حضور غوث اعظم

تعلیماتِ غوثیت مآب کی اہمیت و افادیت کو سمجھنا اور سمجھانا وقت کی اہم ضرورت

مسلم معاشرے کو بالعموم اور نوجوان نسل کو بالخصوص جنسی، اخلاقی، معاشرتی، مذہبی اور روحانی خرابیوں اور برائیوں سے بچانے اور ان کی اسلامی منہج پر ذہنی و فکری تربیت کرنے کے لیے تعلیمات غوثیت مآب کو عملی طور پر ان تک پہنچانا وقت کا اہم تقاضہ اور ضرورت ہے۔ چونکہ آج کا مسلم معاشرہ نہ صرف تیزی سے گناہوں کی طرف مائل ہورہا ہے بلکہ رفتہ رفتہ احساس گناہ سے بھی محروم ہوتا جارہا ہے اور احساس سے عاری ہونا کسی بھی قوم و ملت کی تباہی کی علامت ہوا کرتی ہے چونکہ جس قوم کا احساس زیاں جاتا رہتا ہے وہ قوم مردہ ہوجاتی ہے اور اس کی دنیا میں کوئی وقعت باقی نہیں رہ جاتی اگرچہ وہ تعداد میں زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آج امت مسلمہ جو دنیا کی دوسری بڑی آبادی ہے لیکن اس کے باوجود انتہائی ذلت و رسوائی کی زندگی گزار رہی ہے اور یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ اسی قوم کا حال اور مستقبل روشن ہوتا ہے جو اپنے عظیم تر ماضی سے سیکھتی ہے اور اس کو عملی جامہ پہنانے کی بھرپور کوشش کرتی ہے۔ لہٰذا آج کے اس نازک ترین دور میں دین حنیف کی نشر و اشاعت، اسلامی تہذیب و ثقافت کی حفاظت اور طاغوتی طاقتوں سے لڑنے کے لیے ہم تمام مسلمانوں کی اخلاقی و مذہبی ذمہ داری ہے کہ خالق اسباب پر کامل و اٹوٹ بھروسہ کرتے ہوئے تسلسل کے ساتھ تعلیمات غوثیت مآب حضور سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانیؓ (جو تعلیمات اسلامی کا لب لباب اور نچوڑ ہے) کو عام کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھیں جو معاشرے میں دینی و اخلاقی اقدار پیدا کرنے کے لیے از حد ضروری ہیں۔

حضور شہباز لامکانی پیران پیرؓ کی ولادت باسعادت ایسے پرآشوب دور میں ہوئی تھی جب فتنے اور گمراہیاں اپنے بام عروج پر تھیں، بہتر فرقے معرض وجود میں آچکے تھے آپؓ نے ان تمام کا سد باب علم و عمل، تقوی و طہارت اور اخلاق و کردار کے ذریعہ فرمایا لہٰذا وہ تمام لوگ جو سلسلہ عالیہ قادریہ سے وابستہ ہیں ان کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ کردار غوثیت مآبؓ کی متابعت کرتے ہوئے معاشرے سے خرابیوں اور برائیوں کو مٹانے اور دینی بنیادوں پر معاشرے کی تشکیل کے لیے کمر بستہ ہوجائیں۔ چونکہ یہ ناممکن ہے کہ سلسلہ قادریہ سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد کسی بھی میدان میں کمزور و ناتواں واقع ہو۔ آج ہم جو قادری ہونے کے باوجود دین سے دور ہوتے جارہے ہیں اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس آپؓ کی تعلیمات سے زیادہ خرافات کی اہمیت زیادہ ہوگئی ہے۔ آج امت مسلمہ بے شمار مسائل سے پریشان ہیں لیکن ان میں ایک مسئلہ وہ ہے جو تمام مسائل کی بنیاد ہے یعنی تعلیمی پسماندگی۔ اگر اس مسئلہ کو حل کرلیا جائے تو تمام مسائل از خود حل ہوجائیں گے ۔ تاجدار ولایت حضور پیرانِ پیرؓ کی پوری زندگی حصول و اشاعت علم سے عبارت رہی ہے ۔آپ کی علمی شان کا اندازہ اس بات سے آسانی سے لگایا جاسکتا ہے کہ خراسان، ایران،افغانستان، طبرستان، مصر، شام، اردن، حجاز کے طلباء کے علاوہ اپنے وقت کے اکابر علماء تفسیر، حدیث، فقہ، تصوف، کلام، فلسفہ اور مشائخین کی کثیر تعداد مرجع علمائے زمن پیرانِ پیرؓ کی مجلس وعظ و نصیحت میں شریک ہوکر مستفید و مستفیض ہوا کرتی۔ آپؓ تقریباً 13 علوم کا درس دیا کرتے تھے اور ہر مسئلہ کی توضیح کے لیے نہ صرف معانی و مفاہیم کو دلنشین انداز میں بیان فرمایا کرتے بلکہ مسئلہ کی تائید میں مستند علمی دلائل بھی دیا کرتے جس کی وجہ سے دقیق مسائل کو سمجھنا عوام الناس کے لیے بہت آسان ہوجایا کرتا تھا اور یہ سلسلہ 40 سال تک جاری و ساری رہا ۔آپ کی مجلس وعظ و نصیحت کی مقبولیت عامہ کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ شرکاء مجلس کی تعداد میں مسلسل اضافہ کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ نے عیدگاہ کا رخ فرمایا اور وہاں سے لوگوں کے قلوب کو منور و مجلا فرمایا کرتے تھے اور آپ کی مجلس وعظ و نصیحت کا اثر یہ ہوتا کہ آپ کے دست حق پرست پر نہ صرف کفار و مشرکین، یہودی و عیسائی، روافض اور بدکردار لوگ بلکہ جنات بھی توبہ کرتے اور اسلام قبول کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی علمی شان و رفعت کا ایک زمانہ معترف رہا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا چونکہ آپ کی ذات اقدس و اطہر ’العلماء ورثۃ الانبیاء‘ کی عملی تصویر ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ ؓ کو تعلیم و تعلم سے کس قدر شغف تھا جس کا اندازہ آپ کی تصانیف منیفہ کے مطالعہ سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ نسبت قادری پر ناز کرنے والے اور محفل یازدھم کا بصد عقیدت و احترام انعقاد کرنے والے مریدین، معتقدین، متوسلین ذرا غور کریں کہ جس عظیم الشان ہستی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ہم گیارہویں شریف منارہے ہیں وہ تو علم کا سمندر ہے اور ہم تعلیمی پسماندگی کا شکار ہیں کیوں؟ کیا یہ ممکن ہے؟ ہرگز نہیں! بلکہ اگر کہیں ایسا ہورہا ہے تو یہ تو نسبت قادریت کی توہین ہے۔ لیکن صد افسوس کہ حقیقت حال یہی ہے کہ مسلمانوں کے تمام فرقوں میں سب سے زیادہ تعلیمی گراف جس کا گرا ہوا ہے وہ طبقہ اہل سنت و الجماعت ہے اور اہل سنت والجماعت کے تمام مکاتب فکر میں تعلیمی طور پر سب سے کمزور اور پسماندہ وہ طبقہ ہے جو خانقاہی نظام سے وابستہ ہے ۔اس کی اہم وجہ ہماری کم علمی اور کج فہمی ہے۔ آج ہماری فکر کو اس قدر زوال آچکا ہے کہ آج ہم ہر کس و ناکس اور لباس خضر میں پھرنے والے رہزنوں کو اپنا رہبر و پیشوا بنالیتے ہیں ۔ آج ہم نے نہ صرف علم سے اپنا تعلق توڑ لیا ہے بلکہ خانقاہی نظام پر تقریباً ایسے لوگوں کو تسلط دے دیا ہے جو علمی اعتبار سے بالکل صفر ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ حضور غوث پاکؓ کی مجلس وعظ و نصیحت میں ہزاروں کی تعداد میں علماء شریک ہوتے تھے اور آج کے نام نہاد متصوفین کے حلقہ ارادت میں بمشکل کوئی صاحب علم و فضل نظر آتا ہے۔ خانقاہی نظام کے سربراہوں کی اکثریت ایسے لوگوں کی ہوگئی ہے جو اتنی تعداد میں احادیث بھی نہیں جانتے جتنی تعداد میں حضور سلطان ولایت ؓ نے اساتذہ کرام سے علوم حدیث حاصل کیا اور جب ایسا ہوگا تو معاشرے میں جہالت کا عام ہونا اور مسلمانوں کا پریشان حال ہونا یقینی ہوجاتا ہے۔ محبوب سبحانی حضور سیدنا پیران پیرؓ کا ارشاد مبارک ہے کہ علم کا تقاضہ عمل ہے اور انسان اس تقاضہ کو پورا کرے تو دنیا کو ترک کردے گا۔ خانقاہی نظام سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت پہلے تو علم سے بے بہرہ ہے اور اگر کوئی علم و فضل کا حامل ہے تو اس کے پاس اخلاص کی کمی نظر آتی ہے یہی وجہ ہے کہ پہلے بادشاہان وقت اور سربراہان مملکت صوفی با صفا سے ملاقات کرنے کو اپنے لیے سعادتمندی تصور کرتے تھے اور آج خانقاہی نظام میں اس قدر انحطاط آگیا ہے کہ آج کل کے متصوفین صاحب اقتدار کے ساتھ فوٹو لینے پر نازاں نظر آرہے ہیں۔ اسی لیے قندیل نورانی پیران پیرؓ نے فرمایا بلا اخلاص کے کیا ہوا عمل بے فائدہ مشقت کے مترادف ہے ۔ متصوفین کی انہی بداعمالیوں کا نتیجہ ہے کہ خانقاہی نظام سے معاشرے کو جو فیض پہنچنا چاہئے وہ نہیں پہنچ رہا ہے بلکہ لوگ خرافات کا شکار ہوکر مزید گمراہ ہورہے ہیں۔ خانقاہی نظام کی تباہی کی دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ آج یہ پیسہ بٹورنے کے مراکز بن گئے ہیں جس کا تصوف اور اہل تصوف سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ چونکہ وہ شخص صوفی ہوہی نہیں سکتا جس کے تمام تفکرات اس کی ذات تک محدود ہوں بلکہ حقیقت میں صوفی وہ ہوتا ہے جس کے پیش نظر بلامذہب و ملت عوام کی دینی و دنیاوی فلاح و بہود ہو۔روشن ضمیر حضور سیدنا پیران پیرؓ کا ارشاد مبارک ہے کہ بہترین عمل لوگوں کو دینا ہے لوگوں سے لینا نہیں۔ ایک زمانہ تھا جب لوگ خانقاہوں سے فیض پاک کر دنیا و آخرت سنوارنے میں کامیاب ہوجاتے تھے جب سے خانقاہی نظام میں گراوٹ آنی شروع ہوئی ہدایت کے دروازے بند ہوچکے ہیں اب تقریباً خانقاہیں میں صرف نذرانے بٹورے جارہے ہیں اور یہاں خرافاتی افعال کا دور دورہ ہے۔ جو سردار اولیاء حضور پیران پیرؓ کے ارشاد مبارک کو فراموش کرنے کا خمیازہ اور نتیجہ ہے۔خانقاہی نظام کی تباہی کی تیسری اہم وجہ یہ ہے کہ آج خانقاہی نظام تقریباً ایسے لوگ چلا رہے ہیں جن کے دل دنیا پرستی میں غرق ہیں اپنے مفادات کے حصول کے لیے وہ لوگ جو اپنے آپ کو پیر طریقت کہتے ہیں عدالتوں میں جھوٹی قسمیں کھانے سے بھی گریز نہیں کررہے ہیں جبکہ اسلام میں ایک عام مومن کو بھی جھوٹی گواہی دینے کی اجازت نہیں ہے۔ شہنشاہ بغداد حضور سیدنا پیران پیرؓ کا ارشاد مبارک ہے کہ میرا مرید وہ ہے جو اللہ کا ذکر کرے اور میں اس شخص کو ذاکر نہیں مانتا جس کا دل اللہ کا ذکر نہ کرے۔ اور یہ امر محال ہے کہ جس کا دل ذکر الٰہی سے معمور ہو اس دل میں دنیا کی محبت پیدا ہوجائے۔ لیکن صد حیف کہ آج ہم نے حضور سیدنا غوث پاکؓ کے ارشاد پر عمل کرنے کے بجائے ریاضات و مجاہدات، مراقبات، مشاہدات جو تصوف کی روح ہے کو فراموش کرکے ثانوی چیزوں کو زیادہ اہمیت دینی شروع کردی ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم ان جعل ساز لوگوں کو پیر کامل سمجھتے ہیں جن کے سر پر رنگ برنگی عمامہ شریف ہو، جن کے تن پر قیمتی شیروانی اور عبا ہو، جن کے پیر میں کھڑانو ہو، جن کے ہاتھ میں تسبیح ہو، جن کے آگے پیچھے خدام کا جم غفیر ہو، اگرچہ ان لوگوں کا علم و عمل سے کوئی تعلق نہ ہو، اگرچہ وہ لوگ تقوی و طہارت سے بالکل عاری ہوں، اگرچہ ان کا کردار مسخ ہی کیوں نہ ہو۔ ایک دور وہ تھا جب لوگ بزرگان دین کی صحبت اختیار کرنے کو ایمان کی حفاظت اور سعادت عظمی کے حصول کا اہم ذریعہ سمجھتے تھے اور حقیقت بھی یہی ہے لیکن چند نام نہاد، مفاد پرست اور ناعاقبت اندیش متصوفین کی بداعمالیوں اور بدکرداریوں سے عوام الناس اس قدر بدظن ہوگئے ہیں کہ ان لوگوں نے اپنا رشتہ اولیاء کاملین سے توڑنا شروع کرلیا اور اہل تصوف سے عقیدت رکھنے والوں کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے اور یہ سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ اس کی ذمہ داری نہ صرف ان لوگوں پر ہے جو صوفیاء کرام جیسا لباس پہن کردین کے نام پر دنیا کمانے میں مصروف ہیں بلکہ وہ لوگ بھی اتنے ہی ذمہ دار قرار پاتے ہیں جو بغیر کسی تحقیق و تفتیش کے ایسے جعل ساز متصوفین کو آگے بڑھنے کا بھرپور موقع دیتے ہیں۔آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآن ﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائیں۔آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔

ازقلم:،پروفیسر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی
کامل الحدیث جامعہ نظامیہ ، M.A., M.Com., Ph.D (Osm))

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے