تاریخِ اندلس اور اس کا عروج وزوال
ازقلم: جمال احمد صدیقی اشرفی القادری
اندلس ! جہاں تقریباً 800 سال مسلمانوں نے حکومت کی ۔ اپنے دورِ عروج میں مسلم ایجادات کی آماجگاہ یہ سرزمین ہمارے اجداد کی میراث کا حصہ رہی ۔ جب جب غلامی نے اسے اپنے شکنجوں میں جکڑا تب تب آزادئ اندلس کا چراغ جلانے کےلئے عیسائی جرنیلوں کے آگے ایک آہنی چٹان ثابت ہونے والے یہ مٹھی بھر مسلمان ہی تھے جو زندگی کے مختلف شعبوں میں مایہ ناز خدمات بھی سرانجام دے چکے تھے ۔
تاریخِ اندلس اپنے عروج کے اعتبار سے ہمارے لیے قابلِ فخر جبکہ اسبابِ زوال کے اعتبار سے سبق آموز ہے ۔
اولاً ہسپانیہ کی تاریخ پر سرسری نظر ڈالیں تو مسلم حکمرانوں کی وہ فتوحات اپنے سلف کے کارناموں سے اس قدر متاثر کرتی ہیں کہ ان کی بلندیوں کو ناپنا مشکل لگتا ہے ۔
شاعر مشرق کے الفاظ میں
اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت ان کی
نقش ہے صفحۂ ہستی پہ صداقت ان کی
605 تا 615 عیسوی کے اس دور میں ایک طرف ہسپانیہ کے معاشی وسیاسی حالات انتہائی پستی کا شکار تھے اور دوسری طرف عیش وعشرت کے دلدادہ حکمرانوں نے غریب عوام کا جینا دشوار کررکھا تھا ۔ جن میں قابلِ ذکر حالات یہودیوں کے تھے ۔ یہی مظالم تھے جنھوں نے ہسپانیہ کی بڑی آبادی کو ہجرت کرنے پر مجبور کردیا تھا ۔ حالات کے مارے مہاجرین نے اس وقت موسیٰ بن نصیر کے زیرِ انتظام ( شمالی افریقہ ) کو اپنی واحد جائے پناہ سمجھا جس کی بنیادی وجہ وہاں کی اسلامی حکومت تھی جہاں حق وانصاف کا بول بالا تھا ۔ جب معاملے کی سنگینی اپنی حدود تجاوز کرنے لگی اور سمندر پار سے مہاجرین بڑی تعداد میں افریقہ آنے لگے تو موسیٰ بن نصیر نے مظلوم رعایا کو ظالم حکمرانوں سے آزاد کرانے کا منصوبہ بنایا اور مشہور جنرل طارق بن زیاد کو 711ء میں 8000 کی فوج کے ساتھ ہسپانیہ پر لشکر کشی کےلئے روانہ کیا ۔ مسلسل تین روز کی لڑائی کے باوجود فتح کے امکان نظر نہ آنے پر چوتھے دن اس مرد مجاہد طارق بن زیاد نے خطاب سے اپنے لشکر کا لہو گرمایا جس کے ابتدائی الفاظ آج بھی تاریخ میں محفوظ ہیں ۔
اے لوگو جائے فرار کہاں ہے ؟ تمہارے پیچھے سمندر ہے اور سامنے دشمن ۔ بخدا تمہارے لیے ثابت قدمی اور صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ تاریخ کہتی ہے کہ یہی وہ مرد مجاہد تھا جس نے اپنے اس خطاب سے قبل سمندر میں کھڑی اپنی ساری کشتیاں سپردِ آتش کردی تھیں ۔ تاکہ فتح کے علاوہ زندہ بچ نکلنے کے تمام راستے مسدود ہوجائیں ۔ اسی دلیری واستقامت کے نتیجہ میں 19 جولائی 811ء کی وہ صبح عوام کے لئے آزادی کا پیغام لائی ۔ اس فتح کے بعد دھیرے دھیرے مسلمانوں کی فتوحات میں اضافہ ہوتا گیا ۔ عوام کی پزیرائی اس قدر بڑھ گئی کہ بہت کم وقت میں مسلمان پورا ہسپانیہ فتح کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ طارق بن زیادکےبعد کافی عرصہ حکومت کرنے والی اموی خلافت کا بھی خاتمہ ہوا اوربنوعباس تخت نشین ہوئے ۔ انھوں نے غلبہ پاتے ہی اموی خاندان کے ہرفرد کو چن چن کر قتل کیا لیکن ان کی بغاوتوں کو کچلنے والا سرزمینِ اندلس کو دوبارہ منظم کرنے والا اموی خاندان کا ایک شہزادہ عبدالرحمن چھپتا چھپاتا قرطبہ پہنچا ۔ جہاں اموی دور کی شاہی افواج موجود تھیں ۔ کچھ ہی دنوں میں اس جوان نے وہاں اپنا ایسا اثر ورسوخ قائم کیا کہ وہاں اسے امیرمنتخب کردیا گیا اور اس طرح مملکتِ اسلامی کے اس دور افتادہ حصہ میں مسلمانوں کی ایک آزاد ریاست قائم ہوگئی ۔
امیر عبدالرحمن نے اپنے دورِ خلافت میں اس شہر کو جتنا خوب صورت بنایا ۔ وہ رقم کرنے سے یہ قلم قاصر اور الفاظ حق ادا کرنے سے محروم ہیں ۔ انگنت درسگاہیں ۔ ہزاروں کتب خانے ۔ سینکڑوں مساجد اس شہر کی خوبصورتی کا حصہ رہے ۔ ایک بڑی مسجد امیر عبدالرحمن نے 893ءمیں تعمیر کروائی اور یہ مسجدِ قرطبہ آج بھی دنیا میں اپنی نظیر نہیں رکھتی ۔
بقول علامہ اقبال ؎
ہسپانیہ تو خونِ مسلماں کا امیں ہے
مانندِ حرم پاک ہے تو میری نظر میں
یہ تھا اندلس کی تاریخ کا شاندار دور ۔ اس کے بعد ایسا عروج پھر کبھی اس سرزمین نی نہیں دیکھا ۔ اس کے بعد مسلمانوں کے آپسی اختلافات کے نتیجے میں خود مختار حکومتیں وجود میں آئیں جو ان کے زوال کا پہلا سبب بنا ۔ 1010ء تا 1031ء تک ان 21 سالوں میں 9 حکمراں تخت نشیں ہوئے لیکن افسوس کوئی بھی حالات کے دھارے کو قابو میں نہ کرسکا ۔ سلطنت بہت سے حصوں میں بٹ گئی اور ہر علاقے میں مقامی سرداروں نے حکومت شروع کردی ۔ تاریخ ان سرداروں کو طوائف الملوک کے نام سے یاد کرتی ہے ۔ وہ عظیم الشان سلطنت جس کی طاقت وشہرت سے مغرب کے تاجدار بھی مرعوب تھے ۔ طوائف الملوکی کے باعث پارہ پارہ ہوگئی ۔ افسوس کا مقام یہ کہ آپسی خلش اس قدر بڑھی کہ ایک مسلم حکومت دوسرے مسلم حکومت کے خلاف لڑنے کو پڑوس کی عیسائی حکومتوں سے مدد حاصل کرنے لگی ۔ یہی وجہ تھی جس نے آہستہ آہستہ عیسائیوں کے لئے مسلم سرحدوں میں گھسنے کے راستے ہموار کئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ان علاقوں پر عیسائیوں نے قبضہ کرلیا ۔ اب آلام ومصائب کے اس دور میں اہلِ اندلس کی نگاہیں کسی نجات دہندہ کی متلاشی ہیں ۔ ایسے میں یوسف بن تاشفین مسلمانانِ اندلس کی تاریک راتوں میں روشنی کی کرن بن کر ابھرا ۔ یوسف بن تاشفین اندلس کی تاریخ کا وہ باب ہے جو ایک قوم کے گمنام مجاہدوں کے خون پسینے سے لکھا گیا ہے ۔
لیکن حیف صد حیف کہ اندلس کی سرزمین کو دوبارہ فتح کرنے والے اس جانباز مجاہد کا نام آج تاریخ کے اوراق سے گم ہورہا ہے ۔
تاشفین کی موت کے بعد ایک بار پھر اندلس طوائف الملوکی کا شکار ہوا اور آخر کار 13 ویں صدی کے وسط تک اندلس کے بڑے حصے پر عیسائیوں کا قبضہ ہوگیا اور مسلمانوں کی سلطنت محض غرناطہ تک محدود رہ گئی ۔ پھر 1992 میں غرناطہ کی تباہی کے بعد وہ عظیم قوم بھی مٹ گئی جس کے غازیوں نے آٹھ صدیوں قبل جبلِ طارق کے سامنے کشتیاں جلا ڈالی تھی ۔ پھر ابو عبداللہ ( حاکمِ وقت ) کی غداری نے غرناطہ کے دروازے کھول کر عیسائی لشکر کو استقبال کیا ۔ بالآخر عیسائیوں نے اپنی چال کے مطابق اندلس میں مسلم حکمرانی کا مکمل خاتمہ کردیا ۔ اس طرح جہاں 800 سال مسلمانوں نے حکومت کی وہاں اس وقت ایک بھی مسلمان باقی نہ رہا تھا ۔
یہ تھا وہ زوال اور اس کے اسباب جس نے قوم کی تاریخ الٹ دی ۔
معاملہ چاہے بیت المقدس کا ہو یا سرزمینِ اندلس کا ۔ زمینیں ہڑپنے کی کیسی چالیں چلی جاتی رہیں ۔ اگر صرف 50 سال بیت المقدس میں رہ کر یہ یہودیوں کی آبائی سرزمین ہوسکتی ہے تو پہلے حق ہمارا ہونا چاہیے کیونکہ مسلمان 1200 سال بیت المقدس کی خدمت کرتے رہے ۔ یہ ہماری میراث ہے اور اپنے وارثوں کی منتظر ہے ۔ بات صرف زمینوں کی نہیں ان نا قابلِ برداشت مظالم کی بھی ہے جو ایک مدت سے فلسطینیوں پر ڈھائے جارہے ہیں ۔ یہ کیسا مذاق ہورہا ہے ان مظلوموں کےساتھ ؟
لیکن ۔ حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں ۔
یہ قوم جسے حق وباطل میں امتیاز کرنا تھا سیکولرزم کے نشےمیں اپنی تاریخ بھلا بیٹھی ہے ۔
اے قوم کے غیور نوجوانوں ! یہ سب ہمارے اسلاف کا اثاثہ ہے ۔ کم ازکم ہمیں اپنی تاریخ تو یاد ہونی چاہیے تاکہ کوئی ہم سے ہمارا حسب نسب پوچھنے سے پہلے ہزار بار سوچے کہ یہ وہی قوم ہے جس نے ماضی میں اپنے پاؤں تلے تاج سردارا کو کچل ڈالا تھا ۔
یہ اسی کارواں کے مسافر ہیں ستارے جس کی گرد راہ تھے ۔ یہ انھیں مسافروں کے عزائم رکھنے والے ہیں جن کی ٹھوکروں نے صحرا ودریا کے ٹکڑے کئے ۔ یہ وہی غازی وپراسرار بندے ہیں جن کی ہیبت سے پہاڑ سمٹ کر رائی ہوئے ۔ کفر اور عالمِ اسلام کی جنگ ازل سے آج تک جاری ہے فرق صرف یہ ہے کہ آج انداز جنگ بدل چکا ہے ۔
تم اگر آج سراٹھاکر جینا چاہتے ہو تو اپنے اسلاف کی جانب آؤ ۔ ان کے جیسا سوزِ جگر پیدا کرو ۔
وہ صدائیں آسمانوں میں گونج رہی ہیں کہ تمہاری غیرت کا تقاضا ہے ۔ اٹھو بیدار ہو ورنہ ۔
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں ۔
اللّٰہ رب العالمین ! اسلام کے نوجوانوں کو اسلاف کا سوزِ جگر اور ان کی تاریخ پڑھنے کی ہمت وتوفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔
تاریخِ اندلس اپنے عروج کے اعتبار سے ہمارے لئے قابلِ فخر جبکہ اسبابِ زوال کے اعتبار سے سبق آموز ہے ۔
اولاً ہسپانیہ کی تاریخ پر سرسری نگاہ ڈالیں تو مسلم حکمرانوں کی وہ فتوحات اپنے سلف کے کارناموں سے اس قدر متاثر کرتی ہے کہ ان کی بلندیوں کو ناپنا مشکل لگتا ہے ۔