تحریر: عین الحق امینی قاسمی، بیگو سرائے بہار
کہتے ہیں کہ” درخت اپنے پھل سے پہچانا جا تا ہے ” یہ محاورہ مشہور بھی ہے اور یہاں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیو بندیؒ کے حوالے سے مبنی بر حقیقت بھی۔شخصیتوں اور شاگردوں کے ارتقا ءاورمتوسلین ومریدین کے عروج وارشاد میں جو تنوع ،امتیاز ات ،صبر وثبات، جرئت و عزیمت ،روحانیت اورعلمی بصیرت و بصارت جیسی ان گنت خوبیاں حضرت شیخ الہندؒ کے یہاں ملتی ہیں ، وہ ہمیں حضرت شیخ کے بعد کے زمانے میں اپنے دیگر اکابرین واخلاف میں اس درجہ نہیں ملتیں ،اگر حضرت شیخ الہند کے بہت سے بے نام و بے تبصرہ متوسلین ومستفدین کے علاوہ صرف ان چند ممتاز شاگردوں کی فہرست اٹھا کر دیکھ لیاجائے،جن کو تاریخ نے محفوظ کیا ہے یا زمانے یاد رکھا، تو دعوے کی سچائی جاننے کے لئے الگ سے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوگی۔
حضرت شیخ الہندؒ کی انقلابی شخصیت کی بیک وقت متعدد جہتیں تھیں ،جس طرح وہ اپنی ذات میں عالم ،زاہد ،مجاہد ، قائد،مفسر ، معلم ،مفکر ،مدبر ،مرشد ،سیا سی رہنما ،روحانی پیشوا اور علوم قاسمیت کے امین وپاسباں تھے ، انہوں نے بعد کی زندگی میں بھی اپنی ہرجہت سے ایسے ایسے باکمال شاگرد تیارکئے ، جن کی حیثیت خود ایک انجمن کی تھی ،کوئی آفتاب تو کوئی ماہتاب ،کوئی دن کے راہب ،شب کے شہسوار تو کوئی غازی وبطل حریت کے سرخیل اور کوئی اپنے علم وزہد کے روشن چراغ تو کوئی ورع وتقویٰ کی اعلی مثال، اسی طرح انہیں شاگردان رشید میں سے کوئی عشق رسول کا سراپا مجسم بن کر مدتوں درس حدیث کے ذریعے مسند حدیث کو گرمانے والے تو کوئی حجة الاسلام حضرت شاہ ولی اللہؒ کے علوم وافکار کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف عمل ،تو کوئی قلم وقرطاس پر علم ومعرفت کا جلوہ بکھیرتا ہوا اور کوئی فقہ وفتاویٰ سے ایک پوری دنیا کو فقہ وشریعت کی راہ دکھلاتا ہو ا۔
غرض !جو جہاں تھے ،جن کو جس محاذ کے لئے تیار کیا گیا،سب کے سب اپنے اپنے مقام وکام پہ نہ صرف فٹ تھے ،بلکہ زندگی بھر کارِ مفوضہ کو نبھاکر دنیا سے رخصت ہوگئے ،تاہم کبھی کسی کے دل پر نہ میل جمی اور نہ پائے استقامت میں لغزش ،جو علم واخلاص اُنہیں اپنے استاذ حضرت شیخ الہندؒ سے حاصل ہوئے تھے ،سب کے سب تا عمر اُسی اخلاص وعمل کا سراپا مظہر بنے رہے۔پروفیسر ابراہیم موسیٰ نے شیخ الہند کے شاگردوں سے متعلق جتنا کچھ انہوں نے سمجھا ہے ،اس پر روشنی ڈالتے ہوئے وہ لکھتے ہیں :
”ان کے شاگردوں نے مدرسہ نیٹورک میں شہرت حاصل کی اور جنوبی ایشیاءمیں عوامی زندگی کی بہتری کے لئے خدمت انجام دی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی جیسے مذہبی اعلیٰ تعلیم، سیاست اور اداروں کی تعمیر میں حصہ لیا “۔
1878ءمیں ” ثمرةالتربیت“ کے نام سے ایک جماعت کی بنیاد حضرت شیخ الہند ؒنے رکھی تھی ،اس سلسلے میں حضرت مدنی فرماتے ہیں کہ ” شروع شروع میں قیاس سے بھی زیادہ مشکلات سامنے آئیں اور تند آندھیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ باد سموم کے جھلسا دینے والے تھپڑوں نے طماچے مارے احباب و اقارب مار آستین بن گئے ہر شخص ناصح و خیر خواہ بن کر سد راہ بنا اور کیوں نہ بنتا انگریز نے اس قدر پیش بندی کر رکھی تھی کہ سیاست کی طرف آنکھ اٹھانا ۱۸۵۷ءکا سماں باندھنا تھا۔ آزادی اور انقلاب کو اگر کوئی خواب میں بھی دیکھ لیتا تو پِتہ پانی ہو جاتا تھا چاروں طرف خفیہ پولیس کا جال بچھا ہوا تھا پھر کس طرح امید کی جا سکتی تھی کہ کوئی شخص ہم خیال اور ہم زبان باہم عمل ہو سکتا ہے۔ بہر حال مولانا شیخ الہندؒ نے تمام خطرات سے قطع نظر ضروری سمجھا اور اللہ کا نام لے کر اس بحر ذخار میں اور ہولنا ک طوفان میں کود کر آگے بڑھے او ر لوگوں کو ہم خیال اور رفیق سفر بنانے لگے۔ بڑے بڑے علماﺅ مشائخ سے چونکہ نا امید اور مایوس تھے اس لئے” تلا مذہ اور مخلص سمجھدار مریدوں کو ہم خیال بناتے رہے ” ( بیس بڑے مسلمان241)
مولانا عبیدا للہ سندھی فرماتے ہیں1327ھ میں حضر ت شیخ الہندؒنے مجھے دیوبند طلب فرمایا اور مفصل حالات سن کر دیوبند میں رہ کر کام کرنے کا حکم دیا چار سال تک” جمعیتہ الانصار “میں کام کرتا رہا اس تحریک کی تا سیس میں مولانا محمد صادق صاحب سندھی اور مولانا ابو محمد صاحب لاہوری اور عزیزی مولوی احمد علی میرے ساتھ شریک تھے۔ پھر شیخ الہند کے ارشاد سے میرا کام دیوبند سے دہلی منتقل ہوا۔ ( علماءحق کے مجاہدانہ کارنامے 123)
حضرت شیخ الہند کے یوں تو ہزاروں شاگرد ہیں ،تاہم یہاں بطور مثال چند شخصیتوں کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جس سے شخصیت کے ارتقا میں حضرت شیخ الہند کی خدمات کے نمایاں پہلو کو سمجھنے میں مدد ملے گی اور یہ کہ اُن کا اس حوالے سے یہ اتنا بڑا کردار ہے کہ بعد کے ادوار میں اخلاف کی ساری فتحیابیوں کا سرا اسی ایک کڑی سے جاکر ملتا ہے۔
آپ کے شاگردوں میں مہتمم خامس دارالعلوم دیوبند حافظ محمد احمدؒ ، حکیم زمانہ ،حکیم مسعود احمد ؒ ، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ ، شیخ العرب والعجم،شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ ، ولی کامل مولانا اصغر حسین دیوبندیؒ ،شیخ الادب مولانا اعزاز علی امروہویؒ ،خاتم المحدثین علامہ انور شاہ کشمیری ؒ، شیخ الحدیث حضرت مولانا سید فخرالدین احمد مرادآبادیؒ ،شارح مسلم شریف علامہ شبیر احمد عثمانیؒ ، مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی شفیع عثمانیؒ،چیف جسٹس افغانستان مولانا عبد الرزاق پشاوریؒ ،حجةالاسلام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے علوم وافکار کے امین مولانا عبید اللہ سندھیؒ ، بطل جلیل مولانا عزیز گل پشاوریؒ ،مرجع فقہ وفتاویٰ حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمان عثمانیؒ مفتی اعظم ہند ،ابو حنیفہ وقت حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب دہلویؒ، بانی دعوت وتبلیغ مرکز نظام الدین دہلی مولانا الیاس کاندھلویؒ ، مفتی زمانہ حضرت مولانامفتی محمدسہول صاحب بھاگل پوریؒ ،امام المنطق والفلسفہ علامہ ابراہیم بلیاویؒ ، عاشق شیخ الہند حضرت مولانا صادق صاحب کرانچیؒ،حضرت مولانا سید حامد حسن صاحب گنگوہیؒ ،مفسر ومجاہد حضرت مولانا احمد اللہ صاحب پانی پتیؒ ،حضرت مولانا اکبر صاحب صاحب پشاوری ؒ، مولانا محمد یاسین سرہندیؒ ، سلطان القلم حضرت مولانا مولانا مناظر احسن گیلانیؒ ،مفسر قرآن حضرت مولانا احمد صاحب پرتاب گڑھی ؒوغیرہ کے نام نمایاں ہیں اور ان میں سے ہر ایک ،ایک مثالی تحریک اور تابندہ نقوش کے مالک ہیں ،جن سے روشن تاریخیں جڑی ہوئی ہیں ،ان میں سے کوئی مجاہد ہے تو کوئی سینکڑوں کتابوں کے مصنف ،کوئی زہد وورع میںیگانہ تو کوئی مدبر ،مفکر ، مفسر،معلم ،مرشد،سیاسی رہنما ،تو کوئی ہزاروں قلوب کا تزکیہ کرنے والا روحانی پیشوا اور کوئی شاہ حضرت ولی اللہ محدث دہلوی کے علوم وافکار کے شارح وداعی۔
علماءدیوبند میں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی نے جو مقام ورتبہ پایا اور اپنے پیچھے جتنی بڑی کامیاب جماعت انہوں نے چھوڑی جن سے موجودہ تمام تعلیمی ،تنظیمی ،تحریکی اورانفرادی واجتماعی کوششوں کا سرا جڑتا ہے ،اس سے جہاں نئی نسل کے سامنے خودحضرت شیخ الہندؒ کی شخصیت ابھر کر سامنے آتی ہے وہیں شخصی ارتقاءمیں ان کے کردا ر کی اہمیت ،ضرورت اور عصری معنویت کا پہلوبھی نکھرتاہے۔حضرت شیخ الہندؒ کے بعد کی زند گی کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں جس درجہ کتابی صلاحیت وصالحیت پر زور دیا جاتا ہے ،اس درجہ تنظیمی اور تحریکی پہلو پر مرکزی توجہ نہیں دی جاتی ،یا یوں کہہ لیا جائے کہ ملت کی دینی قیادت و سیادت اور ملی سیاسی حمیت کا گُن اور درپیش مسائل سے نپٹنے کا جرئتمندانہ ہنر ،نہ درسگاہوں میں باضابطہ سکھایا جاتا ہے اور نہ ہی ساتھ رکھ کر عملا ایسی کوئی تربیت دی جاتی ہے ،جس سے حوصلہ مند قیادت جنم لے سکے ،بلکہ جرئت مند قیادت و عزیمت کے فقدان ویتیمی کے احساس سے صبح وشام دوچار ہونا پڑرہا ہے۔
بھارت کی موجودہ سرکاری پالیسی کے تناظر میں حضرت شیخ الہندؒ کے شخصی ارتقائی منہج وفکر کو پڑھنے اور سمجھنے کی نوجوان نسل میں جو اہمیت بڑھی ہے وہ بہت ہی خوش آیند ہے اور پچھلے ستر سالوں میں شاید ہی اتنی اہمیت بڑھی ہوگی ،فی الوقت مسلم قیادت کا جو بکھر تا تا نا بانا ہے وہ انتہائی مایوس کن ہے ،حضرت شیخ الہند کا اتحادی نظریہ بھی کافی کار گر رہا کرتا تھا کہ معرکہ کو سر کرنے کی غرض سے وہ دیگر اقوام سے اتحاد ویکجہتی کو ضروری خیال کر تے تھے ،آج ہر قیادت آپس میں ہی منتشر دِکھتی ہے چہ جائے کہ وہ دیگر اقوام کے شانہ بشانہ کھڑی ہوکر دشمنوں کے دانت کھٹے کرے۔حضرت شیخ الہند نے اپنے تلامذہ کی شخصیت کو ابھارنے وسنوارنے اورخدمت کا جومزاج وذہن تیارکیا تھا ،اس نے ملک کی آزادی کے مرحلوں کو بھی آسان کیا اور علم دین کی اشاعت و دعوت کے جذبے کو بھی متحرک کیا۔تنظیمی امور کے حوالے سے ماضی قریب میں جن بزرگوں نے حضرت شیخ الہندؒ کے رجال ساز نظریہ کو فروغ دیا ہے اُن میں ایک معتبر نام امیر شریعت رابع حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ صاحب رحمانیؒ بانی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈاور دوسری شخصیت قاضی القضاةحضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحبؒ رحمہم اللہ سابق صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈکے اسماءکو بطور تبرک پیش کیا جاسکتا ہے ،جنہوں نے شیخ الہند ؒکے اس مشن کو جیتے جی جاری بھی رکھا اور اُن پہ ہی یہ مشن اپنے اختتام کو بھی پہنچا۔ضروت ہے کہ حضرت شیخ الہندؒ کی انقلابی شخصیت کے مختلف پہلوو¿ں کو عام کیا جائے اوران کے تابندہ نقوش سے فائدہ اٹھا کر انسانیت کی خدمت جذبے سے ملت کے لئے کام کیا جائے اورانہوں نے شخصیت کے ارتقائی نظرئیے سے جو مشن جاری کیا تھا اسے آگے بھی بڑھا یا جائے