تحریر: محمد ہاشم اعظمی مصباحی
نوادہ مبارکپور اعظم گڑھ یوپی انڈیا
یہ بات سب جانتے ہیں کہ ہندوستان کی جنوبی ریاستوں میں بی جے پی کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہے اور نہ ہی کوئی مضبوط مؤقف ہے حتیٰ کہ صوبہ کرناٹک میں بھی اپنے تانے بانے کے باوجود بی جے پی اقتدارسے محروم رہ گئی تھی لیکن بڑی مکاری سے کرناٹک کی منتخبہ آئینی حکومت کو اپنی عیارانہ سازشوں کے ذریعہ اقتدار سے بے دخل کرکے پچھلے دروازے سے اقتدار پر زبردستی قابض ہوگئی. اور اب کسی بھی قیمت پر جنوبی ہند میں بھی بی جے پی اپنے وجود کومستحکم کرنے میں اپنی پوری مشینری کے ساتھ دن و رات لگی ہوئی ہے چونکہ جنوبی ہند میں بی جے پی کے پاس کرناٹک ہی ایک واحد ریاست ہے جہاں وہ اپنے ہندوتوادی ایجنڈہ پر دھڑلے سے عمل کا آغاز باضابطہ کرچکی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ جس طرح گجرات اور یوپی کو ماضی میں بی جے پی نے ہندوتوا کی تجربہ گاہ بنایا تھا اسی طرح اب جنوبی ہند میں کرناٹک ریاست کو اپنی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کر رہی ہے اس لئے کہ کرناٹک میں جیسے جیسے اسمبلی الیکشن قریب آتاجارہاہے ویسے ویسے ہندوتواکے نئے نئے تجربات میں اضافہ ہوتاجارہاہے آئے دن کوئی نہ کوئی نیا تنازعہ سرابھارتاجارہاہے اور مرکزی و ریاستی حکومتیں اس نئی تجربہ گاہ کوپنپتے ہوئے خاموشی کے ساتھ خوشی خوشی دیکھ رہی ہیں ۔ حجاب تنازعہ ابھی ختم بھی نہیں ہونے پایا تھا کہ مندر کمپلیکس سے مسلمانوں کی دوکانوں کوہٹوانے کا مسئلہ سامنے آکھڑا ہوا اوراب ایک اور نئے مسئلے نے سر اٹھا لیا ہے جوکہ بہت ہی سنگین صورت اختیار کرتے جارہاہے۔وہ بھی ایسے وقت میں جب کہ جنوبی ہند میں اوگادی تہوار ہے جسے مہاراشٹروغیرہ میں گوڈی پروا ‘‘کہاجاتاہے ذرائع ابلاغ کے مطابق ہندو جن جاگرن سمیتی نامی شدت پسند تنظیم نے اپنے مسلم مخالف نظریہ کی بنیاد پر ایک مطالباتی اعلان کیاہے کہ حلال میٹ اورحلال کھانے کی اشیاء پر پابندی لگائی جائے۔کیوں کہ مسلمان لوگ حلال کاروبارکے ذریعے ہندوؤں سے پیسے اکٹھا کر کے بھارت کو اسلامی ریاست میں بدلنے کی سازش کررہے ہیں۔ دراصل ہر سال یوگادی تہوار کے اگلے دن ہندو ‘ہوساتھو ڈاکو’ کے طور پر مناتے ہیں۔ اس دن وہ اپنے نئے سال کی شروعات گوشت پکانے کے ساتھ کرتے ہیں اس سال اس تہوار کے موقع پر ہندو جن جاگرتی سمیتی کے ترجمان موہن گوڈا نے حلال گوشت کے بائیکاٹ کا پرزور مطالبہ کرتے ہوئے ہندو عوام سے اپیل کی ہے کہ آئیے ہم سب اس بات کو یقینی بنائیں کہ حلال گوشت نہ خریدیں ہمیں ہر حال میں اس کا بائیکاٹ کرنا ضروری ہے مسلمان تاجراسلام کی کوئی دعا پڑھتے ہوئے جانوروں کو ذبح کرتے ہیں۔اس طرح گویا مسلمان اللہ کے سامنے نذرانہ پیش کرتےہیں۔مسلمانوں کے اس عمل کو ہم اپنی ہندو روایت میں کیسے قبول کر سکتے ہیں؟ یہ ہمارے عقیدے کے خلاف ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حلال گوشت کی فروخت کے ذریعے اس ملک کو اسلامی ملک بنانے کے لیے بہت سی رقم لگائی جا رہی ہے۔اس لیے ہم تمام ہندوؤں کو حلال گوشت کا بائیکاٹ کرنے کے لیے اکٹھا ہونا ضروری ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ برسرِ اقتدار بی جے پی کے اہم لیڈر سی ٹی روی نے اس اعلان کی حمایت کرتے ہوئے حلال گوشت کے بائیکاٹ کے کال کی نہ صرف یہ کہ تصدیق و توثیق کی ہے بلکہ حلال گوشت کے کاروبار کو ‘لو جہاد کی طرح ”اقتصادی جہاد’ تک قرار دے دیا ہے۔ ہندو جن جاگرن سمیتی کے ترجمان موہن گوڈا کی جانب سے دیا گیا بیان جلد ہی دارالحکومت بنگلورو اور ریاست کے مختلف حصوں میں آگ کی طرح پھیل گیا نتیجتاً گزشتہ دنوں کرناٹک کے ضلع شیوا موگا کے بھدراوتی علاقے میں بجرنگ دل کے کارکنوں نے توصیف نامی ایک مسلم دکاندار پر حملہ کرکے شدید طور پر زخمی کردیا اور دوکان کے سازوسامان کو تہس نہس کردیا پولیس میں کی گئی شکایت کے مطابق بجرنگ دلیوں نے توصیف سے اپنی چکن شاپ پر غیر حلال گوشت فروخت کرنے کو کہا۔جس پر اس نے کہا کہ ابھی ایسی کوئی تیاری نہیں ہے جلد ہی اس کا بھی بندوبست ہوجائے گا۔ بس اسی بات پر مشتعل ہوکر کارکنوں نے اس کی دوکان میں توڑ پھوڑ کرنے کے ساتھ توصیف کی جم کر پٹائی کردی جس کی وجہ سے اس کی حالت تشویشناک بتائی جارہی ہے. مزید برآں اقتدار کے زیرِ سایہ بجرنگ دل اور وی ایچ پی ارکان کے حوصلے اتنے بڑھ گئے کہ نیلامنگلا میں مذکورہ بیان کی حمایت میں بڑے بڑے پوسٹر لگائے جس میں حلال گوشت پر پابندی کا پرزور مطالبہ ہے اس کے علاوہ مختلف علاقوں میں ہندو گوشت کی الگ سے دکانیں بھی لگوائی گئیں ہیں ہم نے اکثر ہندوشدت پسند تنظیموں کو کھلے عام مسلمانوں کو دھمکی دیتے ہوئے سناہے مسلم تاجروں کے ساتھ خریداری کا بائیکاٹ کرتے ہوئے دیکھا ہے اور ہندو تہواروں میں مسلمانوں کو کاروبار کرنے سے روکتے ہوئے دیکھا ہے دہلی، کرناٹک وغیرہ کی وارداتیں اس کا واضح ثبوت ہیں۔
بی جے پی کے ذریعے اقتدار کی ہوس میں پہلے گجرات کو ہندوتوا کی تجربہ گاہ بنایا گیا پھر اترپردیش کو بنایا گیا اور اب کرناٹک کو بنایا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ بی جے پی کو انتخابی فائدہ تو ضرور پہنچا سکتا ہے لیکن اس سے ملک کو شدید نقصان ہو رہا ہے۔ وطن عزیز کا مشترکہ کلچر تباہ ہو رہا ہے اور ہندو-مسلم اتحاد و یکجہتی کی جڑیں کھوکھلی ہو رہی ہیں۔ اسی تناظر میں بنگلور کی فارما کمپنی بائیوٹیک لمٹیڈ کی ایکزیکٹیو چیئرپرسن کرن مجمدار شاہ نے کرناٹک میں مسلم محالف نفرت انگیز اقدامات و بیانات کے حوالے سے جن خدشات کا اقرار و اظہار کیا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے ریاست کرناٹک میں مسلمانوں کے خلاف ہندوتوا وادی تنظیموں کی سرگرمیوں پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ اگر مسلمانوں کو فرقہ واران
ہ
بنیاد پر الگ تھلگ کرنے کی کوششیں جاری رہیں تو ریاست کرناٹک انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں اپنی عالمی قیادت سے محروم ہوجائے گاانھوں نے پہلے حجاب پر پابندی، اس کے بعد مندر کمپلیکس میں مسلم دکانداروں پر عائد کی جانے والی پابندی اور اب حلال گوشت پر پابندی کے مطالبے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ کرناٹک ہمیشہ جامع اور مشترک اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن رہا ہے۔ اس مشترکہ اقتصادی ترقی کو حلال گوشت کے نام پر ‘اقتصادی جہاد’ سے تعبیر کرنے کی مہم کی ہمیں قطعی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ اس لئے کہ اگر انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بائیو ٹیکنالوجی میں بھی فرقہ واریت آگئی تو ہماری عالمی پیشوائی تباہ و برباد ہو جائے گی اور مضبوط اقتصادی قیادت کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے سے پہلے ہی چکنا چور ہوجائے گا۔