ازقلم:محمداسرار الحق قادری مصباحی
دارالعلوم فیضان سیدنا اور نگ آباد (بہار)
ورفعنالک ذکرک کا ہے سا یہ تجھ پر
بول بالا ہے تیرا ذکر ہے اونچا تیرا
بندگان خدا میں وہی شخص عند اللہ مقبولیت و محبوبیت کے منصب پہ فا ئز ہوتا ہے جو اپنی زندگی کو ایمان وتقویٰ وعمل صالح کی کسوٹی میں ڈھال لیتا ہے ۔اسی جانب قرآن بنی آدم کو ایمان و عمل صالح کی ترغیب دیتے ہوئے اشارہ کر تا ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا ۔ان الذین آمنو اوعملو الصلٰحت سیجعل لھم الرحمٰن ودا (سورہ مریم آیت ۹۷)بیشک وہ جو ایمان لائے اور اچھے کا م کیے ٗعنقریب ان کے لئے رحمٰن محبت پیدا کر دے گا ۔ ماضی قریب کے ایک عظیم مفسر و محقق علامہ سید نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ آیت کریمہ کی تفسیر کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ اس سے معلوم ہو ا کہ موٗمنین و صالحین اولیا ٗکا ملین کی مقبولیت عامہ ان کی محبوبیت کی دلیل ہے ۔
بار گاہ کبریا میں اولیا ءکاملین کی مقبولیت و محبوبیت کے تعلق سے حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جس حدیث کو امام تر مذی نے اپنے جا مع میں نقل فر مایا ہے ۔
عن ابی ھریرۃ ان رسول اللہ ﷺقال اذااحب اللہ عبدانا دیٰ جبرئیل انی قد احببت فلانافا حبہ قال فینادی فی السما ء ثم تنزل لہ المحبۃ فی اھل الارض ( جامع ترمذی جلد دوم ابواب التفسیر)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ اگر اللہ تعا لی کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل سے فر ماتا ہے کہ میں فلاں بندہ سے محبت کر تا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو نبی اکرم ﷺ ارشاد فر ماتے ہیں کہ جبرئیل علیہ السلام آسمان والو ں میں اس کا علان کر تے ہیں اور اس کی محبت زمین والوں کے دلوں میں اتار دی جاتی ہے ۔
شرق وغر ب اور جنوب و شمال کے طول عرض میں بے شمار اولیا ء کا ملین خلق خدا کی دستگیری و رہنمای کی خا طر جلوہ افروز ہوئے جن کی ذات با برکات سے خلق کثیر منتفع ومستفیض ہوئی ۔ توحید کی دعوت وتبلیغ کی خدمات حضرت سرکار دو عالم ﷺ و جملہ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے بعد اسلام کے متد ین علماء و صوفیا ء انجام دیتے رہے ہیں ،جن کی کاوشوں اور اخلاق و کردار سے دین اسلام کا پوری دنیا میں خوب فروغ ہوا انہی صوفیا ء میں ایک عظیم ہستی ہیں جن کی ذات خا صان خدا کے مابین بے حد مقبول اور محبوب تھی ، یعنی محبوب سبحانی و اقف اسرار معانی سید نا شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ آپ دنیا ےء تصوف میں محتاج تعارف نہیں ، آپ کے سلسلہ کو تمام سلا سل پہ تفوق حاصل ہے ، بلکہ جملہ سلا سل کے اولیا ء ٖ فیضان قادریت کے محتاج ہیں ۔
ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم (حدید آیت ۲۱) یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاھتا ہے عطا کر تا ہے اور اللہ تعا لیٰ بڑا ٖفضل والا ہے ۔
سید محمد مکی رحمتہ اللہ علیہ فر ماتے ہیں حضرت سیدنا غوث آعظم رحمتہ اللہ علیہ کو جتنی مقام محبوبیت میں شہرت ملی ہے یہ شہرت دوسروں کو حاصل نہیں سیدنا عبد القادر جیلانی کی محبوبیت ایسی ہی مشہور ہے جیسی رسول اکرم ﷺ کی محبوبیت مشہور ہے کیونکہ غوث آعظم سرکار دو عالم ﷺ کے قدموں پر ہیں ۔
سید نا شیخ عبد القادر جیلانی کی جس رات ولادت با سعادت ہوئی اس رات سید ابو صالح جنگی دوست رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے خواب میں حضور تشریف لا کر ارشاد فر مایا بیٹا ابو صالح تجھے مبارک ہو اللہ تعالیٰ نے جو بیٹا تجھے عطاکیا ہے وہ میرا بیٹا و محبوب ہے ۔ مقام و رتبہ کے لحاظ سے اولیا ء میں ایسا ہی ہوگا جس طرح میرا مقام و مرتبہ انبیاء و رسل کے درمیان ہے (ماخو ذتفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبد القادر )
ولادت و خاندانی وجاہت
سیدنا سیخ عبد القادر جیلانی یکم رمضان المبارک ۴۷۰ھ کو ایران کے مشہور شہر جیلان میں پیدا ہوئے اسلئے آپ کو جیلانی بھی کہا جاتا ہے ۔والد محترم کانام ابو صالح جنگی دوست ،والدہ مخدومہ کانام ام الخیر امتہ الجبار فاطمہ ہے آپ کا سلسلہ نسب حضرت حسن مثنیٰ قدس سرہ سے ہوتے ہوئے سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہونچتا ہے ۔اور والدہ ماجدہ کی طرف سے آپ کاسلسلہ خاندان امام حسین رضی اللہ عنہ سے وا بستہ ہے اس لئے آپ خاندانی شرافت اور نسبی وجاہت کے اعتبار سے حسنی اور حسینی سید ہیں ۔
اسی کی جانب اشار ہ کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نے فر مایا ۔
تو حسینی حسنی کیوں نہ محی الدین ہو
اے خضر مجمع بحرین ہے دریا تیرا
تحصیل علم
آپ نے سات (۷) سال کی عمر میں قرآن مجید کا حفظ مکمل کر لیا تھا ،پھر علوم عقلیہ و نقلیہ کی تحصیل میں اٹھارہ سال کی عمر میں بغداد کے مشہور درسگاہ جامعہ نظامیہ میں داخلہ لیا ۔اور ابو ز کریا ،ییحیٰ بن علی ،علی بن عقیل ، محمد بن حسن با قلانی جیسے اصحاب علم و فضل کی صحبت اختیار فر ما کر مختلف علوم و فنون مثلاً تفسیر حدیث ،فقہ،اصول فقہ ، ادب کی تعلیم حاصل کی ، بعدہ علم تصوف کی طرف سے متوجہ ہوئے اور حضرت حماد دباس کی خدمت میں حاضر ہو کر علم تصوف کی تکمیل کی ۔علم فقہ میں آپ کو کافی دسترس حاصل تھا بلکہ آپ درجہ اجتہادپہ فائز تھے ۔چنانچہ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ تعا لیٰ علیہ آپ کے علمی تفوق کے تعلق سے لکھتے ہیں ،مشہور ہے کی حضرت غوث اعظم تمام علماء عراق کے مرجع بلکہ تمام دنیا کے طالبان علم کے مرکز تھے اطراف عالم سے آپ کے پاس فتاویٰ آتے تھے جنکا غور و فکر اور مطا لعہ کتب کے بغیر فوراً آپ صحیح جواب لکھتے بڑے بڑے متبحر عالم کو آپ کے خلاف ذرا سا بھی لکھنے یا کہنے کی مجال نہ تھی ۔ایک مرتبہ آپ کی بارگاہ میں ایک فتویٰ آیا جس میں تحریر تھا کہ کیا فرماتے ہیں سا دات علماء اس مسئلہ میں کہ ایک شخص نے یہ قسم کھائی کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کی ایسی عبادت نہ کرے جس عبادت میں افراد انسانی میں کوئی بھی شخص کسی بھی جگہ اس کا شریک نہ ہو تو اس کی بیوی پر تین طلاق ۔ تو آپ نے فوراً بغیر غوروفکر کیے جواب دیا کہ خانہ کعبہ کو طواف کر نے والوں سے خالی کر الیا جائے پھر یہ شخص تنہا طواف کرے تو اس کی قسم نہ ٹوٹے گی ۔ (اخبار الاخیار مترجم صفحہ ۳۵)
کمال علم کا عالم یہ تھا کہ آپ اپنی مجلس جس میں کثیر تعداد میں علما ء و فضلاء کی شرکت ہو تی تھی ایک ایک آیت کی متعدد تفسیر بیا ن فر مایا کر تے تھے ۔ اہل مجلس کچھ تفاسیر سے واقف ہوتے بقیہ میں اپنے لا علمی کے پیش نظر حیرت و استعجاب کا اظہار فر ماتے ۔ چنانچہ حضرت عبد الرحٰمن جوزی سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی کی مجلس میں حافظ ابو العباس احمد بن احمد البغدادی اور علی بن الجوزی شریک تھے ۔قاری نے ایک آیت کی تلاوت کی شیخ عبد القادر جیلانی نے اس آیت کی تفسیر بیان کیا جس سے یہ حضرات واقف تھے اس کے بعد آپ نے ۴۰؍معانی بیان فر مائے جس میں سے یہ دونوں گیا رہ معانی جانتے تھے بقیہ معا نی اس قدر عمدہ اور عزیز تھے کہ شیخ کی وسعت علم وفضل سے اہل مجلس کی حیرت واستعجاب میں مزید اضافہ ہو گیا ۔(بھجتہ الاسرار ص۳۴۳ )
مشائخ وقت کے تائثرات
حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کشف وکرامت اور مجاہدات وتصرفات کی بعض خصو صیات کے لحاظ سے اولیاء صوٖفیا ء کی صفوں میں ایک خصوصی امتیاز حاصل ہے ۔اولیا ئے متقد مین اور بڑے بڑے صاحبان کشف حال صلحا نے آپکی عظمت و رفعت کا اعتراف کیا ہے نسبی شرافت اور خاندانی و جاہت کے علاوہ علمی جلالت ،عملی عظمت ، کمال ولایت ،کثرت کرامت کی جامیعت کی وجہ سے جو شہر ت اور مقبولیت آپ کو حاصل ہوئی کسی اور ولی کو حاصل نہ ہوئی ۔آپ کی شان میں مشائخ دہر نے کلمات تحسین پیش کئے چنانچہ حضرت شیخ علی بن ہیتی فرماتے ہیں میں نے اپنے زمانے میں شیخ عبد القادر جیلانی سے زیادہ کرامت والا کو ئی نہ دیکھا ۔شیخ احمد بن ابو بکر خزیمی نے فر مایا کہ حضرت شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کرامات اس ہار کی طرح ہیں جس میں جواہر تہ بر تہ ہیں ۔شیخ شہا ب الدین سہر وردی نے فرمایا شیخ عبد القادر بادشاہ طریقت اور موجودات میں تصرف کرنے والے تھے ۔امام عبد اللہ یا فعی نے فرمایا حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جن کرامات کا صدور ہوادنیا کے کسی شیخ میں ایسی کرامتیں نہیں پائی گئیں (ماخوذازاخبار الاخیار صفحہ ۴۵)
سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت طیبہ کے نمایاں کا رنامہ یہ ہے کہ آپ نے کثیر بندگان خدا کو اپنی کرامات اور اخلاق و کردار سے داخل اسلام کیا ۔یہودو نصاریٰ کی ایک بڑی تعداد آپکی پندونصائح سے متا ثر ہوکر مشرف با اسلام ہوئی ۔ضال ومضل افراد کی جماعت بھی آپکے ہاتھوں پہ تا ئب ہو کر نور ہدایت پائی ۔
اخلاق و عادات
آپ کے اخلاق و عادات انک لعلیٰ خلق عظیم کا نمونہ اور انک لعلیٰ ھدی مستقیم کا مصداق تھے ۔ آپ عالی مرتبت ،جلیل القدر ،وسیع العلم اور شان وشوکت کے باوجودضعیفوں کی مجالست،فقیروں کی صحبت پسند فرماتے اور ان کے ساتھ تواضع سے پیش آتے ، بڑوں کی عزت چھوٹوں پہ شفقت سلام میں پہل فرماتے ، انتہائی خوش اخلاق ،ملنسار خندہ رو، نرم طبیعت کریم الاخلاق پاکیزہ اوصاف اور شفیق و مہربان تھے ، جلیس کی عزت اور مغموم کی امداد فر ماتے ۔نا فرمانوں سرکشوں ،ظالموں اور مالداروں کے لئے کبھی کھڑے نہ ہوتے
نہ کبھی کسی وزیر و حاکم کے دروازے پر جاتے ۔مشائخ وقت میں سے کوئی بھی آپ جیسا حسن خلق ، وسعت قلب کرم نفس اور عہدکی نگہداشت کر نے والا نہیں تھا ۔(بھجتہ الاسرار مترجم ص۳۰۲)
تاریخ وصال :۔ سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی وفات سے چند دن قبل اپنے احباب و اقارب کو بتا دیا تھا کہ اب میری وفات کا وقت قریب ہے ۔چنانچہ ۲؍ماہ علیل رہ کر اکیا نوے سال کی عمر ۱۱؍ربیع الثا نی ۵۶۱ھ کو رات میں اس دارفانی کو خیر باد کہا ، آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت سید شاہ عبد الوہاب قادری نے جنازہ پڑھایا پھر آپ مدرسہ قادریہ کے صحن میں دفن کئے گئے ۔آپ کی ذات حیات وممات دونوں حالتوں میں خلق خدا کے لئے فیض بخش ہے خدا وند کریم آپکے فیض سے جملہ مسلمانان عالم کو مستفیض فرمائے ۔آمین