فیضان ماہ ربیع النور(قسط:3)
ازقلم: اے رضویہ، ممبئی
جامعہ نظامیہ صالحات کرلا
رسول اللّٰہﷺ کی تین حیثیتیں
1۔۔حیثیت بشری
2۔۔ حیثیت صوری
3۔۔ حیثیت ملکی
(ترمذی عن ابن عباس جلد دوم 201)
حضوراقدسﷺ تاریخ انسانی کیفیتِ بشری کی کامیاب ترین شخصیت
یعنی انسانوں جیسی کیفیت۔ یعنی ظاھری شکل و صورت میں آپ انسان ہی ہیں اور عام انسانوں کے ساتھ مل جل کر انسانی زندگی بسر فرماتے ہیں۔ اور انسانیت کے اہم تقاضوں کو پورا فرمایا۔ انسانی اخلاق حسنہ اور اللّٰہ کی توحید کی صرف زبانی تعلیم ہی نہیں بلکہ اس پر عمل فرما کر انسانوں کو صحیح معنی میں انسان بننے کی عملی تعلیم فرمائی۔ چاہے وہ مذھبی ہو سماجی ہو خاندانی ازواجی تجارتی مجاھدانہ عابدانہ وغیرہ یعنی آپ ﷺ نے تمام انسان نوع پر احسان و کرم فرمایا۔
مؤرخین یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ نسل انسانی میں کوئی شخصیت ایسی نہیں گزری کہ جس نے اتنے مختصر عرصے میں اپنی جدوجہد کے نتائج حاصل کیے ہوں، ایسی شخصیت جس نے صرف ۲۳ سال کے عرصے میں اللہ کی جانب سے جس مشن کا حکم ملا اپنے اس مشن کو اعلان کے مرحلے سے لے کر کامیابی کے مرحلے تک پہنچایا ہو۔ رسول اللہﷺ نے نبوت ملنے سے کچھ عرصہ بعد صفا کی پہاڑی پر کھڑے ہو کر سرعام دعوت دی تھی، گویا یہ آپﷺ کے مشن کا اعلان تھا ’’یا ایھا الناس، قولوا لا الٰہ الا اللّٰہ تفلحوا‘‘ کہ اے لوگو! کہہ دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے تا کہ تم فلاح پا جاؤ۔ اور پھر اس کے تقریباً ۲۲ سال بعد صفا کے قریب منیٰ میں کھڑے ہو کر حضوررحمت عالمﷺ نے اعلان فرمایا ’’فزت و رب کعبہ‘‘ رب کعبہ کی قسم میں اپنے مشن میں کامیاب ہوگیا ہوں۔ رسول اللہﷺ نے یہ اعلان کیا کہ میں نے جس مشن کا آغاز کیا تھا آج اس کے نتائج حاصل کر لیے ہیں۔ پھر آپﷺ نے اپنی کامیابی پر لوگوں کو بھی گواہ بنایا ’’وانتم تسألون عنی فما انتم قائلون؟ قالوا نشہد انک قد بلغت وادیت ونصحت فقال باصعبہ السبایہ یرفعہا الی السماء وینکتہا الی الناس اللّٰھم اشھد اللّٰھم اشھد اللّٰھم اشھد ثلاث مرات‘‘ (مسلم ۲۱۳۷) کہ تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا، پس تم کیا کہو گے؟ لوگوں نے کہا ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے پیغام پہنچا دیا اور پوری خیر خواہی کے ساتھ ذمہ داری ادا کر دی۔ رسول اللہﷺ نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور اس کے ساتھ لوگوں کی طرف اشارہ کر کے کہا اے اللہ گواہ رہنا، اے اللہ گواہ رہنا، اے اللہ گواہ رہنا۔
پیارے آقاﷺ تقریباً ڈیڑھ لاکھ صحابہ کے اجتماع سے مخاطب ہو کر فرما رہے ہیں کہ کل قیامت کے دن تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا کہ ہم نے اپنا پیغمبر بھیجا تھا اس نے تم تک میری بات پہنچائی یا نہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنھم نے اس پر گواہی دی کہ آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سونپی گئی یہ ذمہ داری نبھا دی ہے۔ چنانچہ اکیس بائیس سال کے مختصر عرصے میں رسول اللہﷺ نے اللہ کے حکم سے ایک مشن شروع کیا اور اپنی زندگی میں ہی اس مشن کی کامیابی کا اعلان فرمایا۔ اور یہ کامیابی ایسی نہیں تھی کہ ایک آدمی نے یہ دعویٰ کر دیا کہ میں کامیاب ہوگیا ہوں بلکہ تاریخ نے اس بات کو تسلیم کیا کہ یہ ایک عظیم کامیابی تھی۔ ایک مغربی مصنف نے کتاب لکھی ہے ’’دنیا کے سو بڑے آدمی‘‘۔ اس کتاب میں اس نے پہلے نمبر پر جناب نبی کریمﷺ کا تذکرہ کیا ہے، پھر مصنف نے دیباچے میں لکھا ہے کہ لوگ مجھ سے یہ بات پوچھیں گے کہ تم نے عیسائی ہو کر محمدﷺ کو پہلے نمبر کی شخصیت کیوں قرار دیا ہے۔ میرا جواب یہ ہے کہ اس کے سوا چارہ ہی نہیں ہے اس لیے کہ خود میرے طے کردہ میرٹ پر تاریخ میں اور کوئی شخصیت پہلے نمبر پر نہیں ہے۔
جاری۔۔۔