ربیع الاول مذہبی مضامین نبی کریمﷺ

عید میلاد النبی کی سماجی اہمیت

تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی

پچھلے ہفتے (12 تا 15 اکتوبر) تقریر کرنے کے لیے علاقہ مالوہ کے رتلام اور مندسور میں جانا ہوا۔ چار دنوں کے اس سفر میں چار الگ الگ مقامات پر خطاب کرنے کا موقع ملا۔اس درمیان رتلام اور مندسور کے مابین کئی دیہاتوں اور شہر کے اہم مقامات سے بھی گزر ہوا۔علاقے کی غالب اکثریت ہندوؤں کی ہے۔تہذیبی اعتبار سے بھی ہندو سماج کو مکمل غلبہ حاصل ہے۔اکّا دکّا مقامات پر ٹوپی یا برقع بھلے ہی نظر آجائے ورنہ لباس کے ذریعے مسلمان کی پہچان کی جائے تو مایوسی ہی ہاتھ آتی ہے۔ان علاقوں میں بھولے سے بھی آپ کو اردو لکھی ہوئی نہیں ملے گی، حد تو یہ ہے کہ مساجد میں بھی اللہ ورسول کے ناموں کے علاوہ سب کچھ ہندی میں ملے گا۔اس لیے شہر ہو کہ دیہات ، مسلم علاقوں کی پہچان کرنا بے حد مشکل ہے۔ان حالات کی دو بنیادی وجہ ہیں:
1۔آبادی کا حد درجہ کم ہونا۔
2۔زبان اور تہذیب کے اعتبار سے مغلوب ہونا۔
پہلے ان علاقوں کا افرادی ولسانی خاکہ دیکھیں تاکہ زمینی حقائق کا صحیح اندازہ ہوسکے:

*رتلام کی آبادی:*


اُجّین  ڈویژن (Ujjain division) کے قابل لحاظ مسلم آبادی والے ضلع رَتلام (Ratlam) کا کل رقبہ4861 مربع کلومیٹر ہے۔2011کی مردم شماری کے مطابق ضلع رتلام کی مسلم آبادی ایک لاکھ اکیاون ہزار سے زائد ( 151071) ہے۔جو ضلع کی کُل آبادی کا صرف %10.38 ہے۔آبادی کی کمی کے ساتھ اس بات کا بے حد افسوس ہے کہ ضلع رتلام کی اردو آبادی (urdu population) صرف  %1.27 ہے۔ دوسرے الفاظ میں رتلامی مسلمانوں کی غالب اکثریت ہندوؤں کی لسانی (linguistic) اور تہذیبی (cultural) یلغار کے نرغے میں ہے۔سال 2011 کی مردم شماری کے مطابق ضلع رتلام کی تحصیل واری (Tehsil wise) مسلم آبادی (Muslim population) مندرجہ ذیل ہے:

Jaora
46821               19%

Ratlam
74623               13%

Alot
10469               9%

Tal
8251                 8%

Piploda
7665                 6%

Sailana
2284                 2%

Bajna
541                 0.61%

Rawti
  417                0.5%
___________________

*مندسور کی آبادی*
اب مندسور کا خاکہ بھی دیکھ لیں:
ضلع مندسور(Mandsaur) کا رقبہ9791 مربع کلومیٹر ہے۔2011 کی مردم شماری (census) کے مطابق ضلع مندسور کی مسلم آبادی ایک  لاکھ  پچیس ہزار سے زائد ( 125548) ہے۔جو ضلع کی کل آبادی کا صرف %9.37 ہے۔رتلام کی طرح مندسور میں بھی مسلم آبادی کی اردو سے لاتعلقی بے حد افسوس ناک ہے۔حکومتی ریکارڈ کے مطابق مندسور کے مسلمانوں کی ایک فیصد  سے بھی کم آبادی ہی اردو سمجھتی ہے۔مندسور  کے مسلمان بھی ہندوؤں کی لسانی(linguistic) اور (cultural) غلامی کے حصار میں ہیں۔ضلع مندسور کی تحصیل واری مسلم آبادی مندرجہ ذیل ہے.

MANDSAUR
  61426              18%

Malha garh
15119                7%

Sita mau
12413                7%

Garoth
8495                  6%

Bhanpura
8454                  6%

Sham garh
7968                  6%

Daloda
6992                  6%

Suwasara
4681                  5%
_________________

دونوں اضلاع میں مسلمانوں کی افرادی اور لِسانی پوزیشن آپ کے سامنے ہے۔ہندوؤں کی غالب اکثریت اور لسانی وتہذیبی غلبے کے درمیان اتنی معمولی اقلیت کا اپنے ایمان وعقیدے پر قائم رہنا اور اسلامی تہذیب سے اپنا جُڑاؤ برقرار رکھ پانا کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔ان چیلنجوں کے درمیان عید میلاد کی آمد کسی نعمت اور بہار سے کم نہیں ہے۔جیسے ہی یہ ماہ مقدس آتا ہے تو ہر مسلمان کی چھت پر عید میلاد کے جھنڈے، راستوں میں برقی قمقمے، سرکار کی آمد مرحبا جیسے بینر اور طغرے نظر آنے لگتے ہیں۔میں ایسے کئی راستوں/علاقوں سے گزرا ہوں جہاں ماہ ولادت سے پہلے مسلمانوں کی پہچان کرنا بے حد مشکل تھا، کیوں کہ لباس اور زبان کے اعتبار سے ہندو مسلم میں فرق کرنا بے حد دشوار ہے۔ملی جلی آبادیوں میں مسلم گھروں کی پہچان کسی طور ممکن نہیں لیکن انہیں علاقوں میں اس وقت مسلمانیت نظر آنے لگتی ہے جب ماہ میلاد کا چاند نظر آتا ہے۔اِسی ماہ کی برکت سے میلاد کی محفلوں اور سیرت النبی کے جلسوں کا انعقاد وہاں کا عام معمول ہے، یوں کہہ لیں کہ جتنی محفلیں مسلم اکثریتی علاقوں میں منعقد ہوتی ہیں اُس سے کئی گنا زیادہ اُن علاقوں میں منعقد ہوتی ہیں۔یہ محفلیں ان کی ضرورت بھی ہیں اور دینی ذوق کی تسکین کا ذریعہ بھی!
کیوں کہ وہاں آئے دن ہندو سماج کے مختلف تہوار اور ثقافتی پروگرام ہوتے رہتے ہیں، ایسے میں ہنود کی مذہبی تقریبات کے اثر سے خود کو اور اپنی نسلوں کو بچانے کے لیے مذہبی محفلوں اور اپنے تہذیبی اجلاس کا انعقاد بے حد ضروری ہے۔
ذرا سوچیں!
اگر ان سے یہ تہذیبی تہوار بھی چھین لئے جائیں تو ہندوؤں کے افرادی اور تہذیبی غلبے کے درمیان معمولی سی مسلم اقلیت کا کیا حال ہوگا؟
ایسا بھی نہیں ہے کہ مسلمانوں کا سب کچھ میلادالنبی جیسی تقاریب پر ہی منحصر ہے مگر یہ بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ میلادالنبی جیسی تقریبات اُنہیں اسلامی تہذیب سے وابستہ رکھنے کا اہم اور بنیادی ذریعہ ہیں۔میلاد کی محفلیں دینی ومذہبی معلومات حاصل کرنے کا بہترین پلیٹ فارم ہیں۔جس کے صدقے ان کی نسلیں اغیار کے اثر سے محفوظ ہیں، جس کی بنا پر ہندو تہذیب کے درمیان بھی اسلامی تہذیب کا عَلم قائم ہے۔یہ صرف اُنہیں علاقوں کی ضرورت نہیں ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی برائے نام ہے بلکہ میلادالنبی جیسے تہذیبی تہوار مسلم اکثریتی علاقوں کی بھی ضرورت ہیں۔ایسے نازک دور میں دیوبندی اور وہابی مکتب فکر کے افراد کا میلادالنبی جیسی تقریب کے خلاف مہم چلانا، اس کے جواز پر بخاری ومسلم سے دلیل مانگنا جہاں اسلامی مزاج ومقصد سے لاتعلقی کی دلیل ہے وہیں بھارت جیسے ملک میں مسلم اقلیت کو غیروں کی تہذیب پر بَلِی چڑھانے جیسا جرم بھی ہے۔یہ جرم اس وقت مزید بھیانک ہوجاتا ہے جب حکومتی کارندے، میڈیا، سنیما اور تعلیمی ادارے مسلمانوں سے ان کا تہذیبی تشخص چھیننے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ایسے نازک وقت میں میلادالنبی جیسی تقریبات کے خلاف مہم چلانا شرپسندوں کو تقویت پہنچانا اور ان کی مدد کرنے جیسا ہے۔عید میلاد النبی اور اس کی شرعی تقریبات بھارتی مسلمانوں کی سماجی ضرورت اور تہذیبی تشخص کا بنیادی ذریعہ ہے اور اس کی مخالفت ناقابل معافی جرم ہے۔

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے