سیرت و شخصیات

حضور سرکار سرکانہی اور اتباع سنت

تحریر: محمد حبیب القادری صمدی (مہوتری، نیپال)

ریسرچ اسکالر جامعہ عبد اللہ بن مسعود (کولکاتا)

mdhabibulqadri@gmail.com

اللہ رب العزت کا احسان عظیم ہے کہ اس نے ہم میں سرور کائنات ، فخر موجودات، احمد مجتبی محمد مصطفیٰ ﷺ کو مبعوث فرمایا۔ اور آپ ﷺ کو ہمارے لیے بے نظیر و بے مثل رہبر و رہنما اور عظیم آئیڈیل بنایا۔ اور مختلف مواقع پر مختلف انداز میں رسول کریم ﷺ کی اطاعت کا حکم دیا۔ کہیں آپ ﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا۔ اور ارشاد فرمایا:

‘‘ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ’’ (النساء، آیت:۸۰)

ترجمہ: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ کا حکم مانا۔ (کنز الایمان)

تو کہیں مطلق اطاعت کا تاج آپ کے سر انور پر رکھا۔ اور ارشاد فرمایا:

‘‘وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللہِ’’ (النساء، آیت: ۶۴)

 ترجمہ: اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔ (کنز الایمان)

کہیں امت مسلمہ کو آپ ﷺ کے امر و نہی کا پابند بنایا۔ اور ارشاد فرمایا:

‘‘ وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ، وَمَانَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا’’ (الحشر، آیت: ۷)

ترجمہ: اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو۔ (کنز الایمان)

صدرالافاضل حضرت علامہ مفتی سید محمد نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ اس آیت مبارکہ کے تحت تحریر فرماتے ہیں:

‘‘ غنیمت میں سے کیونکہ وہ تمہارے لیے حلال ہے یا یہ معنی ہیں کہ رسول کریم ﷺ تمہیں جو حکم دیں اس کی اتباع کرو کیونکہ نبی کریم ﷺ کی اطاعت ہر امر میں واجب ہے۔ (خزائن العرفان، ص:۱۰۱۰)

تو کہیں اللہ رب العزت نے اپنی محبت کو نبی کریم ﷺ کی اتباع کے ساتھ مشروط کر دیا۔ اور ارشاد فرمایا:

‘‘ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہُ’’ (آل عمران، آیت: ۳۱)

ترجمہ: اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا۔ (کنز الایمان)

صدر الافاضل حضرت علامہ مفتی سید محمد نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ اس آیت مبارکہ کے تحت تحریر فرماتے ہیں:

‘‘اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ کی محبت کا دعویٰ جب ہی سچا ہوسکتا ہے جب آدمی سید عالم ﷺ کا متبع اور حضور کی اطاعت اختیار کرے’’۔ (خزائن العرفان، ص:۱۱۰)

واضح رہے! نبی کریم ﷺ کی اطاعت ہی اصل ایمان ہے۔ بخاری شریف کی حدیث ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کہ رسول  کریم ﷺ  نے ارشاد فرمایا:

‘‘کُلُّ اُمَّتِی یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃّ اِلَّا مَنْ أَبَی قَالُوْ ا یَا رَسُوْلَ اللہِ!وَمَنْ یَابَی ؟ قَالَ مَنْ اَطَاعَنِیْ دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَمَنْ عَصَانِی فَقَدْ أَبَی ’’

ترجمہ: میرا ہر امتی جنت میں داخل ہوگا سوا اس کے جس نے انکار کیا ۔ صحابہ نے پوچھا : یارسول اللہ! اور کون انکار کرے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی پس بے شک اس نے انکار کیا۔

(صحیح بخاری ، کتاب لاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب الاقتداء بسنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ج: ۲، ص:۱۰۸۱)

مزید اللہ کے رسول ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:

‘‘مَنْ أَطَاعَنِی فَقَدْ أَطَاعَ اللہَ وَمَنْ عَصَانِی فَقَدْ عَصَی اللہَ’’

ترجمہ: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کرلی ، اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کرلی۔

(صحیح بخاری، کتاب الاحکام، باب قول اللہ اطیعوا اللہ ۔۔۔الخ ، ج:۲،ص:۱۰۵۷)

یاد رکھیں! جس طرح نماز ، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ میں رسول کریم ﷺ کی اطاعت ضروری ہے اسی طرح اخلاق و کردار، کاروبار، لین دین، حقوق العباد اور دیگر معاملات میں بھی اطاعت ضروری ہے۔ اللہ رب العزت کو اپنی اور اپنے حبیب ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری  کرنے والا شخص محبوب و پسندیدہ ہے ۔ ان اطاعت گزار بندوں کو اللہ رب العزت یہ انعام عطا فرماتا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں ان کی عزت و عظمت بیٹھا دیتا ہے ۔ انہیں میں سے ایک نمایاں شخصیت  سرکار سرکانہی حضرت علامہ الشاہ الحاج محمد تیغ علی علیہ الرحمہ   کی ہے  جنہوں نے اپنی پوری  زندگی  شریعت و سنت کے مطابق گذاری  اور  تمام معاملات میں احکام  شریعت کو ملحوظ رکھا۔ حتی کہ کھانے ، پینے، اٹھنے، بیٹھنے  اور چلنے پھر نے میں بھی احکام شرع کو پیش نظر رکھا۔ نہ صرف خودہی شدت کے ساتھ شریعت مطہرہ کی  پابندی کی بلکہ دوسروں کو بھی احکام شرعیہ پر عمل کرنے کی سختی سے تاکید فرمائی۔  خلیفہ اول حضرت علامہ الشاہ الحاج محمد تیغ علی سرکار سرکانہی علیہ الرحمہ  حضرت حافظ شاہ محمد حنیف صاحب قادری علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ (سرکار سرکانہی علیہ الرحمہ) اکثر فرمایا کرتے :

‘‘ کمال شریعت کا نام طریقت ہے ۔ بلا اتباع شریعت طریقت حاصل نہیں ہوتی۔ بزرگوں کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص ہوا پر اڑتا ہو ، پانی پر چلتا ہو ، آگ پر بیٹھتا ہو لیکن اس کی مونچھیں خلاف شرع بڑھی ہوئی ہو تو اس کو ولی مت سمجھو بلکہ وہ شیطان ہے’’۔ 

مزید فرماتے ہیں:

‘‘ تشرع کا یہ عالم تھا کہ اگر کوئی شخص آپ کے ہاتھ کو بوسہ دیتا اور اس کی ناک اور پیشانی آپ کے ہاتھ سے مس ہوجاتی تو فورا متنبہ فرماتے کہ ناک اور پیشانی عضائے سجود سے ہیں۔ ہاتھ چومنے یا کسی بزرگ کے مزار کو بوسہ دینے میں اس کا خوب خیال رکھو کہ یہ اعضا ان سے مس نہ ہونے پائے۔ یونہی کوئی آپ کا قدم اگر چومنا چاہتا تو پاؤں تک پہنچنے سے پہلے ہی اس کو اٹھا لیتے ۔ اس کے سر پر دست شفقت پھیرتے ، ننگے سر کھاتے ،پیتے یا قضائے حاجت کے لیے جاتے ہوئے آپ کو کبھی نہیں دیکھا گیا۔ ایک بار دامودر پور مدرسہ میں ایک طالب علم جو دورہ حدیث میں تھے ننگے سر کھانا کھارہے تھے کسی نے منع کیا تو انہوں نے کہا کہ کھانے پینے میں سر پر ٹوپی یا رومال رکھنا فرض و واجب تو نہیں ۔ جب یہ بات سرکار قبلہ کو معلوم ہوئی تو سخت برہم ہوئے اور فرمایا: سنی مسلمان کو تو سرکار کائنات ﷺ کی ہر ادا اور ہر سنت جان سے پیاری ہوتی ہے خواہ وہ سنت مؤکدہ اور مستحب ہی کیوں نہ ہو۔

ایک بار آپ بلڈپریشر کے دورے میں سخت بے چین تھے ۔ کسی کروٹ آرام نہیں ملتا تھا ۔ اسی حالت میں استنجا کی حاجت ہوئی ۔ اسی بے چینی میں بستر سے اٹھے اور بندھنا لے کر استنجا خانے میں گئے جب بیٹھنا چاہا اس وقت خیال آیا کہ سر پر ٹوپی نہیں ہے فورا الٹے پاؤں پھرے اور چھپّر  پر سے ایک کدّو کا پتہ توڑ کر سرپر رکھا اور استنجا سے فراغت حاصل کی۔

اگر کسی کے پائجامے یا تہہ بند کا نچلا حصہ اتنا بڑھا ہوا دیکھتے کہ اس کے پاؤں کے ٹخنے چھپ گئے ہیں تو نہ صرف یہ کہ اس کو متنبہ فرماتے کہ اتنا نیچا نہ پہنو، بلکہ بعض اوقات اتنا رنج و ملال ہوتا کہ آپ رونے لگتے’’۔ (انوار قادری، ص:۵۲/۵۳)

 حضور سرکار سرکانہی علیہ الرحمہ کی والدہ کریمہ  فرماتی ہیں:

‘‘جب کچھ سمجھ دار ہوئے اور کچھ بول چال کرنے لگے اسی وقت سے میں دیکھتی کہ طہارت کا بہت خیال رکھتے پیشاب کرنے کے بعد جیسے سیانے لوگ کلوخ لیتے ہیں یہ بھی ویسا ہی کرتے ۔ سن شعور ہی سے شرم و حیا داری غایت درجہ تھی ۔ کھیل کود ، گالی گلوج کی طرف جیسا کہ اکثر بچوں کی عادت ہوتی ہے کبھی مائل نہ ہوئے، جب کبھی کسی لڑکے ساتھ ہوتے اور اس کی زبان سے فحش کلام سنتے تو بہت نفرت کرتے اور فورا اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ۔ غرض کہ بچپن ہی سے بزرگی کے آثار نمایاں تھے۔

(انوار قادری، ص:۱۲)

با لائے سرش ز ہوش مندی

می تافت ستارہ بلندی

مذکورہ گفتگو سے روز روشن کی طرح عیاں ہوگیا کہ سرکار سرکانہی علیہ الرحمہ کو سنن نبویہ سے کتنا شغف تھا اور شریعت مطہرہ کے کتنے پابند تھے۔ 

اللہ رب العزت ہم سب کو اتباع رسول ﷺ میں زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور فیضان حضور سرکار سرکانہی علیہ الرحمہ سے مالامال فرمائے۔ آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین ﷺ

مسلک سنت پہ اے سالک چلا جا بے دھڑک

منزل مقصود کو سیدھی گئی ہے یہ سڑک

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے