فیضان ماہِ ربیع النور (قسط:2)
ازقلم:اے رضویہ ممبئی
مرکز: جامعہ نظامیہ صالحات کرلا۔
ماہ ِربیع الاول کے فضائل، مسائل
ربیع الاول اسلامی سال کا تیسرا قمری مہینہ ہے۔
ربیع الاول کی وجہ تسمیہ:
۱۔’’ربیع ‘‘عربی میں موسمِ بہار کو کہا جاتا ہے، اور اوّل کے معنی ہیں: پہلا، تو ربیع الاول کے معنی ہوئے: پہلا موسمِ بہار۔
موسمِ بہار دو زمانوں پر مشتمل ہوتا ہے: ایک تو اس کا ابتدائی زمانہ ،جس میں کلیاں اور پُھول کھلتے ہیں، اور دوسرا وہ زمانہ جب پھل پک جاتے ہیں، پہلے زمانے کو ربیع الاوّل یعنی پہلا موسمِ بہار، جبکہ دوسرے زمانے کو ربیع الثانی یعنی دوسرا موسمِ بہار کہا جاتا ہے۔جب ان مہینوں کے یہ نام رکھے جارہے تھے تو اس وقت بہار کے یہی موسم تھے، اورپھر بعد میں ان مہینوں کے یہی نام پڑگئے۔
✒️ماہِ ربیع الاوّل کی فضیلت: اس مہینے میں سرورِ دو عالم حضور اقدس ہمارے آقا محمد رسول اللہ ﷺ دنیا میں تشریف لائے اور یہ مقام کسی اور مہینے کو حاصل نہیں، اسی لیے جب آپ ﷺ سے پیر کے دن روزے کے بارے میں پوچھا گیا ،تو آپ ﷺ نے اس کی فضیلت کی ایک وجہ یہ بیان فرمائی کہ اس دن میں پیدا ہوا، جب پیر کے دن روزہ کو حضورﷺ کی ولادت کی وجہ سے فضیلت حاصل ہے، تو ماہِ ربیع الاوّل کو بھی آپ ﷺ کی ولادت کا مہینہ ہونے کی خاص حیثیت کے اعتبار سے سال بھر کے تمام مہینوں پر فضیلت وفوقیت حاصل ہے۔
حضوراکرم ﷺ کا ذکر مبارک
حضوراکرم ﷺ کا ذکر مبارک ایک اعلی ترین عبادت ہے، بلکہ روحِ ایمان ہے۔
آپﷺ کی ولادت، آپﷺ کا بچپن، آپﷺ کا شباب، آپﷺ کی بعثت، آپﷺ کی دعوت، آپ کا جہاد ،آپ کی عبادتﷺ و نماز، آپﷺ کے اخلاق، آپﷺ کی صورت وسیرت، آپﷺ کازہدو تقوی، آپﷺ کی صلح وجنگ ، خفگی و غصہ، رحمت و شفقت، تبسم و مسکراہٹ، آپﷺ کا اٹھنا بیٹھنا ، چلنا پھرنا، سونا جاگنا، بحیثیت نوری
آپﷺ کی شانِ نبوت
آپﷺ کے معجزات علم غیبِ مصطفٰیﷺ اختیار مصطفٰیﷺ رحمت العالمین ﷺ شان معراج الغرض آپﷺ کی ایک ایک ادا اور ایک ایک حرکت و سکون امت کے لیے اسؤہ حسنہ اور اکسیر ہدایت ہے اور اس کا سیکھنا سکھانا، آپﷺ کے ذکر کی محفلیں کرنا اور دعوت دینا امت کا فرض ہے۔
آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کو بیان کرنے کاطریقہ
آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کو بیان کرنے کے دو طریقے ہیں:
پہلاطریقہ:
آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کے ایک ایک نقشے کو اپنی زندگی کےظاہر و باطن پر اس طرح آویزاں کیا جائے کہ آپ ﷺ کے ہر امتی کی صورت وسیرت، چال ڈھال، رفتارو گفتار، اخلاق وکردار آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کی تصوير بن جائے اور دیکھنے والے کو نظرآئے کہ یہ محمدرسول اللہﷺ کا غلام ہے۔
دوسراطریقہ:
جہاں بھی موقع ملے آپﷺ کے ذکر ِخیر سے ہرمجلس و محفل کو معطر کیا جائے۔ آپ ﷺ کے فضائل و کمالات اور آپﷺ کے بابرکت اعمال اور طریقوں کا تذکرہ کیاجائے۔ کیونکہ یہی اہل سنت کا عقیدہ ہے
سلف صالحین، صحابہ کرام و تابعین اور ائمہ کرام ان دونوں طریقوں پر عمل کرتے تھے۔ وہ آپ ﷺ کی ایک ایک سنت کو اپنے عمل سے زندہ کرتے تھے اور ہر محفل و مجلس میں بھی آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کا تذکرہ کرتے تھے۔
تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں بری
حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے
چند مثالیں:
1️⃣ مسلم شریف کی ایک روایت کے مطابق حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے کوئی یہ دریافت کرے کہ آقا جان رحمت رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک کیسا تھا تو میں اس سوال کا جواب نہیں دے پاؤں گا اور آپﷺ کے چہرہ کی تفصیلات بیان کرنا میرے بس میں نہیں ہوگا، اس لیے کہ جب میں کافر تھا تو میرے دل میں حضرت محمدﷺکے لیے اس قدر شدید نفرت تھی کہ میں ان کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا تھا، لیکن جب میں مسلمان ہوا تو میرے دل میں آقائے نامدارﷺکی محبت کا یہ عالم تھا کہ آپﷺ کے رعب کی وجہ سے میں ان کو نگاہ بھر کر دیکھنے کی تاب نہیں رکھتا تھااور اسی کیفیت میں زندگی بسر ہوگئی کہ میں ایک بار بھی رسول اکرمﷺ کے چہرہ مبارک کو آنکھ بھر کر نہیں دیکھ سکا اور اسی وجہ سے آنحضرتؐ کے چہرۂ انور کی تفصیلات کرنے کی ہمت مجھ میں نہیں ہے۔
2️⃣ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نبی اکرمﷺ کے ذاتی خادموں میں سے تھے جنہیں دس سال کی عمر میں ان کی والدہ محترمہ حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا نے اس مقصد کے لیے رسول اللہؐ کی خدمت میں پیش کر دیا تھا کہ میرا یہ بچہ آپﷺ کی خدمت کے لیے وقف ہے۔ انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ
کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی انصاری صحابی رضی اللہ تعالی عنہ نے حضورﷺ کی دعوت کی۔ بطور خادم میں بھی ساتھ تھا، صاحب خانہ نے خشک کیے ہوئے گوشت (قدید) کی بوٹیوں کے ساتھ شوربے والا کدو پکا رکھا تھا، جو آنحضرتؐ کی مرغوب غذا تھی۔ دسترخوان بچھا کر ایک بڑا پیالہ رکھ دیا گیا جس میں کدو اور شوربے والا گوشت تھا۔ انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ پیالے میں سے کدو کے ٹکڑے تلاش کر کے کھانے لگے، یہ دیکھ کر میں نے شوربے میں سے کدو کے ٹکڑے نکال کر آپﷺ کے سامنے رکھنے شروع کر دیے۔ اور پھر اس کے بعد مجھے کدو سے محبت سی ہوگئی، اس لیے کہ رحمت عالم رسول اللہﷺ اسے پسند فرماتے تھے، پھر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ گھر والوں نے مجھ سے کوئی چیز پکانے کے لیے پوچھا ہو اور میں نے کدو کے علاوہ کسی اور چیز کی فرمائش کی ہو۔ حتیٰ کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور حکومت میں جب بصرہ نئے شہر کے طور پر آباد ہوا اور وہاں امیر المومنین رضی اللہ تعالی عنہ نے بہت سے دیگر صحابہ کرام کے ساتھ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی بصرہ میں بھیج دیا اور وہاں انہیں کچھ زمین عنایت فرمائی تو حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے اس زمین میں کدو ہی کاشت کرنا شروع کر دیے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کی زمین میں فاصلے کے ساتھ کھجور کے درخت اور درمیان میں کدو کی بیلیں ہر طرف دکھائی دیتی تھیں۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کی پسند کے ساتھ محبت اور رسالت مآبﷺ کی دعا کا اثر تھا کہ باقی لوگوں کی کھیتیاں سال میں ایک بار فصل دیتی تھیں، جبکہ میری فصل سال میں دو بار فصل دیتی تھی اور بسا اوقات اتنے بڑے بڑے کدو ہوتے تھے کہ ایک کدو کو کاٹ کر گدھے پر لاد کر گھر لے جانا پڑتا تھا۔
خلاصہ کلام:
اصل ربیع الاوّل اس کا ہے، جو رات دن ہر وقت حضور ﷺ کو یاد رکھتا ہے، سال میں ایک مہینے کے لیے نہیں، ایک دن کے لیے نہیں، بارہ ربیع الاوّل کے لیے نہیں، جس کی ہر سانس بارہ ربیع الاوّل ہے، جو اللہ کے نبی کی سنت پر زندہ رہتا ہے، ہر سانس میں سوچتاہے اور اہلِ علم سے پوچھتا ہے کہ یہ خوشی کیسے مناؤں؟ شادی کیسے ہو؟ غمی کیسے ہو؟ ساری سنتیں پوچھتاہے اور سنت پوچھ کر سنت کے مطابق خوشی اور غمی کی تقریبات کرتاہے،تو جس کی ہر سانس سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سنت پر فد ا ہو، اس کی ہر سانس بارہ ربیع الاوّل ہے۔ جو شخص آپ کی سنت پرعمل کررہاہے اس کا روزانہ بارہ ربیع الاوّل ہے، کیونکہ آپ کے دنیا میں تشریف لانے کا مقصد یہی ہے کہ امت آپ کے نقشِ قدم کی اتباع کرے، کیونکہ؎
نقشِ قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے
اﷲسے ملاتے ہیں سنت کے راستے
(آداب عشق رسول اللہ ﷺ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: پیراور جمعرات کے دن اعمال اللہ کے ہاں پیش کئے جاتے ہیں ،میں چاہتا ہوں کہ میرا عمل روزے کی حالت میں پیش ہو۔( ترمذی : (747) )
ان احادیث سے پتہ چلا کہ نبی ﷺ نےپیر کے دن جیسے اپنی پیدائش کی خوشی میں روزہ رکھا، ایسے ہی اس دن کی فضیلت کی وجہ سے روزہ رکھا ،کیونکہ اس دن میں آپ پر وحی نازل ہوئی ،اور اسی دن اعمال اللہ کے ہاں پیش کئے جاتے ہیں ۔چنانچہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا کہ آپ کا عمل روزے کی حالت میں پیش ہو۔
معلوم ہوا کہ آپ کی پیدائش کا اس دن ہونا ،اس دن روزہ رکھنے کے بہت سے اسباب میں سے ایک ہے ۔