ازقلم: محمد اشفاق عالم نوری فیضی
نہالیہ جامع مسجد ، دکھن نارائن پور، کولکاتا۔136
رابطہ نمبر۔9007124164
اللہ رب العزت کا ابتدائے عالم سے یہ قانون رہا ہے کہ
جب جب دنیا میں کفر وشرک ،ضلالت و گمراہی کی کالی گھٹا چھائی ہے ،سطح زمین تیرہ و تاریک ہوئی ہے، تو اللہ تبارک و تعالی نے گمراہ انسانوں کی رشد وہدایت کے لیے کسی نہ کسی پیغمبر اور رسول کو مبعوث فرمایا ہے کفر شرک نے جس قدر اپنا سر اونچا کیاہے اتنا ہی عالی ہمت بلند حوصلہ پیغمبر بھی آے۔ ابتداے عالم سے لیکر ابتک نہ معلوم کتنے چراغ ہدایت یکے بعد دیگرے اس خاک دان گیتی پر تشریف لائے اور انکی ضیا پاشیوں سے پوری کائنات منور اور ہدایت یافتہ ہوگئی ۔ مگر آسمان نبوت کے آخری ستارے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تقریبا پانچ سوسال بعد جبکہ حضرت آدم علیہ السلام کے خطبۂ صدارت کو انسانی سماعت فراموش کرچکی تھی،حضرت نوح علیہ السلام کا غضبناک طوفان قلب انسانی سے محو ہو چکا تھا ۔حضرت موسی علیہ السلام کے چراغ کی لو بالکل دھیمی پڑ چکی تھی ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اعجاز مسیحائی اور تعلیمات انسانی دل ودماغ سے مٹ چکے تھے۔ دنیا بھر میں کفر و شرک کے دبیز چادر پر چکے تھے، زمین پر فسق وفجور کے سیاہ بادل چھا چکے تھے۔نہ صرف سرزمین عرب بلکہ پوری کائنات تاریکی میں ڈوب چکی تھی۔دور دور تک اسلام کی روشنی کا نام و نشان نظر نہ آتاتھا جبکہ انسان سے انسانیت رخصت ہو چکی تھی۔خدا کی دھرتی پر انسان ایسی ایسی حرکتیں اور سرکشی کررہاتھا کہ اسے اس دھرتی سے ہمیشہ کیلیے ختم ہوجانا چاہیے تھا۔انکی حرکتوں اور سرکشی کا تاریخ عالم میں کوئی نظیر نہیں ملتی تھی یہ وہ دور تھا جسے دنیا ایام جاہلیت کے نام سے یاد کرتی ہے اور اس دور کے وحشی درندے صفت انسانوں کے کردار کا اگر جائزہ لیا جائے تو کون سی خرابیاں اور برائیاں ان میں پائی نہیں جاتی تھیں۔بت پرستی،شراب نوشی،زناکاری،قماربازی،
رہزنی، دختر کشی ،عصمت دری، جنگ وجدال ان کا نصب العین ہوچکا تھا۔حد تو یہ تھا کہ یہ لوگ اپنے معبود حقیقی کو چھوڑ کر اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے پتھر کی پوجا کیا کرتے تھے۔ اور اپنا معبود اسی کو سمجھتے تھے ان لوگوں کا حال یہ تھا کہ ہر ہر قبیلہ کا معبود الگ الگ تھا کوئی قبیلہ لات کے آگے سر بسجود ہوتا تھا،کوئی قبیلہ عزی کا پجاری تھا،کوئی قبیلہ منات کی پرستش میں محو تھا۔تو کسی قبیلہ کا شجر و حجر،شمس وقمرمسجود انسانیت بنے ہوئےتھے ۔ایسے تیرہ و تاریک میں اللہ ربّ العزت نے اس دھرتی پر نبی آخر الزماں ، خاتم النبیین، امام القبلتین، افضل البشر روحی فدا جناب محمد الرسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو مبعوث فرماکر اپنے بندوں پر احسان عظیم فرمایا۔اب انکی ولادت باسعادت کے تعلق سے چند پہلؤں کو ملاحظہ فرمائیں۔
