کاوشِ فکر: ناصر منیری
مِرے سرکار مجھ پر بھی کرم اک بار ہو جائے
تڑپتا ہوں پئے دیدار اب دیدار ہو جائے
مِرے اے ناخدا! کشتی لگا دو پار اب میری
"بھنور میں ہے پھنسا میرا سفینہ پار ہو جائے”
مبارک عندلیبو! تم کو طیبہ کے گل و گلشن
مِرے حصے میں بس طیبہ کا یارب خار ہو جائے
سفر میں بھی، حضر میں بھی جو دے قرباناں یارو!
بھلا رتبہ ذرا دیکھو وہ یارِ غار ہو جائے
جسے مولا بنائیں مومنوں کا بے شبہ آقا
وہ ہو شیرِ خدا وہ حیدرِ کرار ہو جائے
جو جائے در پہ ان کے ہو مقدر کا سکندر وہ
جو ان کے در سے پھر جائے ذلیل و خوار ہو جائے
بھلا ‘ناصر منیری’ کب تلک ہو دور روضے سے
کرم ہو جائے اب یہ حاضر دربار ہو جائے