ازقلم: تسنیم فردوس
جامعہ نگر نئ دہلی ۱۱۰۰۲۵
"اپنے حجاب پر ناز کرو لڑکیوں۔۔۔ کتابیں تو بہت ہیں مگر غلاف صرف قرآن پر ہوتا ہے۔ "
یوں تو عصرِ حاضر میں اسلام اور مسلمانوں پر مختلف النوع تابڑ توڑحملے ہو رہے ہیں۔ چنانچہ انہیں بنیاد پرست ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے، کبھی دہشت گردی کی تہمت سے نوازا جاتا ہے، کبھی اسلامی تعلیم گاہوں کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے اور نہ جانے کتنے اعتراضات ہیں جو مسلمانوں پر بلکہ اسلام پر کۓ جاتے ہیں۔
اسلام کے معاشرتی قوانین پر جو اعتراضات کۓ جاتے ہیں۔ ان میں ایک مشہور اعتراض "حجاب” سے متعلق ہے۔
حال ہی میں کرناٹک کے اڈوپی میں فرقہ پرست سنگھیوں کی سازشوں کا شکار طلبہ ہو رہی ہیں۔ جہاں آٹھ طالبِ العلم کو حجاب پہننے پر کالج میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ گیارہویں بارہویں کلاس میں کامرس اور سائنس میں پڑھ رہی آٹھ مسلم طلبہ کا جرم بس اتنا تھا کہ انھوں نے اپنے سر سے حجاب ہٹانے سے انکار کر دیا تھا۔ جسکی وجہ سے ان مسلم طلبہ کو ۳۱دسمبر ۲۰۲۱سے کالج کی طرف سے غیر حاضر نشان زد کیا گیا ہے۔
بیشک یہ فتنوں بھرا دور ہے۔ جہاں ایک با پردہ حجاب ، نقاب پہنی لڑکی کو جاہل گنوار ہونے کے طعنے کسے جاتے ہیں اور ہر فیلڈ میں ان کی تمام تر قابلیت، صلاحیت کو نظر انداز کرتے ہوئے اسکے آگے ایک جینس پہنی بے پردہ لڑکیوں کو بولڈ، موڈرن سمجھ کر ہر میدان میں زیادہ فوقیت دی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ مسلم ممالک میں بھی بے حیائی اور فحش کو عوام سے لیکر حکومتوں کی جانب سے بڑھاوا مل رہا ہے۔
ان جیسے واقعات کی بات کی جاۓ تو یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔۔۔ بلکہ آجکل یہ عام ہو چکا ہے۔
فروری ۲۰۰۹ کو فرانس کی ایک بڑی یونیورسٹی کی پچیس سالہ طالبہ کو اسکے پیش کردہ تحقیقی مقالے کے انعام کے طور پر دۓ جانے والے اسکالرشپ کو محض اس وجہ سے روک لیا گیا کہ وہ طالبہ برقع میں تھی۔ اسی طرح ۲۰۱۰میں فرانس کے صدر کے زہر ناک بیانات کا تسلسل رہا بلکہ حجاب پر پابندی کو سرکاری قانون بنانے کی بھی کوشش کی گئی۔ بعض اسلامی ملکوں سے بھی مسئلہ حجاب کے حوالے سے غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنایا گیا ہے۔۔۔۔۔ آخر اسلامی پردے کے تئیں اس تنگ نظری کی وجہ کیا ہے؟؟؟؟
ہندوستان جیسے ہندو اکثریت والے ملک میں تمام تر اذیتیں، تکالیف برداشت کرنے کے باوجود جن مسلم بچچیوں کے اندر ایمانی جذبہ آج بھی موجود ہے بالخصوص ان مسلم بچچیوں کا کردار جو اپنے پردے ، اپنے حجاب کو لیکر کسی بھی قسم کے کامپرامائز کو تیار نہیں ہیں۔ اور ان شرارت پسندوں کو منہ توڑ جواب بھی دے رہی ہیں۔