ولادت باسعادت:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش میں اختلاف ہے مگر اگر مشہور یہی ہے کہ 12/ربیع الاول مطابق 20/اپریل571ءکو سند الاصفیا،اشرف لانبیاء، احمد مجتبیٰ،محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی۔پاکیزہ بدن،ناف بریدہ،ختنہ شدہ،خوشبو میں بسے ہوئے بحالت سجدہ، مکہ مکرمہ کی مقدس ومطہر سرزمین میں،حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بطن مبارک سے پیداہوے۔ آپکے والد ماجد کا سایہ پہلے ہی اٹھ چکا تھا ،والد کہاں تھے جو بلاے جاتے ،اور اپنے خوبصورت،حسین وجمیل لخت جگر کو دیکھ کر خوشیاں مناتے،البتہ آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب رضی اللہ تعالی عنہ کو بلایا گۓ جو اس وقت طواف کعبہ میں مشغول تھے۔اپنے پوتے کی ولادت کی خوشخبری سن کر بخوشی حرم کعبہ سے اپنے گھر واپس آۓ اور والہانہ فرط محبت میں اپنے پوتے کو کلیجے سے لگالیا۔پھر اپنی گود میں لیکر خانہ کعبہ پہنچے اور وہاں خیر و برکت کی دعا مانگی۔اور آپ کا نام "محمد” رکھا۔معلوم ہو کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا زمین پر نام محمد اور آسمان پر احمد ہے ۔
حسب ونسب نامہ:
حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب شریف والد ماجد کی طرف سے یہ ہے ۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبد اللہ۔بن عبدالمطلب۔بن ھاشم۔ بن عبدمناف۔بن قصی۔بن کلاب۔بن مرہ۔بنوکعب۔بن لوی۔بن غالب۔بن فہر۔بن مالک۔بن نظر۔بن کنانہ۔بن خزیمہ۔بن مدرک۔بن الیاس۔بن مضر۔بن نزار۔بن معد ۔بن عدنان۔ (بخاری شریف)
زمانہ شیر خوارگی:
سب سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو لہب کی لونڈی” حضرت ثوبیہ”کا دودھ نوش فرمایا پھر اپنی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا سے سیراب ہوتے رہے۔پھر حضرت حلیمہ سعدیہ آپ کو اپنے ساتھ لے گئیں اور اپنے قبیلے میں رکھ کر آپ کو دودھ پلاتی رہیں۔اور انھیں کے پاس آپ کے دودھ پینے کا زمانہ گزرا۔(مدارج النبوہ)
عرب کا دستور تھا کہ کسی کے گھر اگر بچے کی ولادت ہوتی تو وہ اپنے بچوں کو دودھ پلانے کے لئے گاؤں دیہاتوں میں بھیج دیتے تھے،گاون دیہاتوں میں صاف وستھری آب و ہوا میں بچوں کی تندرستی اور جسمانی صحت بھی اچھی ہوجاتی تھی۔اسی دستور کے مطابق حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی فکرمند ہونے لگی۔
حضرت حلیمہ کے رضیہ اللہ تعالی عنہا کے گھر برکتوں کا ظہور:
ادھر حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہا بنی سعد کی چند عورتوں کی معیت میں مکہ کو چلی ۔اس سال عرب میں قحط سالی پڑی ہوئی تھی۔فقر فاقہ کی یہ نوبت آ پہنچی تھی کہ حضرت حلیمہ کی گود میں ایک بچہ تھا تو ان کے پلانے کےلئے بھی دودھ میسر نہ ہوتا تھا
دودھ میسر نہ ہونے کی وجہ سے وہ بچہ رات بھر تڑپتا ادھر حضرت حلیمہ اس بچے کی دلجوئی کے لئے رات رات بھر جاگ کر گزارا کرتی ۔وہ اپنی لاغر دبلا پتلا خچر پر سوار ہو کر پہنچ گئی جنکی سواریاں تیز وہ پہلے ہی مکہ
پہنچ کر امراء اور شرفاء کے بچوں کو اٹھا کہ واپس ہونے لگی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یتیم دیکھ کر کوئی لینے کے لئے تیار نہ ہوئی۔ حضرت حلیمہ کو جب مکہ کے امراء و رؤسا کے بچے نہ مل سکے تو مجبوراً حضرت حلیمہ نے اپنے شوہر "حارث” سے خالی ہاتھ گھر واپس نہ جانے کا فیصلہ کیا ۔آخر کار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گود میں لی اور گھر واپس ہونے لگی ۔اللہ رب العزت کی شان دیکھیے کہ حضرت حلیمہ کی گود میں آتے ہی الحمدللہ برکتوں کا ظہور ہونے لگا حضرت حلیمہ کے پستان میں دودھ اتر آیاحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے رضائی بھائی نے بھی خوب شکم سیر ہو کر دودھ پیا۔ آپکا خچر بھی تندرست ہو گیا،قافلے میں سب سے پیچھے تھی واپسی میں سب سے آگے نکل گئ،انکے گھر کی بکریوں کے تھن دودھ سے بھر گئے۔الغرض اسی طرح ہر قدم پر آپکی برکتوں کا مشاہدہ کرتی رہی اور آپنے دو سال تک مکمل دودھ پلاتی رہی اسکے بعد مکہ واپس کردی ۔
سینۂ مبارک کا چاک ہونا:
ایک دن آپ چراگاہ میں تھے کہ ایک دم حضرت حلیمہ کے ایک فرزند” ضمرہ” دوڑتے اور ہانپتے کانپتے ہوے اپنے گھر آے اور اپنی ماں حضرت حلیمہ سے کہا کہ امی جان!بڑا غضب ہوگیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تین آدمیوں نے جو بہت ہی سفید لباس پہنے ہوے تھے ۔چت لٹا کر ان کا شکم پھاڑ ڈالا ہے ۔اور میں اسی حال میں ان کو چھوڑ کر بھاگا ہوا آیاہوں۔یہ سن کر حضرت حلیمہ اور ان کے شو ہر دونوں بدحواس ہوکر گھبرائے ہوئے دوڑ کر جنگل میں پہنچے تو یہ دیکھا کہ آپ بیٹھے ہوئے ہیں ۔مگر خوف وہراس سے چھرہ زرد اور اداس ہے ۔حضرت حلیمہ نے انتہائی مشفقانہ لہجے میں پیار سے پوچھا کہ بیٹا ! کیا بات ہے؟آپ نے فرمایا کہ تین شخص جن کے کپڑے بہت ہی سفید اور صاف ستھرے تھے میرے پاس آئے اور مجھ کو چت لٹا کر میرا سینہ چاک کر کے اس سے کوئی چیز نکال کر باہر پھینک دیا اور پھر کوئی چیز میرے شکم میں ڈال کرشگاف کو سی دیا۔لیکن مجھے ذرہ برابر بھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔(مدارج النبوہ)
بچپن کی عجیب وغریب ادائیں:
حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا بیان ہے کہ آپ کا گہوارہ یعنی جھولا فرشتوں کے ہلانے سے ہلتاتھا۔اور آپ بچپن میں چاند کی طرف انگلی اٹھاکر اشارہ فرماتے تھے تو چاند آپ کی انگلی کے اشاروں پر حرکت کرتا تھا ۔جب آپ کی زبان کھلی تو سب سے اول جو کلام آپ کی زبان مبارک سے نکلا وہ یہ تھا "اللہ اکبر،اللہ اکبر،الحمد للہ ربّ العالمین وسبحان اللہ بکرة واصیلا۔ بچوں کی عادت کے مطابق کبھی بھی آپ نے کپڑوں میں بول وبراز نہیں فرمایا۔بلکہ ہمیشہ ایک معین وقت پر رفع حاجت فرماتے۔اگر کبھی آپ کی شرمگاہ کھل جاتی تو آپ رو رو کر فریاد کرتے اور جب تک شرمگاہ نہ چھپ جاتی آپ کو چین اور قرار نہیں آتا تھا۔اور اگر شرمگاہ چھپانے میں مجھ سے کچھ تاخیر ہوجاتی تو غیب سے کوئی آپ کی شرمگاہ چھپا دیتا ۔جب آپ اپنے پاؤں پر چلنے کے قابل ہوے تو باہر نکل کر بچوں کو کھیلتے ہوے دیکھتے۔مگر خود کھیل کود میں شریک نہیں ہوتے تھے ۔لڑکے آپ کو کھیلنے کے لئے بلاتے تو آپ فرماتے کہ میں کھیلنے کے لئے نہیں پیدا کیا گیا ہوں۔(مدارج النبوۃ)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابو طالب کی کفالت میں:
