ازقلم: نازش المدنی
سرزمین امروہہ علما واولیا کا حسین سنگم ہے۔ جہاں قطبِ امروہہ حضرت سید حسین شرف الدین شاہ ولایت علیہ الرحمہ اور استاذ الافاضل، فخر الاماثل قطب زماں، محدث دوراں حضرت علامہ الشاہ سید خلیل احمد کاظمی محدث امروہوی قدس سرہ جیسی عظیم ذوات قدسیہ آرام فرما ہیں۔ اسی مقدس خطہ سے ہمارے ممدوح گرامی رئیس الاتقیا، استاذ العلما ، امام المدرسین، سند المحدثین، عالم با عمل، نمونۂ سلف، عمدۃ الخلف، خلیفہ مفتی اعظم ہند حضرت علامہ الشاہ مفتی مبین الدین فاروقی محدث امروہوی علیہ الرحمۃ والرضوان کا تعلق ہے۔
ولادت باسعادت :
آپ کی ولادت مبارکہ جمادی الآخرہ 1337ھ/مارچ 1919ء میں امروہہ ضلع مرادآباد، یوپی ہند میں ہوئی۔
نام ونسب :
آپ علیہ الرحمہ کو چونکہ دینِ حنیف کا معین ومددگار بنا کر بھیجا گیا تھا اس واسطہ آپ کے والدین کریمین نے آپ کا نام مبارک مبین الدین (دین کو ظاہر کرنے والا)رکھا۔ آپ کے والد گرامی کا نام حضرت شیخ معین الدین عرف سلطان احمد (علیہ الرحمہ) ہے۔اور آپ کی والدہ کا نام ہاجرہ بانو (علیہا الرحمہ) ہے۔
تعلیم وتربیت :
ابتدائی تعلیم آپ نے والدین کے زیرسایہ اپنے گھر ہی میں حاصل کی پھرکم سنی میں والدہ ماجدہ علیہا الرحمہ کے وصال کے سبب آپ کا تعلیم وتعلم کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ بعد ازاں امروہہ کے ایک عالم نے آپ کی تعلیم وتربیت کی طرف توجہ دی۔کچھ عرصہ آپ نے ان کی خدمت میں رہ ابتدائی فارسی ،عربی کتب کا درس لیا۔ بعدہ حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ مجددی اعظمی علیہ الرحمہ، قاضی محبوب احمد عباسی مجددی کے ایماء پر آپ شوال ۱۳۶۱ھ میں ایک بلند پایہ اُستاد حضور صدر الشریعہ علامہ مفتی محمد امجد علی رضوی اعظمی علیہ الرحمہ سے تعلیم حاصل کرنے دادوں ،ضلع علی گڑھ پہنچے۔ اور ۲۴؍شعبان ۱۳۶۴ھ؍۱۴؍اگست ۱۹۴۴ء کو سند فراغت حاصل کر کے واپس ا مروہہ تشریف لائے (عالم باعمل ص: 19،18)
ممتاز اساتذہ کرام
آپ کے اساتذہ کرام میں اس دور کے نامور اساتذہ کرام شامل ہیں جن کی علم وفن کی طوطی شرق وغرب میں بولتی تھی۔جن کے خوان کرم سے سیراب ہونے طالبان علوم نبویہ بڑی دور دور سے آتے تھے۔
• حضرت مولانا سید محمد خلیل احمد کاظمی علیہ الرحمہ محدث امروہوی
• صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی رضوی اعظمی علیہ الرحمہ
• شہزادہ امام اہل سنت، حضرت مفتی اعظم ہند علامہ مفتی مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہ
• شہنشاہ درس وتدریس حضرت علامہ حکمت اللہ صدیقی
• علامہ حافظ تمیز الدین امروہوی علیہ الرحمہ
درس وتدریس :
تعلیم سے فراغت کے بعد حضرت علامہ مبین الدین امروہوی علیہ الرحمہ نے سب سے پہلے دہلی کے ایک مدرسہ تجوید القرآن میں یکم محرم ۱۳۶۴ھ؍۲۹؍دسمبر ۱۹۴۳ء سے تدریس کا آغاز کیا۔ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ امام النحو، حضور صدر العلما علامہ سیدغلام جیلانی محدث میرٹھی علیہ الرحمہ نے آپ کو اپنے ادارہ اندر کوٹ میرٹھ کے لیے بلا لیا اور وہاں آپ علیہ الرحمہ ۴ذلحجہ ۱۳۶۴ھ؍۲۱؍نومبر ۱۹۴۴ء سے رجب ۱۳۷۳ھ؍ ۳۱؍مارچ ۱۹۵۶ء تک مدرس دوم کی حیثیت سے تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ پھر شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفیٰ علیہ الرحمہ کی تحریک پر ۵؍جولائی ۱۹۵۶ء؍۳۰؍ذی القعدہ ۱۳۷۳ھ سے دارالعلوم شاہ عالم احمدآباد شریف میں تدریس کی خدمت انجام دینے لگے۔ اور وہاں آپ علیہ الرحمہ پانچ سال تک طالبان علوم نبوی کو سیلاب کرتے رہے۔ ۱۴؍جون ۱۹۵۹ء؍ ۶؍ذی الحجہ ۱۳۷۸ھ کو کچھ وجوہات کی بنا پر آپ وہاں سے مستعفی ہوگئے۔اور ۱۵؍اگست ۱۹۵۹ء؍۹؍صفر المظفر ۱۳۷۹ھ سے دارالعلو مظہر اسلام بریلی میں آپ کی تدریسی تقرری ہوئی۔ دو تین سال بعد علامہ ثناء اللہ محدث مئوی قدس سرہ کے چلے جانےکے بعد آپ کو دارالعلوم مظہر الاسلام کا شیخ الحدیث اور صدر مدرس بنادیا گیا۔ اس منصب پر تقریباً ۱۴سال تک فائز رہے پھر ۱۹۴۷ء میں اپنے آبائی وطن امروہہ کا مرکزی ادارہ جامعہ محمدیہ حنفیہ شاہی چبوترہ میں صدر مدرس کی حیثیت سے تشریف لے آئے۔ یہاں بھی تقریباً پانچ سال تک رہے۔ اراکین مدرسہ میں اختلاف ہوجانے کی وجہ سے آپ جامعہ نعیمیہ مرادآباد تشریف لے گئے۔ وہاں ۱۹؍ستمبر ۱۹۷۹ء سے ۴؍فروری ۱۹۸۸ء تک درس وتدریس میں مشغول رہے۔ [ایضاً ص:10،9]
ارشد تلامذہ
علامہ مبین الدین امروہوی علیہ الرحمہ نے پوری زندگی درس وتدریس میں گزاری اس لیے تلامذہ کی فہرست کافی طویل ہے،اس لیے یہاں چند مشہور تلامذہ کے اسمائے گرامی ذکر کیے جاتے ہیں:
۱۔ یادگار اسلاف، شیخ الحدیث التفسیر حضرت علامہ مفتی مولانا محمد صالح رضوی (شیخ الحدیث جامعۃ الرضا، بریلی شریف)
۲۔ خطیب البراہین، صوفی ملت حضرت علامہ مولانا صوفی نظام الدین رضوی مصباحی علیہ الرحمہ
۳۔شیخ العلما حضرت علامہ مفتی چراغ عالم رضوی حامدی علیہ الرحمہ (سابق شیخ الحدیث اجمل العلوم سنبھل)
۴۔ مفتی عبدالجلیل رضوی علیہ الرحمہ مہتمم جامعہ نوریہ اسلامیہ مدھوبنی بہار
۵۔ مولانا زاہد علی رضوی سلامی سرائے ترین سنبھل مرادآباد
۶۔ مولانا امین الدین خاں مظفر العلوم گونڈہ
۷۔قاری محمد ظہور احمد تنویر الاسلام بستی
۸۔ مولانا عبدالرحمٰن مجددی انور العلوم تسلشی پور گونڈہ
۹۔ مفتی مطیع الرحمٰن رضوی پور نوی مدیر عام ادارۃ الحنفیہ گشن گنج بہار
۱۰۔ مولانا تفسیر القادری رضوی مدرس دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی ضلع بستی
۱۱۔ مولانا امام الدین مصطفوی اظہار العلوم فیض آباد
۱۲۔ مولانا قاری حبیب اشرف رضوی سنبھل
۱۳۔ حضرت مولانا نظام الدین رضوی
۱۴۔ مولانا صوفی خالد علی خاں رضوی مہتمم دارالعلوم مظہر العلوم بریلی
۱۵۔ مولانا محمد سیف الحق نعیمی مدرس حنفیہ قادریہ امروہہ مراد آباد
۱۶۔ مولانا بشیر احمد نعیمی دارالعلوم دیوان شاہ بھیونڈی مہار اشٹر
۱۷۔ مولانا نسیم احمد مدرس حنفیہ قادریہ امروہہ، ضلع مرادآباد
بیعت وخلافت :
