ازقلم: محمد رمضان امجدی
پرنسپل مدرسہ اہل سنت فیض الرسول پکڑی خرد مہراج گنج
رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ اپنی تمام تر رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ جلوہ فگن ہے۔ فرزندان توحید اس ماہ مبارک کی پرنور ساعتوں سے مستفید ہو رہے ہیں اور اپنی آخرت کی زندگی کو حسین تر بنانے کے لیے دنیاوی زندگی کو اسلامی اصول کے مطابق گزارنے کے لیے کمر بستہ ہو چکے ہیں ۔اہل ایمان ماہ صیام کے روزے نماز پنجگانہ کے ساتھ تراویح کی ادائیگی میں منہمک ہونے کے ساتھ کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت میں مستغرق ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں؟ جبکہ اس ماہ مبارک میں ان کے اعمال کا ثواب بڑھا دیا جاتا ہے ایک نیکی کا ستر گناہ عطا کیا جاتا ہے نوافل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر فرائض کے برابر کر دیا جاتا ہے قرآن کا ایک حرف پڑھنے پر ستر نیکیاں عطا کی جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ مسلمان اس مقدس مہینے میں نہ صرف عبادت کی کثرت کرتے ہیں بلکہ ہر کار خیر میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں خیر و برکت سے مملو اس ماہ میں ہم اپنے اہل و عیال پر حتی الوسع اموال کو خرچ کرتے ہیں کھانے پینے کی اشیإ سے لے کر اوڑھنے پہننے تک کے سامانوں کی خریداری میں فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن ہم اپنے آس پاس بسنے والے ان نادر و غریب مسلمان بھائیوں کو فراموش کر دیتے ہیں جنہیں رمضان المبارک کے اس بابرکت مہینے میں بھی پیٹ بھر کھانا نصیب نہیں ہوتا ہم اپنی پڑوسیوں کے ان معصوم بچوں کو یاد نہیں کرتے جن کی نظریں میں عید کے لئے ایک جوڑی کپڑے کی مثلا شی ہوتی ہیں
محتاجوں،غریبوں ، یتیموں اور ضرورت مندوں کی مدد، معاونت ، حاجت روائی اور دلجوئی کرنا دین اسلام کا بنیادی درس ہے ۔ دوسروں کی مدد کرنے،ان کے ساتھ تعاون کرنے، ان کے لیے روزمرہ کی ضرورت کی اشیاءفراہم کرنے کو دین اسلام نے کار ثواب اور ربّ کو راضی کرنے کا ذریعہ بتایاہے ۔ خالق کائنات اللہ ربّ العزت نے امیروں کو اپنے مال میں سے غریبوں کو دینے کا حکم دیا ہے ، صاحب استطاعت پر واجب ہے کہ وہ مستحقین کی مقدور بھر مددکرے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کچھ اصل نیکی یہ نہیں کہ منھ مشرق یا مغرب کی طرف کرو ہاں اصل نیکی یہ کہ ایمان لائے اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پر اور اللہ کی محبت میں اپنا عزیز مال دےرشتے داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور راہگیر اور سائلوں کو اور گردنیں چھوڑانے میں اور نماز قائم رکھے اور زکوٰۃ دے اور اپنا قول پورا کرنے والے جب عہد کریں اور صبر والے مصیبت اور سختی میں اور جہاد کے وقت یہی ہیں جنہوں نے اپنی بات سچی کی اور یہی پرہیز گار ہیں(سورة البقرةآیت177) ۔ محسن انسانیت نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے نہ صرف حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنے کا حکم دیا بلکہ عملی طور پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم خود بھی ہمیشہ غریبوں ،یتیموں، مسکینوں اور ضرورتمندوں کی مدد کرتےرہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے یقینا صدقہ اللہ ربّ العزت کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اوربری موت کو دور کرتا ہے۔ “(ترمذی)لیکن آج ہم دیکھتے ہیں اسلام کی روشن تعلیمات سے دور ہوکر ہمارا طرز زندگی، ہمارا طرز معاشرت بہت عجیب سا ہوگیا ہے، بے حسی تو آج کے معاشرے کا معمول بنتی جارہی ہے، ہمیں اپنے رشتہ داروں، ہمسایوں ، ضرورت مندوں کے دکھ درد کا احساس ہی نہیں ہے ۔ ہم خود تو پیٹ بھر کر کھاتے ہیں لیکن برابر میں رہنے والے بھوکے پڑوسی کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھتے۔ اس کے بچے روٹی کو ترستے ہیں اور ہم اپنے بچے پر ضرورت سے زائد خرچ کرتے ہیں۔ ہمیں اس بے حسی اور فضول خرچی پر شرمندگی بھی نہیں ہوتی ۔ ہمیں فلاح معاشرہ کے لئے اپنا طرز زندگی بدلنا ہوگا ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے رمضان المبارک کے مقدس مہینے کو امت کی غم خواری و غرباء پروری کا مہینہ قرار دیا ہے اور اس کے لئے امت کے صاحب نصاب طبقہ پر صدقہِ فطر کی ادائیگی کو لازم قرار دیاحضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ فطر کو فرض فرمایا جو روزہ داروں کی لغویات اور بیہودہ باتوں سے پاکی ہے اور غریبوں کی پرورش کے لیے ہے۔ جس نے نماز عید سے پہلے اسے ادا کیا تو یہ مقبول زکوٰۃ ہے اور جس نے اسے نماز عید کے بعد ادا کیا تو یہ دوسرے صدقات کی طرح ایک صدقہ ہوگا رمضان المبارک کے اس مقدس مہینہ میں ہم سب کی یہ دینی، ملی، سماجی، معاشرتی اور اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے صدقات و خیرات سے غرباء کی حتیٰ المقدور امداد کریں، جو صاحب استطاعت اور صاحب ثروت ہیں وہ اپنے مالوں کی زکات نکال کر ان کے مستحقین تک پہنچائیں اور غربت و مفلسی میں زندگی بسر کرنے والے لوگوں کا سہارا بن کر انہیں خوشحال زندگی گزارنے کا موقع فراہم کریں، اپنے محلے کے لوگوں کا خیال رکھیں کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ شکم سیر اور آسودہ ہو کر چین کی نیند سورہے ہوں اور آپ کا پڑوسی بھوکا پیاسا پیٹ پر پتھر باندھ کر رات گزارنے پر مجبور ہو، کیا خود کے لیے جینا بھی کوئی زندگی ہے؟ زندگی تو وہ ہے جو دوسروں کے کام آۓ اور ان کے لئے وہی پسند کیا جاۓ جو اپنے لئے پسند کرتے ہیں اس لئے کہ ہمارے مذہب نے مومن کو بھائ بھائ قرار دیا ہے چنانچہ قرآن پاک میں اللہ تعالی نے “انما المؤمنون اخوۃ”(الحجرات،آیت:١٠) “سارے مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں” فرما کر ایمان کو اصل اور جڑ قرار دیا بھائی بھائی ہونے کا مطلب واضح فرما دیا کہ اگر غربا و مساکین صاحب ایمان ہیں تو بھی ہمارے بھائی ہیں، جیسے ہم اپنے سگے بھائی کی خوشیوں میں خوش ہوتے ہیں اور ان کے مصیبت کے وقت غمگین ہوکر ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ان کی مدد
کر
تے ہیں ویسے ان کے ساتھ بھی برتاؤ کیا جائے اللہ تعالی اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے رمضان المبارک کی برکتوں سے مالا مال فرماۓ آمین