تعلیم

مدارس اسلامیہ کی تنزلی کا ذمہ دار کون؟ (قسط نمبر 3)

تحریر: محمد عباس الازہری
خادم التدریس دار العلوم اہل سنت فیض النبی کپتان گنج بستی یوپی۔

زندگی کے کچھ شعبے ایسے ہیں جن کا براہِ راست تعلق مدارس اسلامیہ سے ہے۔مذہبی علوم و فنون ,اصلاح معاشرہ ,عربی ,فارسی اور اردو زبانوں کی ترویج و اشاعت کا بھی تعلق مدارسِ سے ہے۔ لیکن آج درس و تدریس,خطابت نظامت ,پیری و مریدی پر بہت زیادہ دھیان دیا جا رہا ہے۔اور”شعبہ تصنیف و تالیف ” کے ساتھ سوتیلا برتاؤ کیا جا رہا ہے۔۔ الا ماشاء اللہ!کیونکہ اس میں نام و شہرت اور مادی فوائد کی کم توقع کی جاتی ہے۔اب تو پی ڈی ایف کا زمانہ ہے اس لیے رائٹرس,ناشرین حضرات کا اس کی طرف توجہ دینا بہت بڑی بات ہے۔ہاں! سب سے مفید و نفع بخش کام جلسہ و پروگرام ہے۔ مدرسہ میں بیت الخلاء نہیں ہے ,مدرس کی چارپائی ٹوٹی ہوئی ہے ,بستر پھٹا ہوا ہے, کئی مہینوں سے مدرس کو تنخواہ نہیں ملی ہے لیکن کبھی اس کے لیے چندہ نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی لوگ دیتے ہیں اور نہ ہی مدرس و منتظمین رقوم اکٹھا کر پاتے ہیں لیکن جلسہ کے نام پر کئی لاکھ کچھ ایام میں اکٹھا ہو جاتے ہیں ! اس لیے لوگوں کو راغب کرنے کے لیے بڑے بڑے پوسٹر چھپوائے جاتے ہیں اور ان میں "القابات” کی بھرمار ہوتی ہے تاکہ لوگ سمجھیں کہ یہ تعلیم ,تعمیر اور تنخواہ اور ضروریات مدرسین سے زیادہ اہم و ضروری ہے۔ اور ایک اناؤنسر کے مطابق جلسے جھوٹ کے بغیر نہیں ہو سکتے اب مولانا پر کوئی مقرر راضی نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی سامعین و منتظمین "علامہ و مفتی ,سیاح ,مجاہد,غازی ,قائد ,فاتح ” کے علاوہ کسی دوسرے کو بلانے کے لیے راضی ہوتے ہیں۔ چاہے جتنی رقم خرچ کرنی پڑے !اس کو منتظمین یا خطباء کی مجبوری بھی کہہ سکتے ہیں ! جب قابل و محنتی مدرسین کی قدر نہیں ہوتی ہے اور چند تقاریر رٹنے والے خطباء یا گانے کے طرز پر مشق کرکے پڑھنے والے شعراء کی قدر ہوتی ہے اور ان پر نوٹوں کی بوچھار ہوتی ہے تو درس گاہی مدرسین احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔آج کل سنی مکتبہ فکر کے خطباء و شعراء کے ساتھ اتنے القابات لگے ہوتے ہیں کہ اصل نام چھپ جاتا ہے اور بقیہ مکاتبِ فکر کے مذہبی لوگوں کے نام کے ساتھ صرف ” حضرت مولانا,حافظ ,ڈاکٹر ” وغیرہ لکھا جاتا ہے۔آج کل جہاں ایک طرف القاب کی بھرمار ہے وہی دوسری طرف ” ٹوپی,جبہ ,دستار ,عمامہ ” وغیرہ میں بھی مقابلہ آرائی ہے,اس میں بھی برانڈ کا معاملہ شروع ہو گیا ہے!!!!گویا یہ کہا جا سکتا ہے ؎
اس دور میں لباس کی قدر ہے آدمی کی نہیں
گلاس بڑا کردے اور جام کم کردے۔
یہ بھی واضح رہے کہ ماحول کے اثرات سب پر مرتب ہوتے ہیں اور دھیرے دھیرے مدارس اسلامیہ پر بھی مرتب ہو رہے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اچھے اثرات نہیں بلکہ برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔یہ برے اثرات مدارس اسلامیہ کے قیام کے حقیقی مقاصد کو خاک میں ملا رہے ہیں۔

جاری۔۔۔۔

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com