علامہ الحاج مبین الدین امروہوی علیہ الرحمہ ۲۴؍صفر المظفر ۱۳۷۰ھ؍ ۵؍دسمبر ۱۹۵۰ء کو شہزادہ امام اہل سنت حضور مفتی اعظم ہند علامہ مولانا مفتی مصطفیٰ رضا خان نوری بریلوی قدس سرہٗ کے دستِ حق پرست پر داخلہ سلسلہ رضویہ ہوئے۔ پھر چند سال بعد حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ نے آپ علیہ الرحمہ کو ۸؍شعبان المعظم ۱۳۸۱ھ؍۱۵؍جنوری ۱۹۶۲ء میں اپنے سلسلہ کی اجازت وخلافت مرحمت فرمائی۔اور جس وقت آپ زیارت روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مدینہ شریف پہنچے تو خلیفہ اعلیٰ حضرت حضور قطب مدینہ حضرت علامہ مولانا الشاہ ضیاء الدین احمد سیالکوٹی ثم مہاجر مدنی قدس سرہٗ نے بھی اپنی خلافت واجازت کا طمغہ آپ کو عطا فرمایا۔ [ایضاً ص:10،9]]
خلفاء :
آپ علیہ الرحمہ ایک صوفی مزاج اور گوشہ نشیں عالم دین تھے۔ نام و نمود کا دور دور تک پتا نہ تھا۔ اسی لیے آپ زیادہ مرید نہیں کرتے اگر کوئی مرید ہونے آتا تو آپ اسے حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے پاس بھیج دیا کرتے اور خود کسی کو مرید نہ کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے خلفا کی کوئی طویل وعریض فہرست نہیں ہے۔ بس دو نام آپ کے خلفا میں آتے ہیں ایک آپ کے عظیم شاگرد حضور خطیب البراہین ،صوفی ملت حضرت علامہ مولانا صوفی نظام الدین رضوی مصباحی (صدر المدرسین تنویر الاسلام امڑوھا ضلع بستی)
اور دوسرے عمدۃ القرا حضرت علامہ قاری احمد جمال قادری (سابق استاد جامعہ نعیمیہ مرادآباد) کو سلسلۂ قادریہ رضویہ کی سند اجازت سے نوازا۔
حضور مفتی اعظم کی نواز شات :
حضور رئیس الاتقیا علامہ مبین الدین امروہوی علیہ الرحمۃ والرضوان حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ سے بے انتہائی محبت فرماتے تھے۔ اسی طرح سرکار مفتی اعظم ہند بھی آپ سے بے پناہ خوش تھے، اور ہمیشہ انتہائی قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ وہ کردار وگفتار میں انتہائی محتاط تھے۔ اس لیے کسی کے بارے میں رائے دیتے وقت بھی بہت احتیاط سے کام لیتے تھے۔ کسی بہت ہی متقی اور صالح آدمی کا ذکر ہوتا تو فرماتے کہ ولی صفت ہیں۔ مگر مولانا مبین الدین کے بارے میں فرمایا تھا کہ:
اگر کسی کو زندہ ولی دیکھنا ہو تو وہ حاجی مبین الدین کو دیکھ لے۔ [بروایت مولانا انور علی رضوی بہرائچی استاد:دارا العلوم منظر اسلام بریلی شریف]
ناز کرتے جن پہ ہیں مفتی اعظم ہند بھی
ہے یہ اعلیٰ شان حاجی مبین الدین کی
(نعؔیم قادری امروہوی)
تصنیف وتالیف :
یوں تو آپ علیہ الرحمہ کا بیشتر حصہ تدریس میں گزرا مگر اس کے باوجود آپ علیہ الرحمہ نے آخری دور میں تصنیفی کام بھی انجام دیا۔ اور اپنےپیچھے قوم و ملت کے لیے ایسے انمٹ نقوش ثبت فرمائے جو آج بھی ملت اسلامیہ کے لیے مشعلِ راہ ہیں، سب سے پہلے آپ علیہ الرحمہ نے ایک عیسائی پادری کے رد میں افضل المرسلین تصنیف فرمائی جو آپ کی تحقیق وتدقیق علم وفضل کا بہترین شاہ کار اور سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی انبیاء ومرسلین پر فضیلت کے اثبات میں یہ کتاب اعلیٰ درجہ کی تحقیق سے مزین ہے۔ آپ علیہ الرحمہ نے پادری کی جہالت و گمراہی کو اس کتاب میں بے نقاب کیا،اور قران پاک کی بے شمار آیات سے سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا افضل المرسلین ہونا ثابت فرمایا۔
دوسری کتاب شہید معظم جس میں انتہائی محققانہ عالمانہ انداز میں بہت ہی مختصر طور پر ایک دیوبندی یزیدی کی کتاب محرم کا جواب تحریر فرمایا ہے۔ اس کتاب میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ حضرت امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ حق پر تھے۔ یزید ا ور یزیدوں کو حق پر ماننا غلط وبے بنیاد، جہالت وبکواس ہے۔ ایسا لکھنے والا دیوبندی ہی نہیں یزیدی ہے۔
آخری ایام میں تفسیر بیضاوی کی شرح تصنیف فرمارہے تھے۔ یہ سلسلہ سورہ فاتحہ کی تفسیر کے اختتام تک ہی پہنچا تھا کہ دارِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ یہ کتاب بھی تحقیق سے لبریز ہے اور کثیر تفاسیر کا خلاصہ ونچوڑ ہے۔ علامہ مبین الدین علیہ الرحمہ پہلے ایک نشست میں تفسیر کا مطالعہ فرماتے، اور پھر دوسری نشست میں بغیر کسی کتاب کے سامنے رکھے تحقیق کے دریا بہاتے تھے۔ ایک خصوصیت اس کتاب کی یہ بھی ہے جو خود علامہ مبین الدین نے بیان فرمائی ہے۔
دیوبندیوں نے جو تفسیر بیضاوی کی شروح لکھیں ہیں ان میں جہول زمانہ نے جو غلطیاں کی ہیں اور جہالت کا مظاہرہ کیا ہے ان کی نشاندہی بھی میں نے کردی ہے۔
[ماہنامہ رضائے مصطفیٰ، بہیڑی ضلع بریلی ص ۵۹، ۶۰بابت ماہ جون ۱۹۸۸ء شوال ذالقعدہ ۱۴۰۸ھ] ۔
اسی طرح آپ نے حضور مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ کی سیرت پر ایک مقالہ بھی تحریر فرمایا ہے۔ جو مقالات نعیمی حصہ اول میں چھپ چکا ہے۔
اسی طرح اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی قدس سرہٗ کا نعتیہ کلام قصیدہ غوثیہ کی شرح لکھنے کا بھی ارادہ تھا۔ قصیدۂ غوثیہ کی شرح لکھنے کے لیے رمضان المبارک کا مہینہ منتخب فرمایا تھا۔ مگر وہ ارادہ پہلے ہی منقطع ہوگیا اور وہ یہ ارمان لے کر اس دارِ فانی سے رُخصت ہوگئے۔
علاوہ ازیں آپ علیہ الرحمہ نے ایک اور کارہائے نمایاں انجام دیا کہ امام احمد رضا قادری فاضل بریلوی قدس سرہٗ کے ترجمہ قران پاک مسمٰی کنز الایمان کی کتابت وطباعت کی سینکڑوں غلطیاں انتہائی عرق ریزی کے بعد واضح کیں، یہ اصلاح شدہ ترجمہ قرآن کمپنی بریلی سے شائع ہوچکا ہے جس کے پشت پر مولانا مبین الدین کا اسم گرامی تحریر ہے۔
معمولاتِ زندگی:
آپ علیہ الرحمہ ایک عاشق رسول اور عابد شب زندہ دار تھے۔شب وروز کے بیشتر اوقات آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں درودوسلام کےنذرانے بھیجنے میں بسر ہوتے تھے۔ دلائل الخیرات، حزب البحر اور سلسلۂ قادریہ رضویہ کے دیگر اور اورادکے بڑے پابند تھے۔ مستقل بیماری کے باوجود رمضان المبارک میں تقریباً چالیس تراویح میں قرانِ کریم سُنایا۔ تراویح کے علاوہ بھی رمضان المبارک میں پندرہ سولہ قرآن کریم ختم فرماتے۔
انتقال پُر ملال :
۲۵؍جمادی الآخر ۱۴۰۸ھ؍ ۴؍فروری ۱۹۸۸ء م بروز اتوار سہ پہر تین بج کر ۳۵ منت پر علامہ مبین الدین محدث امروہوی علیہ الرحمہ کا وقت موعود آپہنچا۔ اور آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔وصال کے ۲۶گھنٹے بعد بروز پیر بعد نماز عصر تدفین عمل میں آئی۔ اور نماز ِجنازہ علامہ تحسین رضا خاں قادری مدظلہ العالی بریلوی نے پڑھائی۔ اور دنیائے سنیت ایسے زندہ ولی سے محروم ہوگئی۔
ع۔۔ خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را