تعلیم

علم دین کی فضیلت و اہمیت

از: عبدالسبحان مصباحی
استاد :جامعہ صمدیہ، دار الخیر ،پھپھوند شریف

رابطہ نمبر :9808170357

نبی مکرم، رسول معظم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر سب سے پہلے وحی کے طور پر نازل ہونے والا لفظ "إقرأ” ہے یعنی اے محبوب! پڑھیے۔ قرآن پاک کی پہلی وحی سے قلم کی اہمیت و افادیت اور علم کی عظمت و برتری روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید نے سب سے پہلے جس کی توجہ دلائی ہے وہ تعلیم ہے، یعنی پڑھنا لکھنا اور تعلیم وتربیت کے انمول جواہر سے مزین و آراستہ ہونا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم، نبی مُحْتَشم، صلى الله عليه وآله وصحبه وسلم نے تعلیم کو ہم پر فرض قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :
طلبُ العلمِ فريضةٌ على كلِّ مسلمٍ.
{مشكوة المصابيح،کتاب العلم}
علم دین حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔

علم کی فضیلت وعظمت اور اس کے حصول کی ترغیب و تاکید مذہب اسلام میں جس بلیغ و دل آویز انداز میں پائی جاتی ہے اس کی مثال کہیں نہیں ملتی، تعلیم وتربیت، پڑھنا پڑھانا تو انبیاے کرام اور صحابہ عظام کی مبارک سنت بھی ہے، تعلیم گویا اس دین برحق کا اٹوٹ حصہ ہے،دینی تعلیم کے ذریعے ہی اللہ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغامات کو پوری دنیا میں عام کیا جا سکتا ہے، پیغمبرِ انقلاب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

الكلمةُ الحِكْمَةُ ضالَّةُ المؤمنِ، فحيثُ وجَدَها فهو أَحَقُّ بها. {سنن الترمذي،حدیث نمبر :2687}
حکمت و دانائی کی بات مؤمن کی گمشدہ پونجی ہے جہاں اسے پائے وہی اُس کا زیادہ حقدار ہے ۔

علم ایک ایسا خزانہ ہے جو بانٹنے سے کم نہیں ہوتا بلکہ بڑھتا ہی ہے، اس کا اجر وثواب انسان کو ملتا رہتا ہے، علم بیمار دلوں کی دوا ہے، بےچین دلوں کا چین ہے، علم سے نسلیں سنورتی ہیں، اس سے خوش گوار معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے۔
وقت کا بہت بڑا المیہ ہے کہ ہمارے دلوں سے علم دین کی قدر و منزلت ختم ہوتی جارہی ہے، ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو نہ تو خود علم دین سیکھتے ہیں اور نہ ہی اپنی اولاد، اپنے بھائیوں اور دوسرے رشتے داروں کو اس کی طرف راغب کرتے ہیں ، اپنی أولاد اور بھائیوں کے روشن و تابناک مستقبل کے لیے دنیوی علوم و فنون تو سکھا رہے ہیں مگر دینی تعلیم دلا کر اپنی اور اپنے بچوں اور بھائیوں کی آخرت بہتر بنانے کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے، بچہ اگر ذہین و فطین ہو تو اسے ڈاکٹر، انجینئر، کمپیوٹر ایکسپرٹ بنانے کے لئے موٹی سے موٹی رقم بھی خرچ کردیتے ہیں،اور ماتھے پر بَل نہیں آتا، اگر بچہ کند ذہن، معذور اور شرارتی ہو تو جان چھڑانے کے لئے کسی مدرسے میں داخل کرا دیتے ہیں۔

موجودہ دور میں علم دین کی اہمیت و ضرورت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس بات کا اندازہ موجودہ صورت حال سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے،دین سے اس قدر دوری پائی جا رہی ہے کہ دین کے ضروری مسائل اور نماز روزہ کا طریقہ تک نوجوانوں کو معلوم نہیں۔
جان لیں کہ علم دین خوشنودیِ رحمٰن کا سبب ہے،انبیائے کرام کی میراث ہے، قربت الٰہی کا راستہ ہے، گناہوں سے بچنے کا ذریعہ اور خوف خدا کو بیدار کرنے کا عظیم الشان نسخۂ کیمیا ہے، اس لیے ہمیں چاہیے کہ علم دین سے اپنا اور اپنی نسلوں کا رشتہ مضبوط رکھیں، اس لئے کہ علم نور ہے، علم روشنی ہے، علم اجالا ہے، علم زندگی ہے جبکہ جہالت موت ہے ، علم سراپا خیر و برکت ہے، علم رشد و ہدایت کا سر چشمہ ہے، علم فلاح و کامرانی کا مضبوط قلعہ ہے، علم صدقہ جاریہ ہے، علم وہ خط امتیاز ہے جس سے انسانی زندگی کامیاب و کامران اور خوشگوار ہوتی ہے، علم ہی سے دنیا و آخرت دونوں سدھرتی اور سنورتی ہیں، علم ذریعۂ نجات اور جنت میں داخلے کا ضامن ہے، دنیا و آخرت کی بھلائی علم کے ساتھ ہے، علم باعث عز وشرف ہے، علم لازوال اور بیش بہا نعمت ہے، علم انسان کو مہذب و باأخلاق اور صاحب کردار بناتا ہے، یہاں علم سے مراد علم دین ہے، علم دین کی قدر و منزلت اور اہمیت و افادیت میں بےشمار آیات و أحاديث وارد ہیں، سر دست ہم بعض احادیث بیان کرتے ہیں.

علما پر رحمتوں کا نزول:
{1}: جس شخص نے صبح علم دین سیکھنے کی حالت میں کی اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کر دے گا، اور فرشتے اس کے لئے اپنے پروں کو بچھا دیتے ہیں، سمندر کی مچھلیاں اور آسمان کے فرشتے اس کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں، عالم کی فضیلت و برتری جاہل پر ایسی ہی ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر، علما انبیائے کرام کے جانشین اور وارث ہیں، انبیائے کرام نے درہم ودینار کا وارث نہیں بنایا انہوں نے علم کا وارث و جانشین بنایا ہے، جس نے علم حاصل کیا اس نے بڑا حصہ لیا۔

مزید فرمایا :
"موتُ العالمِ مصيبةٌ لا تجبرُ، وثُلمةٌ لا تُسدُّ، ونَجمٌ طُمِسَ، موتُ قبيلةٍ أيسرُ من موتِ عالمٍ”.
عالم دین کی موت ناقابل تلافی نقصان ہے، عالم کی موت ایسا رخنہ و شگاف ہے جسے بھرا نہیں جا سکتا، عالم کی موت اس ستارے کی مانند ہے جو بے نور ہو گیا، پورے قبیلے کی موت ایک عالم کی موت سے زیادہ آسان ہے ۔
{جامع بیان العلم وفضلہ، حدیث نمبر 179،ص:171،دار ابن الجوزیہ، طبعۂ اولیٰ 1414ھ/1994ء}

علم دین کے راستے میں مرنے کی فضیلت :

{2} : جس شخص کو اس حال میں موت آئی کہ وہ اس نیت سے علم حاصل کر رہا تھا کہ اس سے دین اسلام کو زندہ کرے گا اس کے اور انبیائے کرام کے درمیان جنت میں ایک درجے کا فرق ہوگا ۔
{أیضاً، حدیث نمبر: 219،ص:207}
{3} : ایک گھڑی رات میں پڑھنا، پڑھانا ساری رات عبادت سے افضل ہے۔
{دارمی شریف، مقدمہ}
{4} : جو شخص طلب علم کے لیے گھر سے نکلا تو جب تک واپس نہ ہو اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہے۔
{سنن الترمذي، کتابُ الْعِلْمِ، بَابُ فَضْلِ طَلَبِ الْعِلْمِ، حدیث نمبر :2647}
علما زمانے پر حکمرانی کرتے :
{5} : لَوْ أَنَّ أَهْلَ الْعِلْمِ صَانُوا الْعِلْمَ، وَوَضَعُوهُ عِنْدَ أَهْلِهِ لَسَادُوا بِهِ أَهْلَ زَمَانِهِمْ،وَلَكِنَّهُمْ بَذَلُوهُ لِأَهْلِ الدُّنْيَا لِيَنَالُوا بِهِ مِنْ دُنْيَاهُمْ فَهَانُوا عَلَيْهِمْ.
{سنن ابن ماجه: الْمُقَدِّمَةُ، بَابُ الِانْتِفَاعِ بِالْعِلْمِ وَالْعَمَلِ بِهِ،حدیث نمبر :257}
اگر اہل علم، علم کی حفاظت و صیانت کرتے اور اسے اس کے اہل کے پاس رکھتے تو اس کے ذریعے وہ اپنے زمانے کے لوگوں پر سرداری کرتے، لیکن انہوں نے علم کو اہل دنیا کے لئے خرچ کیا تاکہ ان کی دنیا حاصل کریں تو وہ ان کے پاس حقیر ہوگئے. {یعنی انہوں نے علم، دنیا حاصل کرنے کے لیے دنیا داروں کے لئے خرچ کیا تو وہ ان کے نزدیک ذلیل و حقیر ہوگئے.}

علم سب سے بہترین عبادت ہے:
{6} : أفضل العبادةِ طلب العلم.
{فردوس اللأخبار للديلمي، حدیث نمبر : 1429،ص:207}
افضل ترین عبادت علم حاصل کرنا ہے۔

70صدیقین کا ثواب :
{7} : جو شخص علم کا ایک باب دوسروں کو سکھانے کے لئے سیکھے اسے ستر {70} صدیقوں کا اجر دیا جائے گا.
{الترغیب والترهیب،کتاب العلم،الترغيب في العلم…الخ، حدیث نمبر :119،ج 1،ص:68 }

علما شفاعت کریں گے :
{8} : اللہ تعالیٰ بروز قیامت عابدوں اور مجاہدوں کو جنت میں جانے کا حکم دے گا تو علما عرض کریں گے : الٰہی! انہوں نے ہمارے بتلانے سے عبادت کی اور جہاد کیا۔ حکم ہوگا تم میرے نزدیک بعض فرشتوں کی طرح ہو، شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ علما پہلے شفاعت کریں گے پھر جنت میں جائیں گے.
{إحياء علوم الدین،ج، 1،ص:26}

شہدا کا خون اور علما کی سیاہی :
{9} : قیامت کے دن علما کی دواتوں کی سیاہی {یعنی روشنائی} اور شہیدوں کا خون تولا جائے گا تو علما کی دواتوں کی سیاہی شہیدوں کے خون پر غالب آئے گی.
{الجامع الصغير،2/403، لسان المیزان، 7/245}

علم ذریعۂ نجات ہے:
{10}: حدیث میں وارد ہے کہ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ بندوں کا فیصلہ فرمائے گا تو علما سے فرمائے گا :
"إنِّي لم أجعلْ علمي وحلمي فيكُم إلّا وأَنا أريدُ أن أغفرَ لَكُم على ما كانَ فيكُم ولا أُبالي” •
{الترغيب والترهيب ج،1،ص:81، الطبراني،ج،2،ص:84،حدیث نمبر :1381}
میں
میں نے اپنا علم و حلم تم کو صرف اسی ارادے سے دیا تھا کہ تمہیں بخش دوں اور مجھے کوئی پرواہ نہیں ۔

{11}: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بندوں کو اٹھائے گا پھر علما کو علاحدہ کرکے ان سے فرمائے گا: اے علما کے گروہ! میں تمہیں جانتا ہوں اسی لئے تمہیں اپنی طرف سے علم عطا کیا تھا اور تمہیں اس لئے علم عطا نہیں کیا تھا کہ تمہیں عذاب میں مبتلا کروں ۔ جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا۔
{جامع بیان العلم وفضله، حدیث نمبر :232،ص:215}

اسماعیل ابن ابو رجاء سے منقول ہے کہ میں نے إمام محمد حسن بن شیبانی رحمه الله کو خواب میں دیکھا۔ حال پوچھا۔ انہوں نے کہا :اللہ تعالیٰ نے مجھے بخش دیا اور فرمایا : اگر میں تجھ پر عذاب کرنا چاہتا تو علم عنایت نہ کرتا۔ اور إمام ابو یوسف رحمه الله کا حال دریافت کیا۔ کہا کہ وہ ہم سے جنت میں دو درجے اوپر ہیں ۔اور إمام اعظم ابو حنیفہ رحمه الله کے بارے میں پوچھا تو کہا کہ وہ "اعلیٰ علیین” میں ہیں.

{رد المحتار، مقدمہ، مطلب: يجوز تقلید المفضول، ج،1، جامع بیان العلم وفضله، ص:214}

مجلس علم میں حاضری کی فضیلت :
{12}: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عالم کی مجلس میں حاضر ہونا ہزار رکعت نماز، ہزار بیماروں کی عیادت اور ہزار جنازوں پر حاضر ہونے سے بہتر ہے۔ بزم صحابہ میں سے کسی نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا علم کی مجلس میں حاضر ہونا قراءت قرآن سے بھی افضل ہے؟ فرمایا : کیا قرآن بغیر علم کے نفع بخشتا ہے؟ یعنی تلاوت قرآن کا فائدہ بغیر علم کے حاصل نہیں ہوتا۔
{ترمذی، کتاب العلم،باب ماجاء في فضل الفقه على العبادة}

طلبہ کی روزی اللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر ہے:

{13}: جو علم دین حاصل کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی مشکلات کو آسان فرما دے گا اور اسے وہاں سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہوگا ۔
{جامع بیان العلم وفضله. }
علم دین رضائے الٰہی کی نیت سے حاصل کرنے والوں کے لئے عظیم الشان خوش خبری ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں کھلاتا پلاتا ہے، یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں بے شمار مدارس و مکاتب اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم بےشمار طلبہ کے کھانے پینے کا انتظام اللہ تعالیٰ غیب سے کر دیتا ہے ۔ یہ بھی واضح حقیقت ہے کہ کامل اخلاص اور محنت ولگن سے علم حاصل کرنے والے لوگ بہتوں سے بہتر و خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں، بڑے بڑے افسران و حکمران علما کے در کی جبیں سائی کرتے ہیں، اور ان کی خدمت اپنے لئے باعث سعادت سمجھتے ہیں ۔علما کا یہ وہ بلند ترین مقام و مرتبہ ہے جو دنیا کے کسی بھی بڑے سے بڑے مالدار کو نہ حاصل ہوا ہے اور نہ قیامت تک حاصل ہو سکتا ہے ۔ ذَ ٰ⁠لِكَ فَضۡلُ ٱللَّهِ یُؤۡتِیهِ مَن یَشَاۤءُۚ وَٱللَّهُ ذُو ٱلۡفَضۡلِ ٱلۡعَظِیمِ.
{14}: حضرت سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ علم سیکھنے اور سکھانے کی فضیلت کے بارے میں مرفوع حدیث بیان کرتے ہیں:
” علم حاصل کرو کیونکہ علم کا سیکھنا خشیت الہی کا باعث ہے ،
اس کی تلاش عبادت، اس کا درس تسبیح، اس کی جستجو جہاد، اس کی تعلیم دینا صدقہ اورعلم کو اس کے اہل تک پہچانا قربت یعنی نیکی ہے۔
علم تنہائی اور خلوت کا دوست، خوشی و تنگی میں رہنما، دوستوں میں نائب ،اقربا میں سے قریب اور جنت کے راستے کا مینار ہے۔
اللہ عزوجل اس کے ذریعے بہت سی قوموں کو بلندی عطا فرما کر بھلائی کے کاموں میں قائد اور ہادی بنا دیتا ہے،
جن کی اقتداء کی جاتی ہے وہ اچھے کاموں میں رہنما ہوتے ہیں،
ان کے نقش قدم کی پیروی کی جاتی ہے اور ان کے افعال کی قدر کی جاتی ہے،
فرشتے ان کی صحبت میں رغبت رکھتے ہیں اور انہیں اپنے پروں سے ڈھانپتے ہیں،
ہر خشک و تر چیز ان کے لئے استغفارکرتی ہے حتی کہ سمندر کی مچھلیاں اور کیڑے مکوڑے، خشکی کے درندے و جانور، آسمان اور اس کے ستارے ان کے لئے بخشش کی دعا کرتے ہیں کیونکہ
علم دل کو اندھے پن سے بچا کر قوت بخشتا ہے بندہ اس کے ذریعے نیک لوگوں کی منازل اور بلند درجات کو پا لیتا ہے،
اس میں غوروفکر روزہ رکھنے کے برابر اور اس کا درس رات کے قیام کے برابر ہے ،
علم کے ذریعے ہی اللہ تعالیٰ کی عبادت و فرمانبرداری ہوتی ہے،
اسی سے اس کی توحید و بزرگی کا اقرار ہوتا ہے،
اسی کے ذریعے صلہ رحمی کی جاتی ہے،
علم امام اور عمل اس کا تابع ہے،
علم نیک بخت لوگوں کے دلوں میں ڈالا جاتا ہے اور بدبختوں کو اس سے محروم رکھا جاتا ہے۔”
{لباب الاحیاء، المُسْتَطْرَفْ في كلِّ فَنٍّ مُسْتَظْرَفْ، الباب الرابع}

{15}:- رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
”تم عالم بنو، یا علم سیکھنے والا بنو، یا ان سے محبت کرنے والا بنو، یا پھر ان کی باتیں سننے والا بنو، پانچواں {یعنی علما سے دشمنی کرنے والا اور ان سے بغض رکھنے والا} نہ بننا، ورنہ ہلاک ہو جاؤں گے۔
ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺑﻜﺮﺓ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ، ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ: ” اﻏﺪ ﻋﺎﻟﻤﺎ ﺃﻭ ﻣﺘﻌﻠﻤﺎ، ﺃﻭ ﻣﺤﺒﺎ، ﺃﻭ ﻣﺴﺘﻤﻌﺎ، ﻭﻻ ﺗﻜﻦ اﻟﺨﺎﻣﺲ، ﻓﺘﻬﻠﻚ "
{شرح مشکل الآثار، حدیث نمبر : 6116۔ مسند البزاز، حدیث نمبر : 3626}

علم وحکمت اور صنعت وحرفت کے وہ ذخائر جن کے مالک آج اہل یورپ بنے بیٹھے ہیں ان کے حقیقی وارث مسلمان ہی ہیں، لیکن اپنی غفلت و جہالت اور لاپرواہی کے سبب ہم اپنے تمام حقوق کھو چکے ہیں۔

ڈاکٹر اقبال نے کہا تھا کہ

باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر وارثِ میراث پدر کیوں کر ہو؟
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
حیرت ہے کہ تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے
جس قوم کا آغاز ہی "إقرأ” سے ہوا تھا

مذکورہ بالا احادیث کریمہ سے معلوم ہوا کہ علم کی وجہ سے علما کو قیامت میں عظیم مرتبہ حاصل ہوگا، علم کے سبب معاشرہ کا ایک عام آدمی بھی نبی کا وارث ہوجاتا ہے، علم انسان کو شیطان کے وار سے محفوظ رکھتا ہے، علم کی بدولت ہی ولایت ملتی ہے کبھی بھی کوئی جاہل ولی ہوا ہے اور نہ ہی ولی ہوسکتا ہے ، علم قیامت میں لوگوں کی شفاعت کرنے کا حقدار بنائے گا،زمین و آسمان کی ہر چیز عالم کے لئے دعائے خیر کرتی ہے، یہاں تک کہ مچھلیاں پانی میں اور چیونٹیاں اپنے سوراخوں میں دعائیں کرتی ہیں۔ علما کا سونا بھی عبادت ہوتا ہے، علم حاصل کرنے کے دوران مرنے والا شہید ہے، علم ہی سے دنیا و آخرت دونوں سدھرتی اور سنورتی ہیں، علم ذریعۂ نجات اور جنت میں داخلے کا ضامن ہے، دنیا و آخرت کی بھلائی علم کے ساتھ ہے، علم باعث عز وشرف ہے، علم لازوال اور بیش بہا نعمت ہے، علم انسان کو مہذب و باأخلاق اور صاحب کردار بناتا ہے، علم کی وجہ سے سرداری و حکمرانی اور جہاں بانی ملتی ہے۔

جب علم سیکھنے کے اتنے زیادہ فائدے ہیں تو اس سے غفلت و بے توجہی اور بے رغبتی کیوں؟
تو آئیے مل کر علم دین سیکھنے کا پختہ عزم و ارادہ کریں اور آج ہی سے علم دین سیکھنے میں مشغول ہوجائیں۔
آج علم دین سیکھنے کے بے شمار ذرائع موجود ہیں تو دیر نہ کریں اور علم دین سیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث بن جائیں، ورنہ عمر نکلنے کے بعد صرف افسوس ہی ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے