تحریر: محمد فہیم جیلانی مصباحی معصوم پوری مرادآباد
بھارت میں اس وقت لڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر کم از کم 18 برس ہے جب کہ لڑکوں کے لیے شادی کی قانونی عمر 21 برس مقرر ہے۔
بھارت میں مرکزی کابینہ نے لڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر کم از کم 18 برس سے بڑھا کر 21 برس کرنے کی تجویز کی منظوری دے دی ہے۔
حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ بدھ کو کابینہ کے ایک اجلاس کے دوران لیا گیا ہے۔ کابینہ نے چائلڈ میرج ایکٹ 2006، اسپیشل میرج ایکٹ اور ہندو میرج ایکٹ 1955 میں ترمیم کی منظوری دی ہے۔
جب کہ شرعی اعتبار سے نکاح کے لیے بلوغت کا ذکر حدیث میں آیا ہے۔ بچے کو جب احتلام ہو یا بچی کو جب حیض کا خون آنا شروع ہو جائے تو وہ بلوغت کی نشانی ہے۔
یہ تو خیر حکومت اب قانون بنا رہی ہے۔
لیکن اب تک کیا لوگ واقعی ۱۸ سال کی عمر میں لڑکیوں کی شادی کر رہے تھے؟؟
نہیں ! بلکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اگر جلدی بھی کوئی لڑکی کی شادی کرتا ہے تو فطرت کو پس پشت ڈال کر ۲۰/۲۱ سال ہی کی عمر میں کرتا ہے ورنہ تو نہ پچیس کا پتا اور نہ تیس کا۔
اگر لوگ اس بات پر پہلے ہی سے عمل کرتے کہ فطرت کیا ہے تو یہ سب انجام نہ ہوتا۔
الحاد کا سبب بھی یہی بنا جا رہا ہے کہ لڑکی جلد ہی بالغ ہو جاتی ہیں والدین اپنی حالات کی وجہ سے یا تعلیم کے چلتے شادی میں تاخیر کرتے ہیں اور لڑکیاں وہ سب کر گزر جاتی ہے جس کی قطعی امید نہ تھی۔
یہ بات بھی واضح ہے کہ۲۱ کی عمر والی لڑکی میں جاذبیت کی کوئی شی باقی نہیں رہتی۔
اس معاملے میں اصل چیز لڑکے یا لڑکی کا عاقل اور بالغ ہونا ہے۔
اس تعلق سے حدیث شریف میں آیا ہے کہ
وعن أبي سعيد وابن عباس قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ولد له ولد فليحسن اسمه وأدبه فإذا بلغ فليزوّجه، فإن بلغ ولم يزوّجه فأصاب إثماً فإنما إثمه على أبيه»”۔ (مشكاة المصابيح (2/ 939)
ترجمہ: جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اس کی ذمہ داری ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے، بالغ ہونے پر اس کی شادی کرے، اگر شادی نہیں کی اور اولاد نے کوئی گناہ کرلیا تو باپ اس جرم میں شریک ہوگا اور گناہ گار ہوگا۔
ایک اور حدیث پاک
”وعن عمر بن الخطاب وأنس بن مالك رضي الله عنهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ” في التوراة مكتوب: من بلغت ابنته اثنتي عشرة سنةً ولم يزوّجها فأصابت إثماً فإثم ذلك عليه. رواهما البيهقي في شعب الإيمان”۔ (مشكاة المصابيح (2/ 939)
ترجمہ: تورات میں درج ہے کہ جس کی بیٹی بارہ سال کی ہوجائے اور وہ اس کا نکاح نہ کرے، پھر لڑکی سے کوئی گناہ ہوجائے تو باپ بھی گناہ گار ہوگا۔
لیکن ہم! ہمارا کیا کہ ہم تو شریعت کی پرواہ کئے بغیر اپنی مرضی سے ہی معاملات کو طے کرتے ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات دوسرے بھی ہمارے معاملات میں مداخلت کرنے لگتے ہیں۔
اب جب کہ حکومت نے بھی تمہارے رویوں اور تمہاری معمولات زندگی کو دیکھ کر شادی کی عمر ۱۸ سے بڑھا کر ۲۱ کردی تو کیوں شور مچاتے ہو؟
ہمیں پہلے خود کو بدلنا ہو گا تب کسی سے شکوہ شکایت کرنے کی گنجائش ہے ورنہ خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