخاص اربعہ کی عبارتوں میں ضروریات دین کا انکار واستخفاف بدیہی طورپر ہے تووہ سب کے لیے بدیہی رہے گا۔متفق علیہ بدیہی اگر نظری ہو جائے تو انقلاب حقیقت لازم آئے گا۔بدیہی کبھی ملحق بالنظری بھی نہیں ہوتا۔

سوال سوم: شبہہ کے سبب عوام مسلمین اگراشخاص اربعہ کے کفرکا انکار کر دیں تو کیا حکم ہے؟ وہ معذور قرار پائیں گے، یا ان پر شرعی حکم نافذہوگا؟
جواب:جب تک علمائے حق نے اشخاص اربعہ کے بارے میں فیصلہ نہیں سنایا تھا، تب تک دیابنہ کی باطل تاویلات کے سبب عوام کو شبہہ ہوسکتا تھا۔ علمائے حق کے فیصلہ کے بعد عوام کووہ حکم ماننا ہوگا۔

بالفرض حکم شرعی بتادینے کے بعد متعلقات حکم میں کسی کوشبہہ ہو جائے توعالموں سے پوچھ کر وہ شبہہ دور کرنا ہوگا۔ حکم شرعی کے انکار کی گنجائش نہیں۔

اشخاص اربعہ اور قادیانی کی تکفیرکلامی کا مسئلہ ایک اعتقادی مسئلہ ہے، اور بہت سخت ہے، یہاں تک کہ جو لوگ اشخاص اربعہ کے کفریہ عقائد اور ان پر نافذکردہ حکم کفرسے قطعی طور پر واقف ہوکر ان لوگوں کو مومن مانے،وہ لوگ بھی کافر ہیں۔

فقہی مسائل سے متعلق معتمدعلمائے حق کے فتاویٰ کو ماننا بھی عوام پر لازم ہے۔

امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:”یہ شخص اگر خود عالم کامل نہیں تو مستند علمائے دین کے فتویٰ کونہ ماننے کے سبب ضال وگمراہ ہے۔قرآن عظیم نے غیر عالم کے لیے یہ حکم دیا کہ عالم سے پوچھو،نہ یہ کہ جس پر تمہارا دل گواہی دے، عمل کرو۔ قال اللہ تعالیٰ: فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون۔جاہل کیا اور جاہل کا دل کیا۔نعم من کان عالما فقیہا مبصرا ماہرا فہو مامور بقولہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم:استفت قلبک وان افتاک المفتون“۔
(فتاویٰ رضویہ: جلد نہم:جزدوم:ص 140-رضا اکیڈمی ممبئ)

منقولہ بالا حکم باب فقہیات کے ظنی واجتہادی مسائل سے متعلق ہے۔اس میں عوام کو قیل وقال کی اجازت نہیں،بلکہ مستندومعتمدعلمائے حق کے بیان کردہ حکم شرعی کو ماننا ہے۔

بعض ظنی مسائل میں علمائے حق کے متعدد اقوال ہوتے ہیں،اس کی وضاحت علمائے کرام فرمادیتے ہیں کہ راجح قول پر عمل کرنا ہے۔اسی طرح دیگر ضروری تفاصیل بھی بیان کی جاتی ہیں۔ اگر فتویٰ میں ضروریات دین کا بیان ہو، اور صحیح حکم شرعی بیان کیا گیا ہوتو اس کے انکار کا حق عالم وجاہل کسی کو نہیں۔اس سے متعلق امام اہل سنت قدس سرہ العزیز کا فتویٰ ”اعلامیہ“میں منقول ہے۔ اس فتویٰ کا آخری حصہ مندرجہ ذیل ہے۔

”مگرآں کہ مسئلہ از ضروریات دین باشد کہ انکار،بلکہ شک دراں کفر است۔ والعیاذباللہ تعالیٰ،واللہ تعالیٰ اعلم“۔(فتاویٰ رضویہ:جلد نہم:جزاول:ص237-رضا اکیڈمی ممبئ) (فتاویٰ رضویہ:جلد 21:ص136- جامعہ نظامیہ لاہور)

