غزل

غزل: تری زلفوں کے علاوہ کوئی زنجیر ہے کیا

خیال آرائی: اسانغنی مشتاق رفیقیؔ

تری زلفوں کے علاوہ کوئی زنجیر ہے کیا
تیری تقدیر سے بہتر، کوئی تقدیر ہے کیا
یہ مرا وہم ہے یا تیری حقیقت ہے یہی
آئینہ تیری ہی ایک دوسری تصویر ہے کیا
لوگ پتھر کے عمارات پہ حیران ہیں کیوں
تیرے پیکر سے بھی نادر کوئی تعمیر ہے کیا
ذکروہ کیا کہ ترا نام نہ آئے جس میں
تیری مدحت نہ ملے جس میں وہ تحریر ہے کیا
میں نے دیکھا ہے اُسے خواب میں، بوسہ دیتے
کوئی بتلائے کہ اس خواب کی تعبیر ہے کیا
کر کے پیدا مجھے، رسوا بھی کیا دنیا میں
حشر میں پوچھوں گا رب سے، مری تقصیر ہے کیا
تو نے لکھا ہے نوشتہ تو بتا دے یہ بھی
اس سے چھٹکارہ ہو ایسی کوئی تدبیر ہے کیا
رجم کردو یا ابھی داخلِ زنداں کردو
میں ہوں مجرم تو مرے جرم کی تعزیر ہے کیا
لوگ سب چل دئے اُٹھ اُٹھ کے رفیقی آخر
دار پر مجھ کو چڑھانے میں یہ تاخیر ہے کیا

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے