سیاست و حالات حاضرہ

کسانوں کا بڑھتا ہوا آندولن اور ہماری ذمہ داریاں

از قلم: محمد احمد حسن سعدی امجدی
ترجمان۔ تنظیم جماعت رضاۓ مصطفی گورکھپور
ورکن۔ شعبہ نشر واشاعت تحریک فروغ اسلام دہلی

مرکزی حکومت کے لائے گئے نئے ذرعی قانون کے خلاف کسان آندولن رفتہ رفتہ ایک سیلاب کی شکل اختیار کر چکا ہے، دسمبر کے کڑک جاڑے میں جب ایک عام شخص گھر سے باہر نکلنے پر بھی سو بار سوچتا ہے، ایسے میں تقریبا ایک مہینے سے دہلی کی سڑکوں پر ہمالیہ پہاڑ کی مانند ڈٹے کسان عزیمت و بہادری کی ایک داستان رقم کر رہے ہیں ، ایسے حالت میں بھی ان کی یہ استقامت اور پائداری باہمی اتفاق و اتحاد کی مثال قائم کر رہی ہے ، انہیں کیا غرض؟ وہ بھی چاہتے تو سخت سردی میں ہماری طرح رضائی اور کمبل میں مزے لوٹ رہے ہوتے لیکن نہیں، انہیں پتہ ہے کہ اس بل کے خلاف اگر ہم نے آج آواز نہیں اٹھائی اور اپنے گھروں میں سوئے رہے تو آگے ہمیں بے شمار دشواریاں برداشت کرنی پڑے گی، ہمارے بچوں کا مستقبل برباد ہو جائے گا،اسی نظریے کے تحت دہلی میں ایک مہینے سے لاکھوں جوان، بچے، بوڑھے یہاں تک کہ عورتیں بھی اپنے چین و سکون بھوک پیاس کی فکر کیے بغیر اپنی آزادی اور بہتر زندگی کے لیے سراپا احتجاج ہیں ، حالانکہ تیز ٹھنڈ کی وجہ سے اب تک نہ جانے کتنے کسان اپنی عزیز جانوں سے دست بردار ہو گۓ ، لیکن دن بدن ان کے جوش و جذبہ میں مزید دوبالگی پیدا ہوتی جا رہی ہے، وہ پر امن طریقے سے اپنے آندولن کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور حکومت سے اس قانون کو واپس لینے کی مانگ کر رہے ہیں۔

لیکن ہندوستان کی نام و نہاد جمہوری حکومت اپنے اقتدار کے نشے میں اس قدر مدہوش ہے کہ انہیں سخت جاڑے میں سڑکوں پر کھڑے کسان نظر نہیں آتے؟ یہ پریشان حال عوام حکومت کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتے؟ انھیں کسانوں کے درد کا احساس نہیں ہوتا ؟
حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ 60 فیصد ملک کی معیشت کا دارومدار کسانوں کے کاندھوں پر ہوتا ہے ، کسی ایک سیزن میں کسان اگر فصل بونے سے رک جائیں ، تو کوئی بعید نہیں کہ وطن عزیز نیپال اور بھوٹان کی صفوں میں کھڑا ہوتا نظر آئے گا،

کہتے ہیں کہ جب مخاطب ہٹ دھرمی سے کام لیں تو ہمیں بھی اس کی زبان اختیار کرلینا چاہیے اور اسی کی زبان میں اسے جواب دینا چاہیے۔

پچھلے مہینے سے مسلسل اپنے چین و سکون کی قربانیاں پیش کر رہے تمام کسان قابل صد تحسین ہیں ۔ اس ملک کا شہری ہونے کے ناطے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم بھی اس احتجاج کا حصہ بنیں۔ کیونکہ یہ مسئلہ صرف کسانوں کا نہیں بلکہ اس میں ہماری نسلوں کے تحفظ و بقا کا راز بھی پنہاں ہے۔
بڑی مشہور مثل ہے، کہ اۓ عقلمند پانی کے چشمے کے سرے کو شروع ہی میں بند کردے کیونکہ جب یہ پر ہوجاۓ گا تو ایک ہاتھی سے بھی نہیں رکے گا۔

لہذا ہماری بھی ذمہ داری بنتی کہ ہم بھی حکومت کے اس جیسے تمام فضول اور لایعنی قوانین کے خلاف کھڑے ہوں، اس کی مذمت کریں، اگر دہلی جانے کی سکت ہو تو فورا دہلی کوچ کریں، ورنہ ہر شہر اور ہر قصبے سے اپنی رجسٹرڈ تنظیموں کے تحت پرامن احتجاج کریں، ریلیاں نکالیں اور سب کا دستخط شدہ ایک میمورنڈم تیار کرکے اپنے ضلعی کلکٹر آفیس تک پہنچائیں تاکہ ہمارے یہ احتجاجات حکومت کی نظروں میں آئیں اور حکومت کو اس کا اندازہ ہو کہ صرف پنجاب اور ہریانہ ہی نہیں بلکہ زرعی قانون کی مخالفت پورے ملک بھر میں ہو رہی ہے۔

محمد احمد حسن سعدی امجدی ۔
ریسرچ اسکالر۔ جامعة لبرکات علی گڑھ.
مسكن ۔لکھن پوروا ،رودھولی بازار ، ضلع بستی ، یوپی، الہند۔
8840061391

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے