ازقلم: محمد حیدر رضا
دسمبر ٢٠٢١ء/ میں یوگی ادتیاناتھ کی تنظیم "ہندو یووا واہنی” نے دلی میں دھرم سنسد کے نام سے ایک مسلم مخالف پروگرام کا انعقاد کیا تھا۔ اس دھرم سنسد میں سدرشن نیوز کے بدنام زمانہ ایڈیٹر، سریش چوہانکے نے حاضرین سے حلف لیا تھا کہ وہ ملک کو ہندو راشٹر بنانے اور بنایے رکھنے کے لیے لڑیں گے، مریں گے اور ضرورت پڑی تو ماریں گے بھی۔
اس کے متعلق، پٹنہ ہائی کورٹ کے سابق جج انجنا پرکاش اور صحافی قربان علی نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دایر کی تھی۔ درخواست گزاروں کا الزام تھا کہ مذکورہ پروگرام کا مقصد ملک کی ایک بڑی آبادی کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ اس لیے دھرم سنسد میں تشدد پر آمادہ کرنے والے اس بیان کی آزاد تفتیش کر کارروائی ناگزیر ہے۔ سو، جنوری ٢٠٢٢ء/ میں سپریم کورٹ نے دلی پولیس کو اس معاملے میں جواب داخل کرنے کو کہا تھا۔
پچھلے دنوں، جنوب مشرقی دلی پولیس کی ڈپٹی کمشنر، ایشا پانڈے نے اپنے جوابی حلف نامے میں سپریم کورٹ سے کہا: "اس دھرم سنسد میں مسلمانوں کے خلاف کوئی زہر افشانی نہیں ہوئی۔” مزید کہا: "یہ حلف ایک دھرم کو بااختیار بنانے کے بارے میں تھی کہ وہ اپنے آپ کو ان برائیوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرے جو اس کے وجود کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔ اس کا کسی خاص مذہب کی نسل کشی کی اپیل سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں.” اتنا ہی نہیں، دلی پولیس آزادی راے کی حمایت کرتے ہوے کہتی ہے: "ہمیں دوسروں کے خیالات کو برداشت کرنا چاہیے۔ عدم برداشت جمہوریت کے لیے اتنا ہی مہلک ہے جتنا بذات خود کسی فرد کے لیے.”
اور تو اور، اپنے حلف نامے میں ایشا پانڈے خود درخواست گزاروں پر برس پڑیں۔ دراصل، پولیس کو پرکاش اور قربان سے یہ شکایت ہے کہ سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے بجاے انہیں مجرمانہ مقدمہ درج کروانے کے لیے قانون کے ذریعہ قایم کردہ طریقہ کار پر عمل کرنا چاہیے تھا (دوسرے لفظوں میں: تھانے میں رپورٹ لکھوا کر ایف آئی آر درج کروانا چاہیے)۔ اس لیے سپریم کورٹ سے اپیل کی گئی ہے کہ اس عمل کی حوصلہ شکنی ہونا چاہیے، ورنہ یہ عدالت اس طرح کی عرضیوں سے بھر جاے گی.
مذکورہ حلف نامے میں دلی پولیس دھرم سنسد کے نفرت انگیز مجرموں کو نہ صرف بچا رہی، بلکہ الٹا ان کے خلاف آواز بلند کر انصاف کی آس لگانے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کر رہی ہے۔ اور خود یہ عمل دلی پولیس کے اس سوال کا جواب ہے کہ عرضی گزاروں نے تھانے میں رپورٹ درج کروانے کے بجاے سپریم کورٹ کا رخ کیوں کیا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر پولیس نے ایسا کیوں کیا؟
دلی پولیس نے یہ سب اس لیے کیا تاکہ ملک میں نفرت کی بھٹی خوب دہکائی جاے اور اس کی آگ کبھی بجھنے نہ پاے۔ کیوں کہ جب پولیس نفرت کے سوداگروں کا اس طرح بچاؤ کرے گی تو ظاہر ہے ان کے حوصلے بلند ہی ہوں گے۔ اور درخواست گزاروں سے شکایت اس لیے کر ڈالی تاکہ آئندہ کوئی اس طرح کی عرضی لے کر کورٹ کا رخ نہ کرے۔
پولیس کا یہ برتاؤ اس لیے خطرناک ہے کہ سنگھیوں کے لیے اس میں بچاؤ کی بڑی آسان سی ترکیب پوشیدہ ہے۔ اور وہ یہ کہ ہندوؤں کو مسلح ہونے کے لیے اکسایا جاے؛ انہیں اپنے دھرم کے تحفظ کی خاطر مرنے اور مارنے کی ترغیب دی جاے، بس اسلام اور مسلمان جیسے الفاظ نہ بولے جائیں۔ پھر آگے کا کام پولیس دیکھ لے گی۔
دلی پولیس کو کون سمجھاے کہ جب بات تشدد کی ہو رہی اور مرنے، مارنے کے لیے ایک قوم کو اکسایا جا رہا ہو تو گو دوسری کسی قوم کا ذکر نہیں ہوا، لیکن تشدد اور مرنے، مارنے کا تصور مد مقابل کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔ اور یہ بتانے کی تو ضرورت ہی نہیں کہ اس وقت بھارت میں سنگھیوں کے نشانے پر کون لوگ ہیں۔ اس لیے مسلم لفظ کا ذکر کیے بغیر بھی تشدد کا اعلان مسلمانوں کے خلاف ہی اعلان سمجھا جاے گا۔
قوی اندیشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں نفرت کا بازار اور گرم کیا جاے گا۔ ہندوؤں کو مسلح ہونے کی علانیہ ترغیب دی جاے گی۔ اور یہ ہو بھی رہا، بلکہ اب تو بات دھمکی سے بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ روزانہ کہیں نہ کہیں سے عملی تشدد کی تصویریں سامنے آ رہی ہیں۔
ایسے میں مسلمانوں کے لیے اشد ضروری ہو گیا ہے کہ کسی بھی غفلت میں نہ رہیں۔ مسلمان جس بھی شہر/علاقے/محلے/گاؤں میں اقلیت میں ہیں، سنگھ کے ٹھگوں سے نپٹنے اور سیلف ڈیفنس کے لیے ذہنی طور پر تیار رہیں۔ یہ کبھی بھی کوئی شوبھا یاترا نکال کر اپنی عددی قوت اور انتظامیہ کے سہارے ماحول خراب کر سکتے (بلکہ کر رہے ہیں).