امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
یَاْ یَعْقُوْبُ! وَقِّرِالسلطانَ وَعَظِّمْ مَنْزِلَتَہٗ وَاِیَّاکَ وَالکِذْبَ بین یدیہ والدخولَ علیہ فی کلِ وقتٍ مالم یَدْعُکَ لِحاجۃٍ عِلمیۃٍ۔
(ترجمہ) ’’یعقوب! بادشاہ کی قدر ومنزلت کیا کرنا، اس کے سامنے جھوٹ بولنے سے پرہیز کرنا اور علمی ضرورت کے بغیر ہر وقت اور ہر حال میں اس کے پاس مت جایا کرنا۔‘‘
آگے اس وصیت کی غرض بیان کرتے ہیں کہ :
’’کیوں کہ اگر تم اس کے پاس بار بار جایا کروگے تو تمہاری قدر اس کی نگاہ میں کم ہوجائے گی، بادشاہ سے اسی طرح رہو جیسا کہ آگ سے واسطہ رہتا ہے کہ تم اس سے فائدہ اٹھا لیتے ہو اور اس سے دور بھی رہتے ہو اور اگر قریب ہوگئے تو تم جل جاؤگے اور تمہیں تکلیف پہنچے گی۔ اس لیے بھی کہ بادشاہ جو کچھ اپنے لیے دیکھتاہے اس میں وہ کسی اور کو شریک نہیں کرناچاہتا۔‘‘
وَایاکَ وکثرۃَ الکلامِ بین یدیہ۔
(ترجمہ) اس کے سامنے بہت زیادہ بات کرنے سے پرہیز کرنا۔
اس حکم کی غایت یوں بیان کرتے ہیں:
’’کیوں کہ وہ تمہاری باتوں میں سے کچھ ایسی بات نکال لے گا جس کی وجہ سے تمہاری عزت اس کی قوم کی نگاہ میں کم ہوجائے گی۔ جب تم اس کے پاس جاؤ تو اپنی اور دوسروں کی قدر کو سمجھا کرو۔‘‘
وَلا تَدْخُلْ علیہِ وعندہ من اہلِ العلمِ مَن لا تعرفہٗ۔
(ترجمہ) اس کے پاس ایسے وقت مت جاؤ جب کوئی ایسے اہلِ علم بیٹھے ہوں جن کو تم نہیں جانتے۔
’’کیوں کہ اگر تم ان سے کم مرتبہ میں ہوں گے تو اس پر بڑا بننے کا خیال پیدا ہوگا، جس سے تمہیں نقصان پہنچے گا اور اگر ان سے زیادہ علم تمہارے پاس ہوگا تو ممکن ہے تمہارے وقار کو ٹھیس لگ جائے، جس سے تم بادشاہ کی نگاہ میں گر جاؤ۔
وَاِذَاْ عَرَضَ علیکَ شیئاً مِنْ اَعْمالِہ فلا تَقْبَلْ منہ الا بعد ان تَعْلَمَ انہ یرضاکَ ویرضیٰ مذہبَکَ فی العلمِ والقضایا۔
(ترجمہ) "اگر وہ اپنے کاموں میں سے تمہیں کچھ دے تو اس وقت تک قبول نہ کرو جب تک تمہیں یہ معلوم نہ ہوجائے کہ وہ تم سے راضی ہے اور علم وقضا میں تمہارے مذہب سے راضی ہے۔‘‘
’’تاکہ حکومت میں تم کسی اور کے مذہب کی اتباع کے مرتکب نہ ٹھہرو۔ بادشاہ کے دوست اور اس کے حاشیہ نشینوں کے پاس بار بار نہ جاؤ بلکہ صرف ان سے قرب کی حد تک معاملہ رکھو اوراس کے حاشیہ نشینوں سے دوری اختیار کیے رہو تاکہ تمہاری عزت ووجاہت برقرار رہے۔‘‘
امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کتنے سلجھے ہوئے انداز میں کسی بادشاہ یا حاکم کے ساتھ محتاط معاملات کی وضاحت کردی کہ حکم کا بین السطور بھی سامنے آگیا اور وصی کے ذہن وفکر کے چودہ طبق بھی روشن ہوگئے۔
[ماخوذ: امام اعظم ابو حنیفہ کے وصایا: ایک تجزیاتی مطالعہ؛توفیق احسنؔ برکاتی، مطبوعہ نوری مشن مالیگاؤں ۲۰۱۴ء]