- خطیب البراہین حضرت صوفی محمد نظام الدین محدث بستوی کی ایک پاکیزہ اور روشن سرگذشت
تحریر:عبد الرحیم نظامی مصباحی
لوکی لالہ سنت کبیر نگر
موبائل نمبر 7782999084
وہ مالک ارض و سما،عالم سے بے نیاز ہے جسے جو چاہے عطا کرے۔عزت و ذلت اسی کے دست قدرت میں،جسے چاہے فقیر کرے جسے چاہے بادشاہ۔وہ قادر مطلق ہے اس کا ہر فیصلہ اٹل ہے کون ہے جو اس کی مرضی میں رخنہ اندازی کرے؟؟جن و انس سب اسی کے بندے۔۔مگر بعض بندے اس کے برگزیدہ ہوتے ہیں ۔جن کے کاندھوں پر انبیاے کرام کی نیابت کا بارگراں ہوتا ہے۔ جو دنیا میں بھیجے ہی جاتے ہیں عظمتوں کا تاج پہننے کے لئے۔وہ خلق خدا کے دلوں،دماغوں اور روحوں پر حکومت کرتے ہیں۔انہیں مقبول ترین بندوں میں خطیب البراہین محی السنہ حضرت علامہ صوفی محمد نظام الدین نوری مصباحی محدث بستوی قدس سرہ ہیں جنہیں خدائے بر تر نے درویشی میں بادشاہی کی نعمت سے سرفراز کیا۔حضور خطیب البراہین صالحین کے کردار و عظمت کے آئنیہ دار تھے۔اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل زندگی سمجھتے،معمولی معمولی باتوں میں بھی متابعت سنت کا بہت پاس رکھتے۔ایک متبحر عالم ربانی تھے اسلامی علوم و فنون میں کامل درک رکھتے۔تا حیات علم کی قندیلیں روشن کرتے رہے۔آپ سچی بات کہتے،لکھتے اور اس پر قائم رہتے ایسی بے مثال استقامت دکھائی کہ ہمیشہ کے لئے تاریخ عزیمت میں یادگار ہو گئےوہ قوم کو لفظی سوغات دینے کے بجائے عملی طور پر ان کی مدد کرتے۔سیاست کی ہنگامہ خیزیوں سے بے نیاز ہوکر رشد و ہدایت کا ابرگہر بار بن کر خاص و عام دونوں کو فیض یاب کرتے رہے۔
آپ خاکسارانہ طبیعت کے مالک تھے۔ہمیشہ اپنے جاہ و منصب کے تقاضوں کو نظر انداز کر کے خود کو ہیچ سمجھتے۔نہایت سادہ اور بے تکلف زندگی بسر کی۔بلندیوں پر بیٹھ کر عاجزی اپنائی،شہرت و عزت کے بام عروج پر ہوتے ہوئے بھی وہی معمولی غذا،وہی سادہ لباس،وہی اسائش دنیا سے بے نیازی۔اسباب و وسائل کی فراہمی کے بعد بھی طرز زندگی بدلتے کسی نے نہ دیکھا۔ معرفت کے طلبگار اس راز سے واقف ہوتے ہیں کہ انکسار کے بغیر قرب الٰہی ناممکن ہے۔
احترام مشائخ آپ کا وصف خاص تھا، خردہ نوازی آپ کے اخلاق کا اہم عنصر تھا۔ معاصر علماے اہل سنت وجماعت اور مشائخ کی بھی بے حد عزت و توقیر فرماتے۔حضرت مولانا محمد ادریس بستوی مصباحی جو آپ کے نابغۂ روزگار شاگرد ہیں،لکھتے ہیں کہ:”…یہ بہت بڑی بات ہے کہ پورے ملک میں کسی بھی عالم دین یا شیخ طریقت کے خلاف ایک لفظ بھی کبھی ان کی زبان سے نہیں نکلا۔حدتو یہ ہے کہ اگر شومئ قسمت سے کسی نے انہیں برا بھلا کہا تو بھی انہوں نے اس کے خلاف بھی کجھ کہنا تو دور کی بات ہے اپنی مجلس میں اس کے بارے میں ایک لفظ سننا بھی گوارہ نہیں کیا،”(خطیب البراہین ایک منفرد المثال شخصیت ص٤٧)
اعلیٰ ظرفی کی یہ روشن ترین دلیل ہے۔آپ کی یہ روش آج کےمذہبی قائدین کے لئے قابل تقلید ہے اور ان کے لئے بھی جو اپنے ممدوح کے سوا کسی اور کی عظمت و بلندی کو تسلیم ہی نہیں کر تے اور اگر کرتے بھی ہیں تو جپر و اکراہ کے ساتھ۔ظرف ایک کسوٹی ہے جس پر انسان کی اصلیت کو پرکھا جاتا ہے۔سچ ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانے جاتے ہیں اور آدمی اپنے کردار سے۔
