ازقلم: محمد توقیر رضا رضوی نعیمی
سبرامپوراتردیناجپور
قمری مہینوں میں سے آٹھویں مہینہ کو عربی میں شعبان کہتے ہیں یہ لفظ شعب سے بنا ہے جس کا معنیٰ جدا ہونا شاخ در شاخ ہونا متفرق ہونا فاصلہ اور دوری کے ہیں چونکہ اہل عرب ماہ شعبان میں پانی کی تلاش میں اپنے گھروں اور کھیتوں سے نکل پڑتے اور دور دور نکل جاتے تھے اور اکثر لوگ اپنے قبیلوں سے جدا ہوجاتے تھے اس لئے اس کا نام شعبان پڑ گیا
بعض علمائے کرام نے فرمایا کہ اس کو شعبان اس لیے کہتے ہیں اس میں روزہ داروں کے لیے نیکیاں شاخ در شاخ ہوتی ہے نیز شعبان المعظم میں اللہ تبارک و تعالی اپنے بندوں کے لئے کثرت سے خیر و برکت نازل فرماتا ہے اور سال بھر ہونے والے امور اور بندوں کو ملنے والا رزق اسی مہینے میں منشعب یعنی تقسیم ہوتا ہے اس لیے اس مہینے کو شعبان کہا جاتا ہے سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے شب معراج اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں مناجات کی تھی اے اللہ تو نے حضرت موسی علیہ السلام کو عطا کیا تھا مجھ کو تو نے اپنی بارگاہ سے کیا چیز عنایت کی حکم باری تعالیٰ ہوا آپ کو شعبان المعظم کا مہینہ دیا یہ شعبان المعظم آپ کی امت کے گناہوں اور شیطانی فریب کاریوں کو دور کرے گا اور سارے گناہوں کو مٹا دے گا
اللہ کے نبی سرورکائنات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم شعبان المعظم کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں میرے مہینہ شعبان کو تمام مہینوں پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسی مجھے فضیلت حاصل ہے تمام نبیوں پر
لہذا حضرات سے گزارش ہے اس مبارک مہینے میں کلام پاک کی تلاوت کریں اورنوافل کی کثرت کریں۔