بن گئیں ہجر میں آنکھیں مری جوگن سیاں
کب عطا ہوگا انہیں آپ کا درشن سیاں
تیری چادر کو ان آنکھوں سے لگانے کے لئے
چاہتا ہوں ترے نعلین کی جھارن سیاں
جان کہتی ہے بلا لیجئے اپنے در پر
مفلسی کب سے بنی ہے مری سوتن سیاں
اس سے بڑھکر تو نہیں میرے لئے آب حیات
کاش مل جاۓ ترے پاؤں کا دھوون سیاں
آپ کے نانا کی چوکھٹ پہ مجھے موت آئے
اس تمنا کو بنا دیجئے سہاگن سیاں
تیرے عشاق پہنچتے ہی مچل جاتے ہیں
رشک فردوس بریں ہے ترا آنگن سیاں
میں گدا ابن گدا ہوں مری اوقات ہی کیا
تاج ور مانگنے آتے ہیں اتارن ، سیاں
تیرے قدموں میں بچھانے کیلئے سر اپنا
حسرتیں کب سے بنی بیٹھی ہیں دلہن سیاں
آرزو ہیکہ مری جان ، تمہارے در کی
ہر زمانے میں رہے بن کے بھکارن سیاں
آتش نار جہنم کو بجھانے کے لئے
آتش عشق میں جلتا رہے تن من سیاں
رات دن یاد کی بھٹی میں تپاکر اپنی
خاک سے مجھکو بنا دیجئیے کندن سیاں
دیکھنا چاہتی ہے روح مری چہرہ عشق
اپنے نانا کا دکھا دیجئیے درپن سیاں
کیا کبھی آپ کو میں دیکھ نہیں پاؤنگا
دور کر دیجئیے دل سے مرے ، الجھن سیاں
آپ چاہیں تو ابھی چوم لوں آکر روضہ
خود سےکچھ کر نہیں سکتا ہے یہ نردھن سیاں
نام سنتے ہی مچل جاتی ہے دلہن کی طرح
روح نے مان لیا ہے تمہیں ساجن ، سیاں
جان "جاوید” کی لے لے نہ جدائی تیری
روز ڈستی ہے کئی بار یہ ناگن سیاں