خیال آرائی: اسانغنی مشتاق رفیقیؔ
تری زلفوں کے علاوہ کوئی زنجیر ہے کیا
تیری تقدیر سے بہتر، کوئی تقدیر ہے کیا
یہ مرا وہم ہے یا تیری حقیقت ہے یہی
آئینہ تیری ہی ایک دوسری تصویر ہے کیا
لوگ پتھر کے عمارات پہ حیران ہیں کیوں
تیرے پیکر سے بھی نادر کوئی تعمیر ہے کیا
ذکروہ کیا کہ ترا نام نہ آئے جس میں
تیری مدحت نہ ملے جس میں وہ تحریر ہے کیا
میں نے دیکھا ہے اُسے خواب میں، بوسہ دیتے
کوئی بتلائے کہ اس خواب کی تعبیر ہے کیا
کر کے پیدا مجھے، رسوا بھی کیا دنیا میں
حشر میں پوچھوں گا رب سے، مری تقصیر ہے کیا
تو نے لکھا ہے نوشتہ تو بتا دے یہ بھی
اس سے چھٹکارہ ہو ایسی کوئی تدبیر ہے کیا
رجم کردو یا ابھی داخلِ زنداں کردو
میں ہوں مجرم تو مرے جرم کی تعزیر ہے کیا
لوگ سب چل دئے اُٹھ اُٹھ کے رفیقی آخر
دار پر مجھ کو چڑھانے میں یہ تاخیر ہے کیا