(ولادت: ۱۵؍ جون ۱۹۲۸ء۔۱۴؍مارچ ۲۰۱۳ء)
ہمالیہ کے آغوش میں جنوبی ایشیا کے ایک انتہائی خوبصورت ملک نیپال سے شائع ہونے والا اردو اخبار’’ ہفت روزہ نیپال اردو ٹائمز ‘‘کے لیے یہ بڑی سعادت کی بات ہے کہ اپنے پہلے خصوصی شمارہ کی اشاعت کے لیے جس عظیم المرتبت روحانی شخصیت کا انتخاب کیا ہے وہ بر صغیر (متحدہ ہندوستان) کی ایک انتہائی بلند قامت الو العزم اور روحانی شخصیت حضرت خطیب البراہین مفتی صوفی محمد نظام الدین قادری برکاتی نوری علیہ الرحمہ خلیفہ حضور احسن العلماء مارہروی کی ذات ہے۔
ان کےبارہویں عرس کے موقع پر اس خصوصی شمارہ کی اشاعت پرمیں نیپال اردو ٹائمز کی ادارتی ٹیم کو مبارک باد پیش کرتا ہوں بالخصوص اس کے ایڈیٹر جناب مولانا عبدالجبار علیمی نظامی صاحب کو جو خوش قسمتی سے حضرت خطیب البراہین کے دامن کرم سے وابستہ بھی ہیں۔ کسی تفصیلی مضمون کے لیے وقت درکار ہے یہاں وقت کی قلت دامن گیر ہے جس کے پیش نظر ایک مختصر تاثر حضرت کے حوالے سے ذیل کی سطور میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں ۔
اللہ تعالی نے جب نبوت کا دروازہ بند فرما دیا تو دوسری طرف ولایت کا دروازہ کھول دیا تاکہ امت کو قیامت تک نبوت کا فیض باب ولایت سے ملتا رہے۔ اب کوئی نیا نبی نہیں آئے گا بلکہ ان کا کام کرنے کے لیے ہر دور میں اولیاپیدا ہوتے رہیں گے، وہ وہی کام کریں گے جو نبیوں نے کیا ہے۔ ان کا کام مخلوق کو خالق سے جوڑنا، تاریکیوں میں بھٹکنے والی قوم کو اجالوں کا مسافر بنانا ہے ۔
حضرت خطیب البراہین بیسویں صدی عیسوی کے نصف اول میں متحدہ ہندوستان کے مطلع اہل سنت پر طلوع ہونے والی اس شخصیت کا نام ہے جن کے اثرات ہم ہندوستان سے نیپال تک محسوس کر رہے ہیں ۱۵؍ جون ۱۹۲۸ء کو اتر پردیش کے ضلع بستی میں واقع ایک مردم خیز بستی اگیا میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۳ء میں دارالعلوم تنویر الاسلام بسڈیلہ میں داخل ہوئے ، ۱۹۴۷ء میں مدرسہ اسلامیہ اندر کوٹ میرٹھ میں امام النحو سید غلام جیلانی میرٹھی اور بقیۃ السلف حافظ مبین الدین امروہوی فاروقی علیہ الرحمہ تلامذۂ حضور صدر الشریعہ سے اکتساب علم کیا، ۱۹۴۸ ءمیں درس نظامی کی تکمیل کے لیے ہندوستان کے مرکزی ادارہ دار العلوم اشرفیہ مصباح العلوم میں داخلہ لیا جہاں مستقل چار سال رہ کر منتہی درجات مکمل کیے اور ۱۹۵۲ء میں فارغ التحصیل ہوئے ،جہاں آپ کو حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کے چار تلامذہ سے بیک وقت علم حاصل کرنے کا موقع ملا، ان کے نام یہ ہیں:
جلالت العلم، استاذ العلماء، حضور حافظ ملت،(۱۸۹۴ ء۔ ۳۱؍ مئی ۱۹۷۶ ؍)
شیخ العلماء، حضرت علامہ غلام جیلانی گھوسوی،(۱۹۰۲ء۔ ۱۴؍ اگست ۱۹۵۴ء)
وحید العصر علامہ سلیمان بھاگلپوری
