تحریر: رجب علی علوی فیضی
دور رواں میں تعلیمی انحطاط کے اسباب پہ اگر غائرانہ نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت ہر صاحب فہم و فراست پر منکشف ہوجائے گی کہ اس کے بہت سارے اسباب میں سے ایک سبب بے مقصد ہوتے جلسے‘غیر ذمیدار‘پیشہ ور مقررین‘نعت خواں حضرات کا طرز عمل اور طرز فکر ہے کہ جو علم انسان کے سینے کا روح تھی نور تھا اور اس نور کے حصول کی ایک انسان کے سینے میں جو تڑپ‘لگن اور دھن ہونا چاہئے تھا دور رواں میں ان حضرات نے اپنے طرز عمل اور طرز فکر سے اس تڑپ کو چھین لیا اور وہ بچے جن سے قوم کا مستقبل وابستہ تھا ان کو ان حضرات نے بے حس بنادیا دور رواں میں غیر ذمیدار مقررین‘نعت خواںنوں نے تقریر اور نعت خوانی کو پیشہ بنا لیا جس کا قوم کے بچوں کے دل و دماغ پر اتنے گہرے نقوش ثبت ہوگئے ہیں کہ آج جب کوئی بچہ علم دین کے حصول کے لئے کسی دینی مدرسے میں داخلہ لیتا ہے تو اس کو کتابوں سے دلچسپی نہیں رہ جاتی وہ اپنے مقصد کو بھول جاتاہے وہ اپنے تعلقات کتابوں سے استوار کرنے کے بجائے وہ ان پیشہ وران کے طرز فکر سے متاثر ہوکر اپنے تعلقات تقریر اور نعت خوانی کے ماحول سے استوار کرتا ہے اس کو بس اسی چیز کی دھن چڑھی ہوتی ہے میری اس تحریر سے کوئی ہرگز یہ مت سمجھے کہ مجھے تقریر یا نعت خوانی سے کوئی خلش ہے معاذ اللہ میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا لیکن میں اپنی اس تحریر کے توسط سے صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جو وقت ایک طالب علم کے لیے کتابوں سے اپنے تعلقات استوار کرنے کا تھا ایسے وقت میں کتابوں سے اپنے تعلقات کو قطع کر لیا کیونکہ آج ان پیشہ وران نے اپنی تقریر اور نعت خوانی کے توسط سے قوم کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ عالم ہونے کا معیار تقریر اور نعت خوانی ہے یہی وجہ ہے کہ آج جب کوئی بچہ کسی مدرسے میں داخلہ لیتا ہے تو وہ بھی یہی سمجھ کر نوسال دس سال اسی ماحول میں گزاردیتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اتنے سال گزارنے کے بعد بھی وہ کورے کاغذ کی طرح رہ جاتا ہے اور جو علم سینے کا نور تھا وہ حاصل نہیں ہوپاتا یہی وجہ ہے کہ آج سینکڑوں مدارس ہونے کے باوجود کوئی امام غزالی جیسا نظر نہیں آتا کوئی امام جلال الدین سیوطی جیسا نظر نہیں آتا کوئی رازی جیسا نظر نہیں آتا کوئی امام احمد رضا بریلوی جیسا نظر نہیں آتا۔
اللہ ربّ العزت کی بارگاہ عالیہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح سمجھ عطا فرمائے۔ آمین