وہ مرد درویش تھے۔دنیا ان کی نگاہ میں حقیر ترین چیز تھی۔وہ شریعتِ کے ہاتھوں حسب ضرورت دنیا لیتے۔ہجوم دنیا میں رہ کر روحانیت کی معراج حاصل کی۔پانی سے دور رہ کردامن کو خشک رکھنا کون سی کمال کی بات ہے۔منتہاے کمال یہ ہے کہ پانی میں رہ کر آلو دگیوں سے محفوط رہے۔”استغنا ” کی اصل حقیقت یہی ہے کہ دنیا میں رہ کر بھی دنیا سے دور رہے۔۔ آمران وقت سے راہ و رسم رکھتے آپ کو یہ بھی پسند نہ تھا کو ئی صاحب اقتدار آپ کے پاس آے۔امیر و غریب چھوٹے بڑے کی تمیز نہ کرتے۔
خطیب البراہین کی زندگی بذل و بخشش سے بھری ہوئی تھی ۔ داد و دہش میں آپ کا ہاتھ بہت کشادہ تھا تھا ۔ ایثار و سخاوت کو وہ اخوت، یکجہتی، ہمدردی اور انسان دوستی کا حصہ تصور کرتے کسی حاجت مند کو کبھی مایوس نہ کرتے۔ علماء و طلباء کی اعانت میں بے دریغ مال خرچ کرتے آئے دن بے شمار فتوحات ہوتیں ۔لیکن کبھی جمع نہ کرتے مہمانوں کے لیے دسترخوان ہمیشہ کشادہ رکھتے ۔ مہمان نوازی کا یہ التزام سفر و حضر میں یکساں تھا ۔
زہد و تقویٰ میں یگانۂ روزگار تھے۔ ہمہ وقت یاد الہی میں غرق رہتے ۔ تلاوت قرآن مجید سے غیر معمولی شغف رکھتے ۔ جس خشوع و خضوع سے نماز ادا کرتے واللہ والوں کا ہی حصہ ہے۔ نصف شب کے سناٹوں میں رب کے حضور آہ و زاری کرتےہوئے ہوئے کئی لوگوں نے بار بار دیکھا ہے ۔ آپ کی آہ سحر گاہی ان کی ذات تک ہی محدود نہ تھی۔ بلکہ آپ کی دعاؤں میں امت مسلمہ کا رنج و الم اور قوم کی زبوں حا لی کا احساس بھی شامل تھا۔بارگاہ حق سے
جہاں اپنے لیے مغفرت طلب کی وہیں عالم اسلام کے لئے بھی عافیت کی بھیک مانگی۔ اپنے دکھ پر ہر آنکھ نم ہو جاتی ہے مگر دوسروں کے غم میں آنسو بہانا درویشوں کا خاصہ ہے۔ مخدوم محترم حبیب العلماء حضرت علامہ حبیب الرحمن صاحب قبلہ کے بقول بڑے سوز کے ساتھ غائبانہ مریدین اور عام مسلمانوں کے لیے مغفرت کی دعا کیا کرتے۔
رشد و ہدایت کے فرائض سے کبھی غافل نہ ہوتےعوام کی مذہبی و روحانی تعلیم کی طرف خاص توجہ فرماتے ۔ملک کے ایک بڑے حصے کو منکرات سے دور اور قرآن و سنت کی پیروی کے جذبے سے سرشار کیا۔ کسی بھی جگہ شرعی احکام کی خلاف ورزی دیکھتے تو انتہائی جرات کے ساتھ منع فرماتے ۔ درویشوں نے ہر دور میں بے خوفی اور حق گوئی کی تصوف کی اعلی ترین روایت قائم کی ۔آپ اس روایت کے سچے امین تھے۔
سلوک و تصوف کی اشاعت اور سلسلہ کے فروغ میں بڑے حریص تھے ۔ اور اس مقصد کے لیے بڑی سے بڑی زحمت برداشت کرنے پر آمادہ ہوجاتے ضعف و نقاہت کے باوجود دوردراز علاقوں کے سفر کرتے ۔لاکھوں افراد نے آپ کے حلقہ ارادت مندی شمولیت کا شرف حاصل کیا ۔اور دارین کی کامیابیاں حاصل کیں ۔ قصۂ مختصریہ کہ آپ نے حلم وحیا، عفودرگزر، ایثار و سخاوت، صبر و قناعت، تقوی و ورع، زہد و استغناء اور صداقت و اخلاص کی تابناک مثالیں قائم کیں ۔روشنی یہ سفر 85 سال تک جاری رہا ۔ اجالے کے طلبگار ہمیں ہمیشہ اس مرد درویش کے کردار کی روشنی اپنی منزل تلاش کرتے رہیں گے۔ وقت تیز آندھیاں اس کی آب و تاب کو کبھی ماند نہ کر سکیں گی ۔:
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے