بحمد اللہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک کبھی بھی اس روئے زمین کو اللہ تبارک و تعالی نے اپنے نیک و صالح بندوں سے خالی نہیں چھوڑا
ہر زمانے میں کوئی نہ کوئی اللہ کا بندہ ضرور رہا جو اپنے فیض رواں بحر سے دنیا کی پیاس بجھاتا رہا اور آپنے کمالات و حکمت کی جلوہ گری سے خلقت کو فیض یاب کرتا رہا
انھیں میں سے ایک ذات حضور سیدی مرشدی صوفی مفتی محمد نظام الدین نور اللہ مرقدہ کی ہے
ولادت آپ کی ولادت با سعادت ۱۵ جنوری ۱۹۲۸ عیسوی صوبہ اترپردیش کے ایک مشہور و معروف ضلع بستی کے ایک مردم خیز قصبہ اگیا چھاتا میں ہوئی
والد گرامی جناب نصیب اللہ صاحب مرحوم نے آپ کا نام نظام الدین تجویز کیا
نظام الدین نام کی بہت سی اہم شخصیات خاک ہند میں جلوہ بار ہوئیں لیکن دو بزرگوں کا نام علمی اور اسلامی دنیا میں شہرہ آفاق رہی !
صوفیہ میں صوفی نظام الدین اولیاء بدایونی ثم دہلوی اور علماء میں صاحب درس نظامی علامہ نظام الدین فرنگی محلی علیہما الرحمہ
ہمارے ممدوح حضور خطیب البراہین سیدی مرشدی مذکورہ دونوں کے علمی اور عرفانی فیوض و برکات کا منبع مخزن تھے
صوفی صاحب قبلہ کا عکس جمیل کچھ اس طرح ہے میانہ قد، پر نور گول چہرہ، تا بندہ بلند پیشانی جس پہ شب بیداری کے آثار ، خدا ترس نیچی نگاہیں، اور ذکر و فکر میں مشغول رہنے والی آپ کی ذات مبارکہ تھی
اور آپ کی ذات میں خوص بات یہ تھی کہ آپ کی زیارت سے خدا و رسول کی یاد آ جاتی جو ایک ولی اللہ کی نشانی ہے
دین کے باطن و روحانی امور و معاملات ، عبادت و ریاضت کو اجاگر اور قلبی ذوق میں ایک روشنی پیدا ہو جاتی ، دل نور ایمان سے روشن ہو جاتا –
تصوف ظاہر و باطن کو صاف ستھرا کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے دل میں خشیت الہی پیدا کرتا ہے تصوف ایک ایسی دل کش حقیقت ہے جس کی طرف ہر دور میں عوامی رجحان اور دلچسپی رہی اور ہونی بھی چاہئے کیونکہ تصوف صلہ رحمی معافی عطا کرنے کی طاقت عطا کرتا ہے ، ظلم و جبر ، نفرت و عداوت ، کینہ بغض و حسد سے بچنے کا خوگر بناتا ہے
ظاہر سی بات ہے جب انسان تمام خوبیوں کا حامل ہوگا اور اس کے اندر خصائل حمیدہ پائے جائیں گے تو خود بھی شاد کام ہوگا اور دوسروں کیلئے بھی مسرت و شادمانی کا باعث ہوگا اور بے ضرر ثابت ہوگا
شریعت مطہرہ میں انھیں خوبیوں کے حامل افراد کو صوفیاء کے نام سے جانا جاتا ہے
حضور خطیب البراہین سیدی مرشدی کی ہر ادا تصوف کا ایک نمونہ تھی اور یہ خوبیاں آپ کی ذات میں ابتداء ہی سے تھی اسی لئے آپ کو بچپن ہی سے صوفی کے لقب سے مقلب کر دیا گیا
کچھ علماء حضرات نے صوفی صاحب کے حوالے سے یہ واقعہ ذکر کیا ہے کہ ایک بار آپ نے اپنے استاذ گرامی حضور حافظ ملت کی بارگاہ میں یہ عریضہ پیش کیا کہ حضور میرے یہ احباب مجھے صوفی صاحب کہتے ہیں میں اپنے آپ کو اس کا مصداق نہیں پاتا اس لئے آپ ان سے فرما دیں کہ مجھے اس نام سے نہ پکاریں ، اس سے اجتناب کریں
حضور حافظ ملت نے آپ پر ایک پر اسرار نظر ڈالی اور پر زور انداز میں ارشاد فرمایا جی ہاں ہم بھی آپ کو صوفی صاحب کہتے ہیں آپ ہیں اسی لئے تو کہتے ہیں
کہنے کو تو یہ ایک معمولی سا واقعہ ہے لیکن اگر آپ حضور حافظ ملت کے ارشاد گرامی کا گہری نظر سے جائزہ لیں تو آپ کو صوفی صاحب کی مکمل زندگی کی معنویت نظر آئے گی حضور حافظ ملت بلاشبہ عارف باللہ تھے انہوں نے کچھ دیکھ کر ہی فرما یا ہوگا کہ آپ صوفی صاحب ہیں نیز آپ کے استاذ کی زبان سے جو کلمات خیر نکلے مستقبل کی نگاہوں نے اسے ایک پیکر جمیل پیکر ذیشان کی شکل میں دیکھا
مقام صوفی کوئی معمولی مقام نہیں
امام غزالی علیہ الرحمہ فرما تے ہیں مجھے اس بات کا علم یقینی اور قطعی ہو گیا کہ صرف صوفیہ ہی وہ ہیں جو راہ خدا پر گامزن ہیں ان کا راستہ سب سے زیادہ صحیح اور ان کا اخلاق سب سے زیادہ پاکیزہ ہے
تمام عقلاء کی عقل اور حکماء کی حکمت اور اسرار شریعت سے آگاہ علماء کا علم جمع ہو کر بھی ان کے اخلاق و کردار اور سیرت و روش کو بدلنے اور اس سے بہتر بنانے کی کوشش کریں تو نہ ہو سے !
صوفی کا سب سے پہلے استعمال صوفی ابو الھاشم رحمت اللہ علیہ سے ہوا وہ دنیائےتصوف میں سب سے پہلے صوفی سے مخاطب کئے گئے
حضرت ابو ہاشم کوفہ کے رہنے والے تھے اور ان کا انتقال شام میں ہوا –
امام غزالی کے ارشاد گرامی کے دائرے میں جب ہم صوفی با صفا خطیب البراہین سیدی مرشدی حضرت علامہ شاہ صوفی مفتی محمد نظام الدین نور اللہ مرقدہ کی پاک زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو ان کی حیات کا ہر پہلو علم و عمل ، تصوف و طریقت، کا دعوت نظارہ دیتا ہے اور ان کے سفر حیات کی ہر منزل پہ فروکش ہونے کو دل چاہتا ہے
وفات در اصل یکم جمادی الاولی ۱۴۴۳ ہجری
بمطابق ۱۴ مارچ ۲۰۱۳ کو وہ ذات اس دنیائے فانی سے تشریف لی گئی جو شریعت مطہرہ کا مکمل پابند تھی ، جن کی ہر ہر ادا سے سنت مصطفی کا ظہور ہوتا تھا ( انا للہ و انا الیہ راجعون )
نماز جنازہ: ۱۵ مارچ ۲۰۱۳ کو بعد نماز جمعہ جنازے کی نماز کا اعلان ہوا
۴ بجے کے بعد نمازے جنازہ ادا کی گئی نمازے جنازہ کی امامت حضور صوفی صاحب کے لائق فرزند مولانا محمد حبیب الرحمٰن نظامی نے فرمائی نمازے جنازہ میں ملک بھر سے ہزاروں ہزار شیدائیوں نے شرکت کا شرف حاصل کیا
اللہ تبارک و تعالی اپنے محبوب بندوں کے صدقے ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے
اور ہمیں ان بزرگوں کے نقشے قدم پر چلنے کی سعادت نصیب فرمائے ( آمین )
ازقلم: محمد تصور رضا نظامی
متعلم : دارالعلوم حسینیہ گورکھپور