اور سلطان الواعظین علامہ عبدالمصطفی اعظمی ،(۱۳۳۳ھ۔ ۵؍ رمضان المبارک ۱۴۰۶ھ)
یہ سب کے سب حضور صدر الشریعہ کے میخا نۂ علم و عرفان سے جرعہ کشی کرنے والے لوگ تھے۔ ان کے علاوہ ایک اور نمایاں نام نائب حضور حافظ ملت، علامہ عبدالرؤف بلیاوی علیہ الرحمہ کا ہے۔ آپ پورے ہندوستان میں واحد ایسی شخصیت نظر آتے ہیں جنہوں نے حضور صدر الشریعہ کے براہ راست چھ شاگردوں سے اکتساب علم کیا ہے ۔حضور صدر الشریعہ علامہ ہدایت اللہ خان رامپوری ثم جون پوری (م۔ ۱۹۰۸ء) کے دور اخیر کے سب سے معتمد اور چہیتے شاگرد تھے۔
وہ براہ راست استاذ مطلق، علامہ فضل حق خیرا ٓبادی(۱۷۷۷ء۔۱۸۶۱ء) کے شاگرد تھے اور وہ براہ راست سراج الہند، مسند الوقت، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے شاگرد ہیں اس طرح آپ کا علمی شجرہ پاک و ہند میں پائے جانے والے تمام علمی شجروں سے قوی اور ممتاز نظر آتا ہے جس علمی شجرے کی پختگی کے سامنے ارسطو ،جالینوس، سقراط اور بقراط کی فلسفیانہ موشگافیاں ، ارشمیدس اور اقلیدس کے اصول بونے اور بے وزن نظر آتے ہیں۔
حضرت خطیب البراہین سلسلۂ خیرآبادی، امجدی اور عزیزی دبستان علم کا ایک گل سر سبد ہیں۔
مندرجہ بالا سبھی اساتذۂ علم و ادب شریعت کے ساتھ ساتھ روحانیت سےبھی وافر حصہ رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ کی شخصیت کی تعمیر میں حضور صدر شریعہ کے اولو العزم شاگردوں کا بڑا اہم رول رہا ۔ان کے تصلب فی الدین، استقامت علی الشریعہ نے آپ کو شروع سے ہی شریعت مطہرہ کا پابند بنا دیا ،ان میں بھی آپ کی زندگی پر سب سے نمایاں اثر آپ کے مشفق استاذ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کا نظر آتا ہے حافظ ملت کا جلال و جمال ،عکس و کمال اور نشست و برخاست، سنتوں پر عمل، کردار کی بلندی اور عزم کی پختگی دیکھنی ہو تو ان کے شاگرد رشید صوفی نظام الدین مصباحی کے اندر بدرجہ اتم دیکھ سکتے ہیں۔
خود حضور حافظ ملت آپ کی تقوی شعار زندگی سے متاثر تھے یہی وجہ ہے کہ دوران طالب علمی میں ہی حضور حافظ ملت نے آپ کو صوفی صاحب کا خطاب دے دیا تھا جو مرتے دم تک جدا نہ ہوا کیونکہ مرد حق آگاہ کی زبان سے نکلا ہوا کلمہ تھا گو آپ کی ذات میں ایک بلند پایا محدث، نکتہ رس فقیہ، دقیقہ سنج مفتی، باکمال مدرس اور مرشد کامل نظر آتے ہیں مگر صوفی صاحب ایسا لقب ہے جو ان سب کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے، اور صوفی کی حقیقت کیا ہوتی ہے اسے بیان کرتاہے۔ جیسے حضور سیدنا سلطان الہند خواجہ غریب نواز اپنے عہد کے بہت بڑے مفتی ،فقیہ ،محدث اور نہ جانے کیا کیا تھے، ایک لفظ خواجہ میں قطب، ابدال، افراد اور اوتاد جیسے جتنے بلند مناصب ہیں سب مستورنظر آتے ہیں۔