عبدالمطلب کی وفات کے بعد آپ کے چچا ابو طالب نے آپ کو اپنی آغوشِ تربیت میں لے لیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نیک خصلتوں اور دل لبھادینے والی بچپن کی پیاری پیاری اداؤں نے ابو طالب کو آپ کا ایسا گرویدہ بنادیا کہ مکان کے اندر اور باہر ہر وقت آپ کو اپنے ساتھ ہی رکھتے۔اپنے ساتھ کھلاتے پلاتے اپنے پاس ہی آپ کا بستر بچھا تے اور ایک لمحہ کے لئے بھی کبھی اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے تھے ۔حضرت ابو طالب کا بیان ہے کہ میں نے کبھی بھی نہیں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی وقت بھی کوئی جھوٹ بولے ہوں۔یا کبھی کسی کو دھوکہ دیا ہو۔یاکبھی کسی کو ایذا پہنچائی ہو۔یا بیہودہ لڑکوں کے پاس کھیلنے کے لئے گئے ہوں۔یا کبھی کوئی خلاف تہذیب بات کی ہو ۔ہمیشہ انتہائی خوش اخلاق،نیک اطوار،نرم گفتار،بلندکردار،اور اعلی درجہ کے پارسا اور پرہیز گار رہے ۔
انگشت مبارک کی حرکت سے بارش کا نزول:
ایک مرتبہ ملک عرب میں زبردست قحط پڑ گیا اھل مکہ نے بتوں سے فریاد کرنے کا ارادہ کیا۔ مگر ایک حسین و جمیل بوڑھے نے مکہ والوں سے کہا کہ اے اہلِ مکہ! ہمارے اندر ابوطالب موجود ہیں۔جو بانی کعبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ہیں اور کعبہ کے متولی اور سجادہ نشین بھی ہیں۔ ہمیں ان کے پاس چل کر دعا کی درخواست کرنی چاہیے۔ چنانچہ سردارانِ عرب ابوطالب کی خدمت میں حاضرہوے فریاد کرنے لگے کہ اے ابو طالب ! قحط کی آگ نے سارے عرب کو جھلس کر رکھ دیا ہے جانور گھاس پانی کے لئے ترس رہے ہیں۔اور انسان دانہ پانی نہ ملنے سے تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہے ہیں۔ آپ بارش کے لئے دعا کیجیے اہل عرب کی فریاد سن کر ابو طالب کا دل بھر آیا۔اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ لے کر حرم کعبہ میں گۓ،اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیوار کعبہ سے ٹیک لگا کر بیٹھا دیا اور دعا مانگنے میں مشغول ہوگئے۔درمیان دعا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشت مبارک کو آسمان کی طرف اٹھادیا ۔ایک دم چاروں طرف سے بدلیاں نمودار ہوئیں اور فوراً ہی اس زور کا باران رحمت برسا کہ عرب کی زمین سیراب ہوگئی جنگلوں اور میدانوں میں ہر طرف پانی ہی پانی نظر آنے لگا اس طرح قحط دور ہوگیا اور سارا عرب خوشحال ہو گیا۔ اب ہم امتی کا اہم فریضہ ہے کہ اپنے آقا،محسن انسانیت کی ولادتِ باسعاد ت کی خوشی میں عید میلاد النبی،جلسے اورجلوس کا اہتمام کریں اور اپنی دنیاوی و اخروی نعمتوں سے مالا مال ہوں ۔
اک عرب نے آدمی کا بول بالا کردیا
خاک کے ذروں کو ہم دوش ثریا کردیا
خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا