تحریر: عبدالرشیدامجدی ارشدی اشرفی دیناجپوری
مسکونہ۔۔۔ کھوچہ باری رام گنج اسلام پور بنگال
7030786828
rashidamjadi00@gamil.com
تراویح رمضان کے مہینے میں عشاء کی نماز کے بعد اور وتر کی نماز سے پہلے باجماعت ادا کی جاتی ہے۔ جو بیس رکعت پر مشتمل ہوتی ہے اور دو دو رکعت کرکے پڑھی جاتی ہے ہر چار رکعت کے بعد وقف ہوتا ہے جس میں تسبیح و تحلیل ہوتی ہے اور اسی کی وجہ سے اس کا نام تروایح ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان شریف میں رات کی عبادت کو بڑی فضیلت دی ہے۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سب سے پہلی تروایح کے باجماعت اور اول رات میں پڑھنے کا حکم دیا اور اُس وقت سے اب تک یہ اسی طرح پڑھی جاتی ہے۔ اس نماز کی امامت بالعموم حافظ قرآن کرتے ہیں اور رمضان کے پورے مہینے میں ایک بار سنت ہے اور زیادہ مرتبہ قرآن شریف پورا ختم کیا جا سکتا ہے حنفی ، شافعی ، مالکی اور حنبلی حضرات بیس رکعت پڑھتے ہیں اور تروایح کے بعد وتر بھی باجماعت پڑھے جاتے ہیں۔
تراویح کے معنی
شارح بخاری علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر کیا ہے کہ تراویح، ترویحہ کی جمع ہے اور ترویحہ کے معنی: ایک دفعہ آرام کرنا ہے، جیسے تسلیمہ کے معنی ایک دفعہ سلام پھیرنا۔ رمضان المبارک کی راتوں میں نمازِ عشاء کے بعد باجماعت نماز کو تراویح کہا جاتا ہے، کیونکہ صحابہٴ کرام کا اتفاق اس امر پر ہو گیا کہ ہر دوسلاموں یعنی چار رکعت کے بعد کچھ دیر آرام فرماتے تھے ۔
آئمہ اربعہ کے اقوال
امام اعظم ابو حنیفہ
حضرت امام فخر الدین قاضی خان لکھتے ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ رمضان میں ہر رات بیس یعنی پانچ ترویحہ وتر کے علاوہ پڑھنا سنت ہے۔
علامہ علاء الدین کاسانی حنفی لکھتے ہیں کہ جمہور علما کا صحیح قول یہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت ابی بن کعب کی امامت میں صحابہٴ کرام کو تراویح پڑھانے پر جمع فرمایا تو انہوں نے بیس رکعت تراویح پڑھائی اور صحابہ کی طرف سے اجماع تھا۔
امام شافعی
حضرت امام شافعی رحمۃ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے بیس رکعت تراویح پسند ہیں، مکہ مکرمہ میں بیس رکعت ہی پڑھتے ہیں۔ ایک دوسرے مقام پر حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعت نماز تراویح پڑھتے پایا ہے۔علامہ نووی شافعی لکھتے ہیں کہ تراویح کی رکعت کے متعلق ہمارا شوافع مسلک وتر کے علاوہ دس سلاموں کے ساتھ بیس رکعت کا ہے اور بیس رکعت پانچ ترویحہ ہیں اور ایک ترویحہ چار رکعت کا دوسلاموں کے ساتھ، یہی امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ان کے اصحاب اور امام احمد بن حنبل کا مسلک ہے اور قاضی عیاض نے بیس رکعت تراویح کو جمہور علما سے نقل کیا ہے۔
امام احمد بن حنبل
فقہ حنبلی کے ممتاز ترجمان علامہ ابن قدامہ لکھتے ہیں : امام ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل) کا پسندیدہ قول بیس رکعت کا ہے اور سفیان ثوری بھی یہی کہتے ہیں اور ان کی دلیل یہ ہے کہ جب عمر فاروق نے صحابہٴ کرام کو ابی بن کعب کی اقتداء میں جمع کیا تو وہ بیس رکعت پڑھتے تھے۔ ابن قدامہ کہتے ہیں کہ یہ بمنزلہ اجماع کے ہے۔ نیز فرماتے ہیں جس چیز پر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ عمل پیرا رہے ہوں، وہی اتباع کے لائق ہے۔
امام مالک
حضرت سیدنا امام مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مشہور قول کے مطابق تراویح کی 36 رکعت ہیں؛جبکہ ان کے ایک قول کے مطابق بیس رکعت سنت ہیں۔ علامہ ابن رشدقرطبی مالکی فرماتے ہیں کہ امام مالک نے ایک قول میں بیس رکعت تراویح کو پسند فرمایا ہے۔ مسجد حرام میں تراویح کی ہر چار رکعت کے بعد ترویحہ کے طور پر مکہ کے لوگ ایک طواف کر لیا کرتے تھے، جس پر مدینہ منورہ والوں نے ہر ترویحہ پر چار چار رکعت نفل پڑھنی شروع کر دیں تو اس طرح حضرت امام مالک کی ایک رائے میں 36رکعت (20 رکعت تراویح اور 16 رکعت نفل) ہوگئیں۔
مذکورہ بلا آئمہ اربعہ کے اقوال اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ تراویح کی کل رکعت 20 ہوتی ہیں اسی پر اہل سنّت و جماعت چاروں فقہی مذاہب کا اجماع ہے اور آج کے دور میں بھی حرمین شریفین میں یہی معمول ہے وہاں کل 20 رکعت تراویح پڑھی جاتی ہیں