حجاب پر چھینٹا کشی کرنے کی آخر وجہ کیا ہے۔۔؟ حالانکہ دیگر مذاہب کی ماننے والی خواتین اپنا لباس پہنتی ہیں، جہاں ہندو ماتھے پر تلک، بندی لگا سکتے ہیں اور سکھوں کو پگڑی باندھنے کی مکمل اجازت ہے۔ وہ اپنا مذہبی لباس پہن کر کسی بھی پبلک مقام یا تعلیمی گاہ میں آرام سے جا سکتی ہیں ۔ وہیں مسلمانوں سے انکے آئینی حقوق چھیننے کی بار بار کوشش کی جاتی ہے۔ جسکے چلتے ملک بھر میں داڑھی، ٹوپی اور حجاب کو لیکر شرارت پسندوں کی جانب سے روز کچھ نہ کچھ ہنگامہ مچایا جاتا ہے۔ اسکول، کالجس، دفاتر، دکانوں، اسپتالوں میں بھی مسلم خواتین کو ذلیل کیا جاتا ہے۔۔ بہت افسوس ہوتا ہے کہ ایسی نازیبا حرکت کرنے والوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی ہے۔
اڈوپی کی ان بچچیوں کو آج ہم سب کے ساتھ کی اور حوصلے کی ضرورت ہے۔ نفرت بھرے اس دور میں یہ لڑکیاں ہمارے لئے مثلِ راہ ہیں۔ جو شرارت پسندوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کا منہ توڑ جواب دے رہی ہیں۔ یہ وہ بچچیان ہیں جو تعلیم کی اہمیت بھی سمجھتی ہیں اور اور ساتھ ہی ساتھ اسلام کے دائرہ میں رہ کر دنیا کا ہر علم حاصل کرنا چاہتی ہیں۔۔ ہمیں ان بچچیوں کی ہمت کی داد دینی چاہۓ کہ جو اسکول انتظامیہ کے فرمان پر گھٹنے ٹیک کر اپنا حجاب نکال سکتی تھیں۔ لیکن ان بچچیوں نے مجاہدانہ کردار ادا کرتے ہوئے دین اور دنیا دونوں کو تھامے رکھا۔ اور بار بار ڈرانے، دھمکانے، پریشان کۓ جانے کے باوجود اپنے بلند حوصلوں کے ساتھ ڈٹی رہیں۔۔۔۔۔۔۔اور کامیاب بھی ہوئی ہیں۔۔۔ کورٹ کی طرف سے ان کو کلاس لینے کی اجازت مل گئی ہے۔۔۔۔۔ بیشک یہ بچچیون کا حوصلہ مثالی ہے۔۔۔۔۔ مبارک باد کے ساتھ میں ان بچچیوں، بہنوں، بیٹیوں کو سلام کرتی ہوں۔ انکی غیرت انکی پارسائی اور انکے ایمانی جدبہ کو سلام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الله ہر مسلمان بچے بچچیوں کی ایمان کی حفاظت فرماۓ۔۔۔ آمین یہ چند اشعار اپنی بہادر بہنوں کے پہشِ خدمت ہے۔
اصرار ہے اگر انھیں ہماری بے حجابی پر
تو ہم نے بھی پردہ سے وفا کی ٹھانی ہے
ہے اگر منظور قیامت ہی ہمارے حق میں
تو آۓ مگر جان لے کہ خدا بھی ہمارا ثانی ہے
تم نہ جھکنا، تم نہ رکنا ، تم نہ تھمنا، تم نہ دبنا
تمھیں سے تو روشن اب ہماری عزت کی پیشانی ہے
"صنفِ نازک ” کس نے رکھا ہے بھلا ان کا نام
انکی پروازِ رعب سے تو "قیادت” بھی پانی پانی ہے۔
(پرواز لکھنوی )