دوسری طرف آپ نے روحانی تشنگی بجھانے کے لیے کسی شیخ کامل کے حلقۂ ارادت میں آنا ضروری سمجھا اس وقت ہندوستان کی سرزمین پر جتنے بھی شیوخ تھے ان میں سب سے نمایاں اور عظیم المرتبت شخصیت تاجدار اہل سنت سیدنا حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی تھی ۲۳ سال کی عمر میں عہد طالب علمی میں۷؍ ربیع الاخر ۱۳۷۰ ہجری ۱۶؍جنوری ۱۹۵۱ عیسوی کو شہزادۂ اعلی حضرت مفتی اعظم ہند کے ہاتھ پر بیعت فرما کر اس کڑی سے جڑ گئے جس پر صادق آتا ہے : شَجَرَةٌ طَیِّبَةٌ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِ
علوم شریعت میں آپ کا سرچشمہ تلامذ ۂ حضور صدر الشریعہ ہیں اور علوم طریقت میں آپ کا منبع خود مفتی اعظم ہند کی ذات ہے جو اپنے وقت کے قطب العالم اور غوث تھے جو شخصیت شریعت اور طریقت کے ان نہروں سے پانی پیے وہ اپنے وقت کا جامع الصفات اور مجمع البحرین ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ صوفی صاحب کو علم ،تقوی اور استقامت کی دولت وافر حصہ میں عطا ہوئی اور ان کی شخصیت کی تعمیر میں ان عوامل نے کلیدی رول ادا کیے۔ مشکل سے مشکل حالات میں بھی آپ کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔
استقامت دینی کی چند مثالیں ذیل کی سطور میں ملاحظہ فرمائیں
شہزادۂ حضور صدر الشریعہ، محدث کبیرعلامہ ضیاء المصطفی قادری دامت برکاتہم العالیہ نے ایک بار عرس نظامی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا حضرت علامہ صوفی مفتی محمد نظام الدین علیہ الرحمہ فتوی اور تقوی دونوں کی کتاب تھے۔ آپ کے زمانۂ صدرالمدرسینی میں صالحہ رضوی نام کی ایک خاتون جو بورڈ آف مدارس اسلامیہ کی رجسٹرار تھی دارالعلوم تنویر الاسلام امر ڈوبھا کے معائنےکے لیے آئی، طلبہ نے آپ کو آفس میں بٹھا دیا، ناشتہ پانی کے بعد اس نے کہا پرنسپل صاحب سے ملنا ہے۔ لوگوں نے جواب دیا وہ عورتوں سے نہیں ملتے اس نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا کیا اس زمانے میں بھی ایسے لوگ زندہ ہیں جو عورتوں سے نہیں ملتے ؟ لوگوں نے کہا جی ہاں! اس نے کہا تب تو مجھے دیکھنا ہی پڑے گا، ایسے بزرگ ہیں تو ان کو دیکھنا ہے مجھے۔ آپ اوپر کے کمرے میں جلوہ افروز تھے کلرک سے کہہ دیا تھا کہ میں ان سے نہیں ملوں گا ،اس لیے مطمئن تھے آپ نے فرمایا میں مدرسہ چھوڑ سکتا ،ہوں مگر اس سے نہیں مل سکتا رجسٹرار ملنے پر بضد تھی یہ دندناتی ہوئی سیڑھیاں پھلانگتی ہوئی جیسے ہی ان کے کمرے کے سامنے ہوئی نظر پڑی جھٹ اٹھ کھڑے ہوئے اور الماری کی طرف منہ چھپا کر کھڑے ہو گئے اس قدر پرہیز اور اجتناب فرماتے تھے آپ عورتوں سے۔ اس واقعے سے آپ کی زندگی میں استقامت اور تقوی کے اعلی درجے کا مظاہرہ واضح طور پر نظر آتا ہے۔
دوسری مثال وہ ہے جس کا عینی شاہد خود راقم سطور ہے
غالبا ۲۰۰۵ء کی بات ہے راقم سطور نیوممبئی واشی کے اندر کانڈا بٹاٹا مارکیٹ میں واقع ایک مسجد میں تراویح کی نماز پڑھانے کے لیے مقیم تھا ،وسط رمضان گزرنے کے بعد مریدوں کی ایک جماعت کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے آپ اسی مسجد میں تشریف لے آئے چونکہ ممبئی کی اکثر مسجدوں میں لاؤڈ اسپیکر سے امام نماز پڑھاتے ہیں محتاطین کے لیے ایسی مسجدوں میں نماز پڑھنا مشکل ہو جاتا ہے ،اس مسجد کے بارے میں انہیں بتایا گیا ہوگا کہ یہاں لاؤڈ اسپیکر کے سے نماز نہیں ہوتی ہے، چونکہ مسجد ممبئی کی بڑی بااثر شخصیت سراج ملت ، حضرت سید شاہ سراج اظہر رضوی نوری خلیفہ حضور مفتی اعظم کی نگرانی میں تھی اور وہ لاؤڈ اسپیکر سے نماز کے سخت مخالف تھے ۔
حسن اتفاق کے جمعہ کی نماز مجھے پڑھانی تھی میں نے امام صاحب سے کہہ دیا حضرت خطیب البراہین موجود ہیں ان سے بولیے کہ وہ امامت فرمائیں امام صاحب نے کہا نہیں، نماز آپ ہی پڑھائیں گے۔ ان کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے مصلی امامت پر میں کھڑا ہو گیا ادھر دیکھتا ہوں پلٹ کر تو حضور خطیب الابراہین میرے پاس ا ٓکر میرے گردن اور سینہ کا معائنہ فرما رہے ہیں۔ ہاتھ لگا کر فرمایا مائک کا تو استعمال نہیں کر رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا حضور مائک نہیں ہے، تب اطمینان سے انہوں نے نماز پڑھی۔
بعد نماز مجھ سے رہا نہیں گیا امام صاحب کی سرد مہری دیکھتے ہوئے میں نے مائک لے کرمجمع عام سے خطاب کیا اور کہا آپ لوگ اپنے نصیبے پر جتنا فخر کریں کم ہے کہ ہمارے یہاں اتنی بڑی روحانی شخصیت بن بلائے خودسے یہاں آئی ہوئی ہے جو لوگ کسی سے مرید نہیں ہوئے ہیں وہ اس شیخ کامل کے ہاتھ پر مرید ہو جائیں میرے اعلان کے بعد چند افراد قریب آئے اور وہ داخلے سلسلہ ہوئے۔
یہاں دو پہلو ہیں ایک رخصت اور دوسرا عزیمت ،خطیب البراہین چاہتے تو رخصت والے پہلو پر عمل کرتے ہوئے لاؤڈ سپیکر کے ساتھ ہی نماز پڑھ سکتے تھے مگر ان کے اعلی درجہ کے تقوی نے ان کو مجبور کیا کہ وہ عزیمت پر عمل کریں۔
حضرت خطیب الراہین کو سب سے پہلے راقم سطور نے گھوسی ضلع مئو کی سر زمین پر حضرت شارح بخاری علامہ محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ،( م۔ ۲۰۰۰؍) کے جنازہ کے موقع پر دیکھا تھا جب وہ مسجد برکاتی میں حضور فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی کے ساتھ بیٹھے ہوے تھے۔ فقیہ ملت نے اپنے سر پر سفید رومال رکھا ہوا تھا، دونوں بزرگوں کے چہروں سے انوار و تجلیات پھوٹ رہے تھے ۔راقم سطور نے دونوں حضرات سے مصافحہ کیا اور سر پر ہاتھ رکھوایا۔ اسی وقت سے خطیب البراہین کی عظمت میرے دلوں پر بیٹھ گئی۔ دوسری بار دارالعلوم علیمیہ جمدہ شاہی میں طالب علمی کے دوران ۲۰۰۳ء میں ضلع بستی کے ایک گاؤں میں دیکھا تھا جمدہ شاہی سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا جلسہ تھا حضرت وہاں تشریف لائے ہوئے تھے میں بھی زیارت کے شوق میں نکل پڑا اس وقت حضرت ایک مکان کی چھت پر چارپائی کے اوپر سو رہے تھے سنت کے مطابق آپ کے قدم مڑے ہوئے اور پورا جسم اسم محمد کا مظہر بنا ہوا تھا کچھ طلبہ آپ کا جسم اور پاؤں دبا رہے تھے راقم سطور نے بھی حضرت کے جسم کو دبانے کی سعادت حاصل کی۔
شریعت و طریقت پر استقامت کے سینکڑوں جلوے آپ کے اوراق زندگی میں بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں سنتوں کی اس قدر پابندی اس دور زوال اور دور قحط الرجال میں بغیر توفیق الہی اور لطف خاص کے ممکن نہیں ہے۔
ایک کامیاب شیخ الحدیث، منتظم ،پرنسپل کے ساتھ ساتھ آپ ایک با کمال مرشد بھی تھے رشد و ہدایت کا جو چراغ اپ نے جلایا اس سے ہزاروں قلوب مستنر ہوئے ’’ممبئی اور گوا ‘‘کے اندر ہزاروں لوگ آپ کے ہاتھ پر داخل سلسلہ ہوئے ’’گوا ‘‘جو یورپی تہذیب اور افرنگیوں کا آج بھی مسکن ہے اس مقام پر جا کر مرید کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔
اسی طرح یو پی کے خطۂ پروانچل میں بستی، گونڈا ،سنت کبیر نگر ،گورکپور، سدھارتھ نگر، کشی نگر، مہراج گنج کے اضلاع خاص طور پر آپ کی اصلاحی ،تبلیغی اور روحانی کوششوں کی آماجگاہ رہے ہیں۔
سدھارتھ نگر سے متصل کپل وستو اور مہراج گنج سے متصل بھیر ہواں کے علاقے آپ سے فیض یاب ہوتے رہے ہیں۔
راقم سطور کے اندازے کے مطابق مذکورہ بالا اضلا کے سینکڑوں باصلاحیت علماء نے آپ کی تقوی شعار زندگی کو دیکھ کر آپ کے ہاتھ پر بیعت کی ہے ان کو شمار کرایا جائے تو ایک لمبی فہرست ہو جائے گی بہت کم ایسے پیر ہیں کہ ان کے وقت میں جن کے دامن سے اتنی بڑی تعداد میں علماء منسلک ہوئے ہوں، آج ایسی روحانی شخصیت کا وجود ہمارے لیے بہت ضروری ہے جن سے ہمارے شبستان وجود کو روحانی حرارت ملتی رہے۔
اس دور زوال میں روحانیت کا آفتاب مدہم ہو چکا ہے، علماء تصوف سے بیزار اور اور خانقا ہیں روحانیت سے فرار نظر آتی ہیں خطیب البراہین کی زندگی ہمیں ایک ہاتھ میں شریعت اور دوسرے ہاتھ میں طریقت ،معرفت اور حقیقت کا دامن پکڑنے کی طرف مہمیز کرتی ہے
برکفی جام شریعت برکفی سندان عشق
شریعت کا یہ آفتاب اور طریقت کا یہ ماہتاب یکم جمادی الاولی ۱۴۳۴ ہجری ۱۴؍ مارچ ۲۰۱۳ء بروز جمعرات مالک حقیقی سے جا ملا۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے
تحریر: محمد رضا قادری مصباحی نقشبندی
خادم تدریس جامعہ اشرفیہ مبارک پور
محررہ: ۳۰؍اکتابر۲۰۲۴ء/۲۶؍ربیع الآخر ۱۴۴۶ھ