الحاصل عوام مسلمین کوکسی شرعی مسئلہ میں تحقیق کی اجازت نہیں،لہٰذا انہیں اختلاف کی بھی اجازت نہیں۔تکفیر کلامی کا فتویٰ صحیح ہوتو عوام وخواص کسی کو بھی اختلاف کا حق نہیں،بلکہ صحیح فتویٰ کو ماننا سب پر لازم ہے۔ کافر کلامی کو مومن ماننے والا کافر کلامی ہے۔جس کو کچھ معلوم ہی نہیں،وہ معذور ہے۔ تمام امت مسلمہ اجمالی طورپر یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ ختم نبوت کا منکر کافر ہے۔ اللہ ورسول (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)کی بے ادبی کرنے والا کافر ہے۔جب کسی کو کسی خاص ملزم کے بارے میں یقینی طورپر اطلاع ہوجائے کہ اس نے کسی ضروری دینی کا انکار کیا ہے، اور علمائے حق نے اسے کافر کہاہے تو اسے کافر ماننا لازم ہوگا۔

شبہہ کا کیا حکم ہے؟

جب عوام کو خبرمتواتر سے معلوم ہوگیا کہ قادیانی اور اشخاص اربعہ کے فلاں فلاں کفریہ عقائد کے سبب علمائے عرب وعجم نے ان لوگوں پر کفرکلامی کا حکم نافذ فرمایا ہے،پس عوام کوتواتر کے سبب مجرمین سے متعلق حکم شرعی اور مجرمین کے کفریہ عقائدکا یقینی علم حاصل ہو گیا۔جس چیز کا یقینی علم حاصل ہوگیا، اسے ماننا ہوگا۔ اب اگر متعلقات حکم مثلاً شرائط ولوازم اور دلیل تکفیر میں شبہہ ہوجائے، یا کفریہ قول کے کفر ہونے میں شبہہ ہوجائے تو علمائے حق سے اس شبہہ کا جواب معلوم کرلیں۔فتویٰ تکفیر کے انکار کی گنجائش نہیں۔

المعتمد المستند اور دیگر کتابوں میں ضروریات دین میں شبہہ کا یہی حکم بیان کیا گیا ہے کہ شبہہ کو دور کرے۔ حکم شرعی کے انکار کی گنجائش نہیں،مثلاً کسی کو توحیدورسالت میں شبہہ ہو جائے تو علمائے حق سے شبہہ کا جواب معلوم کرلے۔

توحید ورسالت کے انکار کی گنجائش نہیں، نیز عوام مسلمین کو علمائے محققین ومناظرین ومدققین کی طرح منکرین کے ہرسوال کا جواب معلوم ہونا ضروری نہیں۔ صرف حکم شرعی کو ماننا ضروری ہے۔

معتزلہ کا مذہب یہ ہے کہ عوام کو علمائے محققین کی طرح ہرشبہہ کا جواب معلوم ہونا لازم ہے۔

عوام مسلمین کواس بات کا مکلف نہیں بنایا گیا ہے کہ کسی شرعی مسئلہ یا توحید ورسالت پر جو منکرین کے شبہات ہیں،ان تمام شبہات کے جوابات جانیں۔ یہ معتزلہ کا مذہب ہے جسے خلیل بجنوری نے اہل سنت وجماعت کے درمیان پھیلانے کی کوشش کی تھی۔
عوا م کو شرعی احکام ماننا ہے۔اصحاب علم وفضل کو شبہات باطلہ کا جواب معلوم کرنا ہے۔عوام وعلما کاحکم جداگانہ ہے۔معتزلہ کا مذہب یہ ہے کہ عالم وغیرعالم ہرایک کوعقلی استدلال کے ذریعہ تمام ضروری عقائد کا ایساعلم حاصل ہونا لازم کہ مخالفین ومنکرین کے شبہات کاجواب دے سکے۔اگر کسی عقیدہ کا ایسا علم نہ ہو تو اسے مومن نہیں سمجھا جائے گا۔
یہ معتزلہ کا مذہب ہے۔یہ اہل سنت وجماعت کا مذہب نہیں۔

محدث ملاعلی قاری حنفی(1014-930ھ) نے رقم فرمایا:(وعند المعتزلۃ ما لم یعرف کل مسألۃ بدلالۃ العقل علی وجہ یمکنہ دفع الشبہۃ،لا یکون مؤمنًا-قال القونوی:عند المعتزلۃ انما یحکم بایمانہ اذا عرف ما یجب اعتقادہ بالدلیل العقلی علٰی وجہ یمکنہ مجادلۃ الخصوم-وحل جمیع ما یوردونہ علیہ من الشبہۃ-حتی اذا عجز عن شیئ من ذلک،لم یحکم باسلامہ)(منح الروض الازہر فی شرح الفقہ الاکبر:ص 403-دار السلامہ بیروت)

اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے ضروریات دین میں شبہہ کا حکم ”المعتمد المستند“ (ص 238-المجمع الاسلامی مبارک پور)میں تفصیل کے ساتھ رقم فرمایا کہ شبہہ دور کرے، اور توقف نہ کرے۔حکم شرعی کے انکار کی گنجائش نہیں۔فی الوقت یہ عقیدہ رکھے کہ جو عنداللہ حق ہے، وہی میرا عقیدہ ہے۔ دفع شبہہ کی کوشش فرض ہے، اورتوقف کو اپنا عقیدہ بنانا کفر ہے۔بعض لوگ سرتوڑ کوشش کررہے ہیں کہ دربار اعظم کے گستاخوں کے گلے سے طوق کفر نکال پھینکیں، لیکن مجرم کی موت کے بعد کوئی راہ نہیں۔

بعض اہل علم کا قول:

بعض اہل علم نے تھانوی کی عبارت پربحث کرتے ہوئے رقم فرمایا:”رہا تیسرا احتمال یعنی خواص کے نزدیک بدیہی اور عوام کے نزدیک نظری ہو۔ اس صورت میں عوام کو ”شبہہ“ ہونا فطری ہے، لہٰذا ان کے نزدیک اس وقت تک حتمی طور پر کفر نہیں ہوگی، جب تک دلیل کی روشنی میں ان کا ”شبہہ“ دورکرنا ثابت نہ ہوجائے کہ یہ عبارت توہین وتنقیص کے معنی میں متعین ہے۔

یونہی دوسرا احتمال یعنی خواص کے نزدیک بدیہی اولی اور عوام کے نزدیک بدیہی غیر اولی ہو۔ اس صورت میں عوام کو تنبہ تام سے پہلے شبہہ ہوسکتا ہے، لہٰذا عوام کے نزدیک اس وقت تک تکفیر نہیں ہوگی، جب تک ان کو تنبہ نہ ہوجائے کہ یہ عبارت توہین وتنقیص کے معنی میں متعین ہے“۔

توضیحات:
(1)تیسرے احتمال کا جواب قسط اول میں مرقوم ہواکہ متفق علیہ بدیہی کبھی نظری یا ملحق بالنظری نہیں ہوتا۔ ہاں، نظری کبھی ملحق بالبدیہی ہوجاتا ہے۔

تکفیر کلامی اسی وقت ہوتی ہے، جب ضروریات دین کا انکار یا استخفاف بدیہی ہو۔ یہ بدیہی انکار واستخفاف عوام کے حق میں نظری نہیں ہوسکتا۔بدیہی ہمیشہ بدیہی رہتا ہے۔

(2)احتمال دوم میں یہ بتایا گیا ہے کہ خواص کے نزدیک بدیہی اولی ہو، اور عوام کے نزدیک بدیہی غیر اولی (بدیہی خفی)ہوتو عوام کو تنبیہ کی ضرورت ہوگی،یعنی عوام کو یہ بتانے کی ضرورت ہوگی کہ یہ عبارت توہین وتنقیص اور کفریہ معنی میں متعین ہے، لہٰذا قائل کافر ہے۔

چوں کہ یہ بحث تھانوی کی کفریہ عبارت سے متعلق ہے،جس عبارت پر قریباً سوا صدی قبل علمائے عرب وعجم کفر کلامی کا حکم نافذفرماچکے۔ مسلک دیوبند کے اشخاص اربعہ کی عبارتوں پر اس طویل مدت میں بے شمار مناظرے ومباحثے ہوچکے۔ سب کو یہ معلوم ہوچکا کہ یہ عبارتیں کفریہ معانی میں متعین ہیں۔ المعتمدالمستند میں تکفیر اور دلائل شرعیہ مرقوم ہوئے۔ حسام الحرمین میں علمائے حر مین طیبین کی تصدیقات منظر عام پر لائی گئیں اور عوام وخواص کو مطلع کردیا گیا۔ الصورام الہندیہ میں برصغیر کے 268:علمائے اہل سنت وجماعت کی تصدیقات شائع کی گئیں۔ علمائے حق اپنی تحاریر وتقاریر میں مسلسل بیان فرما رہے ہیں کہ قادیانی واشخاص اربعہ کی عبارتیں کفریہ معانی میں متعین ہیں۔ ان سب سے عوام کو تنبہ تام ہو چکا ہے۔ تکفیر کلامی کے فتویٰ سے قبل ”من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر“کا حکم نہیں دیا گیا۔

کفربدیہی غیر اولی(بدیہی خفی)میں علمائے حق کے فتویٰ سے قبل شبہہ ہوسکتا ہے، اسی لیے فتویٰ تکفیرسے قبل عوام پر”من شک“کا حکم نافذنہیں ہوتا۔جب قادیانی اور اشخاص اربعہ کا حکم بیان ہوچکا تو اب عوام کے شبہہ کا اعتبار نہیں۔ان کو حکم شرعی ماننے کا حکم ہے۔

اب اگر ایسی تدقیقات کی جائیں تولوگ یہی سمجھیں گے کہ آج بھی یہی حکم ہے۔

کفر کلامی،کفربدیہی ہے۔بدیہی کی دو قسمیں ہیں۔ بدیہی اولی اور بدیہی غیر اولی۔ بدیہی غیراولی میں کچھ پوشیدگی ہوتی ہے۔ جب علمائے کرام تحقیق وتدقیق کے بعد کسی کے کافر کلامی ہونے کاصحیح فتویٰ جاری کردیں،تب عوام وخواص سب پر ماننا لازم ہے۔

امام اہل سنت قدس سرہ العزیزنے ایک سوال کے جواب میں رقم فرمایا:”فتویٰ کہ فقیر نے کوٹہ بھیجا تھا، ا س کی نقل حاضر ہے۔ اس کے کون سے حرف میں ان کے لئے حکم کفر سے نجات ہے۔ اس میں دو شقیں کیں: اول یہ کہ کلمات دل سے کہے،اس پر یہ لکھا کہ:
”جب توا س کا کفر صریح ظاہر واضح ہے جس میں کسی جاہل کو بھی تامل نہیں ہوسکتا“۔
اس کا مفہوم مخالف صرف اس قدر کہ اگر دل سے نہ کہے تو کفرایسا واضح نہیں جس میں کسی جاہل کو بھی تامل نہ ہوسکے۔ نہ یہ کہ دل سے نہ کہے تو کفر ہی نہیں، کفر ضرور ہے۔
اگرچہ اس درجہ شدت ظہور پر نہیں کہ کو ئی جاہل بھی تامل نہ کر سکے، بلکہ اس سے ظاہر یہ ہے کہ دل سے نہ کہے جب بھی اس کے کفر میں کوئی جاہل تامل کرسکے، کسی اہل علم کو تامل نہیں ہوسکتا اور جاہلوں میں سب کو نہیں کسی کو، اور وہ بھی یقینا نہیں امکاناً، یعنی دل سے نہ کہے کی حالت میں احتمال ہے کہ شاید کوئی جاہل اس کے کفر میں تامل کرے، اور دل سے کہے تو اتنا احتمال بھی نہیں۔دوسری شق یہ کہ آریہ کودھوکادینے کے لیے استعمال کئے، دل سے ان کلمات ملعونہ کو پسند نہیں کرتا۔یہی وہ عذر ہے جو وہ اب بیان کرتے ہیں، ان کے بیان سے پہلے ہی فتوے میں اس کا رد موجود ہے کہ: ”دھوکے کاعذر محض جھوٹ اور باطل ہے“۔
(فتاویٰ رضویہ:جلد14:ص602-597-جامعہ نظامیہ لاہور)

کفر کلامی کی بعض صورتیں بالکل واضح ہوتی ہیں۔ ان میں فتویٰ کی ضرورت نہیں،بلکہ عالم کے فتویٰ دئیے بغیر عوام کو بھی شریعت کے واضح حکم پرعمل کرناہے، کیوں کہ شرعی حکم بالکل واضح ہوتا ہے،مثلاً زید اعلانیہ طورپر اسلام مذہب چھوڑ کر مجوسی بن گیا۔ مجوسیوں کی عبادت گاہ میں جا کر مجوسیوں کی طر ح عبادت کرتا ہے۔وہ خود کو مجوسی کہتا ہے۔ اب کوئی غیرعالم کہے کہ کسی عالم نے اس کے کفر کا فتویٰ نہیں دیا تو ہم اس کوکافر کیسے کہیں،پس یہ بات غلط ہے۔جب وہ اسلام کومانتا ہی نہیں تواسے مسلمان کیسے کہے گا؟

کفر کلامی کی جو صورت بالکل واضح یعنی بدیہی اولی ہو، اس میں مفتی کے فتویٰ کی ضرورت نہیں۔وہاں حکم شرعی واضح ہوتا ہے۔ عوام مسلمین کواسی پر عمل کرنا ہے۔کفرکلامی کی وہ صورت میں جس میں کچھ پوشیدگی ہو،یعنی کفربدیہی غیراولی ہوتوجب علمائے اسلام تحقیق وتدقیق کے بعد صحیح فیصلہ صادرفرمادیں تو عوام وخواص سب کواس حکم شرعی کوماننایعنی اس کی تصدیق کرنا لازم ہے۔ تکفیرکلامی کافیصلہ وہ علمائے کرام کریں گے جو شرعی اصول وضوابط اورعلم کلام سے کماحقہ واقف وآشنا ہوں۔تکفیراور تصدیق دونوں کے شرائط جدا گانہ ہیں۔

حکم شرعی کی تصدیق ہراس مسلمان پرلازم ہے جس کو اس کا علم ہو،خواہ وہ عالم ہو یاغیرعالم۔قادیانی اوراشخاص اربعہ کی تکفیر کلامی کے بعد اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان نے فرمایا کہ جوان لوگوں کو کافرنہ مانے، وہ کافر ہے۔ حکم شرعی بتانے سے قبل یہ نہیں فرمایا۔ فتویٰ سے قبل دیو بندیوں کی باطل تاویلات کے سبب عوام کو شبہہ ہو سکتا تھا۔ جب تحقیق کے بعد شرعی فیصلہ قوم کو سنادیا گیا تو اب شبہہ کاعذر ختم ہوگیا۔

(3)شبہہ کے سبب حکم شرعی کے انکار کی گنجائش نہیں۔ ملحدین توحیدورسالت پر شبہات واردکرتے ہیں،لیکن ان شبہات کے سبب توحید ورسالت کے انکار کا حق نہیں۔

نیز سب کو شبہہ لاحق نہیں ہوسکتا۔ یہود ونصاریٰ ہمارے رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کی نبوت ورسالت سے متعلق چودہ صدیوں سے شبہات وارد کرتے آرہے ہیں۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ ان شبہات کے سبب ایمان سے ہا تھ دھوبیٹھے ہوں، لیکن مومنین ان شبہات پر توجہ نہیں دیتے۔غلط لوگوں کی صحبت سے پرہیز کا حکم ہے،تاکہ ان کی صحبت بد کا اثر نہ ہوسکے۔

(4)بالفرض اگر کسی کو شبہہ ہوجائے تو خاص اس شخص کو سمجھا یا جائے گا،اور خود اس پر بھی لازم ہوگا کہ اپنے شبہات کو اہل علم کے سامنے رکھ کر حل کرلے۔سب کو شبہہ نہیں ہوتا۔

علامہ عزبن عبد السلام شافعی نے رقم فرمایا:(والاصح ان النظر لا یجب علی المکلفین الا ان یکونوا شاکین فیما یجب اعتقادہ-فیلزمہم البحث عنہ والنظر فیہ الی ان یعتقدوہ اویعرفوہ)
(قواعد الاحکام فی مصالح الانام:جزاول:ص 202-مکتبۃ الکلیات الازہریہ قاہرہ)

ترجمہ:اصح یہ ہے کہ مکلفین پر(اعتقادی امورمیں) غوروفکر لازم نہیں ہے، مگر جب انہیں ان امور میں شک ہو،جن کا اعتقاد واجب ہے تو انہیں ان امور کی تحقیق اور اس میں غور وفکر لازم ہے، یہاں تک کہ وہ اس کا اعتقاد کر لیں اوراسے جان لیں۔

(5)خلیل بجنوری کو شبہہ اور احتمال تھا، جس کے سبب وہ اشخاص اربعہ کے بارے میں کف لسان کرتا تھا۔وہ اپنے کف لسان پر دلیل بھی دیتا تھا،لیکن علمائے اہل سنت وجماعت نے اس کی تاویل اور کف لسان کو غلط بتایا اور اس پر حکم کفر نافذفرمایا۔

(6)اگر شبہہ کے سبب عوام کو معذور سمجھا جائے تو رافضی عوام،قادیانی عوام اور جملہ مرتد فرقوں کے عوام کے شبہات کا لحاظ کرنا ہوگا۔ تمام مرتد فرقے کے عوام مذکورہ قانون کے اعتبار سے معذور قرار پائیں گے، حالاں کہ اگر اسی قانون کوکوئی قادیانی فرقہ کے عوام کے لیے استعمال کرے تو کوئی بھی اس کو درست نہیں قرار دے گا۔ جب کہ قادیانی فرقہ اور دیوبندی فرقہ دونوں ہی مرتد فرقہ ہیں۔ دونوں کے بنیادی عقائد میں ضروریات دین کا انکار واستخفاف ہے۔

(7)امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا کہ عوام کو بھی حکم کفر ماننا ہے۔

عالم وجاہل سب پر لازم ہے کہ قادیانی و اشخاص اربعہ کوکافرمانیں۔
غیرعالم سے متعلق فتاویٰ رضویہ کے دو اقتباس منقولہ ذیل ہیں:
(1)(سوال دوم)زید مولویان فرقہ وہابیہ دیوبندیہ کوعالم دین سمجھتا ہے، اور ان کی تعظیم وتکریم بھی کرتا ہے،لیکن خود عالم نہیں ہے۔اب زید مذکور اہل سنت وجماعت کی امامت کر سکتا ہے یانہیں؟اور اس کی امامت سے نماز سنی کی صحیح ہے، یا کیا؟

اعلیٰ حضرت امام احمدرضاقادری قدس سرہ العزیزنے جواب میں رقم فرمایا:
”دیوبندیہ کی نسبت علمائے کرام حرمین شریفین نے بالاتفاق فرمایا ہے کہ وہ مرتد ہیں، اورشفائے امام قاضی عیاض وبزازیہ ومجمع الانہر ودر مختا ر وغیرہا کے حوالہ سے فرمایا کہ ”من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر“جوان کے اقوال پر مطلع ہوکر ان کے کفر میں شک کرے،وہ بھی کافر۔اوران کی حالت کفر وضلال اور ان کے کفری وملعون اقوال طشت ازبام ہوگئے۔ ہرشخص کہ نراجنگلی نہ ہو، ان کی حالت سے آگاہ ہے،پھر انھیں عالم دین جانے تو ضرور”منہم“ ہے،اور اس کے پیچھے نماز باطل محض:واللہ تعالیٰ اعلم“۔
(فتاویٰ رضویہ:جلد سوم:ص265 -رضا اکیڈمی ممبئ)

منقولہ بالا عبارت میں آخری حصے میں ان کی حالت کفروضلال اور ان کے کفری اقوال کی شہرت کا ذکر ہے۔ حالت کفر وضلال یہ ہے کہ حرمین طیبین سے ان لوگوں پر کفر کا فتویٰ آیا اور یہ لوگ تائب نہ ہوئے،پس اب تک کفر میں مبتلا ہیں۔ ان کے کفریہ عقائد اور ان پر نافذ شدہ حکم کفر مشہورومتواترتھے تواب جو ان کوکافر نہ مانے،وہ بھی کافر ہے۔
ہاں،اگر کوئی شخص حقیقت میں ناواقف ہوتو اس کودیوبندیوں کے کفریہ عقائد بتائے جائیں اورعلمائے عرب وعجم کے نافذکردہ کفر کلامی کے فتاویٰ کے بارے میں بتایا جائے۔ دیوبندیوں کے کفریہ عقائدکا قطعی علم اور فتویٰ تکفیر کا قطعی علم ہوجانے کے بعد بھی انکار کرے تو وہ کافرہے۔”منہم“کا مفہوم یہ ہے کہ جو ضروری تفصیل سے آگاہ ہوکر بھی اشخاص اربعہ کومومن مانے،وہ بھی کافرہے۔جس کو کچھ بھی معلوم نہیں، اس کا حکم درج ذیل ہے۔

(2)امام اہل سنت علیہ الرحمۃوالرضوان سے سوال ہوا:”جو اشخاص نہ عالم ہیں، نہ دیوبند کے تعلیم یافتہ۔نہ ان سے بیعت وعقیدت رکھتے ہیں۔محض اپنی لاعلمی عقائد کی وجہ سے ان کو کافر نہیں سمجھتے،اوران کے عقائد بھی ایسے بالکل نہیں ہیں،جن پر تکفیر لازم آتی ہے تو ان کے پیچھے نماز پڑھنی چاہئے،یاتنہا بہتر ہے“؟
(فتاوی رضویہ:جلد نہم: جز دوم:ص313-رضا اکیڈمی ممبئی)

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃوالرضوان نے جواب رقم فرمایا:”سائل صورت وہ فرض کرتا ہے جو واقع نہ ہوگی۔دیوبندیوں کے عقائد کفر طشت ازبام ہو گئے۔منکر بننے والے اپنی جان چھڑانے کے لیے انکار کرتے ہیں کہ ہمیں معلوم نہیں۔جو منکر ہو،اس سے کہئے۔فتاویٰ موجود وشائع ہیں۔دیکھو کہ کافروں کا کفر معلوم ہو، اور دھوکے سے بچے،اور ان کے پیچھے نمازیں غارت نہ کرو۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دشمنوں سے دشمنی فرض ہے۔اس فرض پر قائم ہو تو کہتے ہیں۔ہمیں کتابیں دیکھنے کی حاجت نہیں۔یہ ان کا کید ہے۔ان کے دل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عظمت ہوتی تو جن کی نسبت ایسی عام اشاعت سنتے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا دشنام دہندہ ہے،اس سے فوراً خود ہی کنارہ کش ہوتے اور آپ ہی اس کی تحقیق کو بے قرار ہوتے۔کیا کوئی کسی کو سنے کہ تیرے قتل کے لیے گھات میں بیٹھا ہے،اعتبار نہ آئے تو چل تجھے دکھا دوں۔وہ یوں ہی بے پرواہی برتے گا،اور کہے گا۔مجھے نہ تحقیقات کی ضرورت،نہ اس سے احتراز کی حاجت۔تو یہ لوگ ضرور مکار اور بباطن انہیں سے انفار،یا دین سے محض بے علاقہ و بے زار ہوتے ہیں۔ان کے پیچھے نماز سے احتراز فرض ہے۔ہاں،اگر واقع میں کوئی نو وارد یا نرا جاہل یا ناواقف ایسا ہو جس کے کان تک یہ آوازیں نہ گئیں اور وہ بوجہ ناواقفی محض انہیں کافر نہ سمجھا،وہ اس وقت تک معذور ہے جب کہ سمجھانے سے فورا ًحق قبول کر لے“۔
(فتاوی رضویہ جلد نہم: جز دوم:ص313۔رضا اکیڈمی ممبئی)

امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے دیوبندیوں کے کفریہ عقائد سے لاعلمی کا مفہوم بیان کیا کہ لاعلمی سے مراد یہ ہے کہ اس کے کان بھی ان عقائدسے ناآشنا ہوں،یعنی وہ دیوبندیوں کے کفریہ عقائد سنا ہی نہ ہو۔بالکل لاعلم ہو۔دوسری بات یہ کہ وہ بتانے کے بعد حق کوقبول کرلے، تب معذور۔اگر بتانے کے بعد بھی نہ مانے تو معذورنہیں،بلکہ شرعی حکم وارد ہوگا۔آج کل لوگ جان بجھ کر انکار کر رہے ہیں،دوسری جانب عجیب وغریب تحقیقات وتدقیقات منظر عام پر آرہی ہیں۔مذبذبین کا قافلہ بھی میدان میں سرگرداں ہے۔

امام اہل سنت علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ ایسی صورت واقع ہونا مشکل ہے،کیوں کہ دیوبندیوں کے کفریہ عقائد کا شہرہ چاروں طرف ہے،پس جولوگ کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں،وہ فریب دیتے ہیں۔اس مفہوم کو ایک مثال سے بھی آپ نے واضح فرمایا۔

الحاصل معذو ر وہی ہے جس کو کچھ بھی معلوم نہیں۔ جس عام آدمی یعنی غیر عالم کو یقینی طورپر اشخاص اربعہ کے کفریہ عقائد معلوم ہیں اور ان لوگوں پرنافذکردہ کفر کلامی کے حکم پر اطلاع ہے، وہ اگر اس حکم شرعی کو نہ مانیں تو معذور نہیں، بلکہ ان پر شرعی حکم وارد ہوگا۔

متعلقات حکم مثلاً شرائط ولوازم اوردلیل تکفیر یا کلام کا کفری معنی میں مفسر ومتعین ہونا ودیگر امور کا مکمل علم ہونا عوام پر لازم نہیں۔ نہار الرجال ایک صحابی تھاجو مسلمہ کذاب سے جاملا۔اس کی نبوت کوصحیح بتانے لگا۔ حضور اقدس علیہ الصلوٰۃوالسلام سے اسے نجد ویمامہ کے لوگوں کی تعلیم کے واسطے بھیجا تھا۔ وہ کافر ہوگیا۔اس کا قول تواتر سے مروی نہیں،پس احتمال فی التکلم ثابت ہے، لیکن چودہ صدیوں سے امت مسلمہ اسے کافر مانتی ہے۔ عہد جدید کا جدید محقق کہہ سکتا ہے کہ احتمال فی التکلم کے سبب ہم اسے کافر نہیں مانیں گے،لیکن ا س کے کفر پر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا اجماع ہے۔

نہار الرجال بن عنفوہ یمامہ کا رہنے والا صحابی تھا۔اس نے مدینہ شریف آکر حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے قرآن مقدس کی تعلیم حاصل کی۔اسلامی علوم میں اسے اچھا عبو ر حاصل ہوگیا۔حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حیات دنیاوی کے آخری مرحلے میں مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا اور یمامہ اورنجدکے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے لگا اور لوگ اس کی ضلالت میں مبتلا ہونے لگے۔

حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مسیلمہ کذاب کی خبرسن کر یمامہ اور نجد کے علاقہ کے مسلمانوں کی تعلیم کے لیے نہارالرجال کو یمامہ بھیجا۔یہ وہاں جاکر مسیلمہ کذاب کی شعبدہ بازیوں سے ایسا مسحور ہواکہ خود ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

مسیلمہ کی نبوت کا قائل ہوگیا۔قرآن مقدس کی آیتوں کی غلط تفسیر بیان کرنے لگا اور حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی طرف یہ جھوٹا قول منسوب کردیا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مسیلمہ کونبوت میں اپنا شریک بنایا ہے۔وہ مسیلمہ کذاب کا دست راست بن گیا۔

لوگ نہار الرجال کوصحابی سمجھتے تھے۔جب اس نے مسیلمہ کذاب کی موافقت کردی تو بہت سے مسلمان اس کے فریب میں مبتلا ہوکر مسیلمہ کذاب کونبی ماننے لگے۔

جب عہد صدیقی میں ربیع الاول ۲۱ھ؁میں حضرت خالدبن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قیادت میں مسیلمہ کذاب سے جنگ لڑی گئی تو نہارالرجال حضرت زید بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھوں قتل ہوا۔اس واقعہ سے ثابت ہوگیا کہ عہد صدیقی کے فتنہ ارتداد کے وقت بعض صحابی اوربہت سے تابعین ارتداد کے شکار ہوگئے۔
محدث دارقطنی نے رقم فرمایا:(عن عبید بن عمیر عن أثال الحنفی قال: کان نہار الرجال بن عنفوۃ قد ہاجر إلی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وقرأ القرآن وفقہ فی الدین فبعثہ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم معلمًا لأہل الیمامۃ فکان أعظم فتنۃ علی بنی حنیفۃ من مسیلمۃ-شہد لہ أنہ سمع محمدًا صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول:قد أشرک معہ فی الرسالۃ-فصدقوہ واستجابوا لہ.
وروی عن أبی ہریرۃ قال:جلست مع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی رہط ومعنا الرجال بن عنفوۃ فقال:” إن فیکم لرجلا ضرسہ مثل أحد”
فہلک القوم وبقیت انا والرجال-فکنت متخوفا لہا حتی خرج الرجال مع مسیلمۃ وشہد لہ بالنبوۃ
وقتل الرجال یوم الیمامۃ بین یدی مسیلمۃ قتلہ زید بن الخطاب)
(المؤتلف والمختلف للدارقطنی جلد سوم:ص181-مکتبہ شاملہ)

توضیح:اس شخص کو رجال اور نہارالرجال دونوں کہا جاتا ہے۔جیم مشدد ہے۔ جیم ورا دونوں فتحہ کے ساتھ ہیں۔مذکورہ بالا روایت متواتر نہیں،نہ ہی کوئی متواتر روایت ملتی ہے جس میں نہارالرجال کا قول تواترسے مروی ہو۔اس کے باوجود اس کو کافر ماننا لازم ہے۔

جن حضرات نے کفر کلامی کا حکم نافذکیا ہے، ان کے لیے تمام احتمالات کا خاتمہ لازم ہے۔ بعد کے زمانوں میں حکم کفر اور کفریہ قول منقول ہوتا ہے۔ اگر ہر زمانے کے مسلمانوں کے لیے احتمال فی الکلام، احتمال فی التکلم واحتمال فی المتکلم کے خاتمے کی شرط لگا دی جائے تو معاملہ مشکل ہوجائے گا۔امت حرج میں مبتلا ہوجائے گی۔

کتاب الشفا اور اس کی شروحات میں مرقوم ہے کہ جب کسی کے کفر پر اس زمانے کے علما کا اجماع ہوجائے تو بعد والوں کو انکار کا حق حاصل نہیں۔ ہمارے رسالہ (مسئلہ تکفیر تحقیقی یا تقلیدی؟)میں تفصیل مرقوم ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے