تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی
تین سو تیرہ افراد، آٹھ تلواریں، دو گھوڑے اور ستّر اونٹ، یہ اس لشکر کا کل لیکھا جوکھا ہے جو مکے کے جنگ جُو اور آزمودہ بہادروں سے دین کی حفاظت کرنے کے لیے مدینے سے روانہ ہوا تھا۔ان افراد میں بھی صرف ساٹھ مہاجر صحابہ ہی لڑنے لڑانے کا تجربہ رکھتے تھے باقی 253 انصاری صحابہ بنیادی طور پر کھیتی باڑی کے پیشے سے وابستہ تھے مگر اس مختصر لشکر کی امنگوں کا یہ عالم تھا کہ ایک نوعمر غازی عمیر بن وقاص کو کم عمری کی وجہ سے واپس ہونے کو کہا گیا تو وہ زار و قطار رونے لگے۔آخرکار ان کے جذبات دیکھ کر انہیں دستے میں شامل کرلیا گیا۔12 رمضان بروز اتوار یہ نبوی قافلہ تحفظ دین کے لیے مدینہ سے روانہ ہوا اور 16 رمضان المبارک مدینے سے تقریباً 156 کلومیٹر دور میدان بدر میں پہنچ گیا۔
مسلمانوں کی مشکلات
مکے سے آنے والے فوجی دستے میں جنگوں کے آزمودہ بہادر، شکیم سیر پہلوان اور فن حرب وضرب کے ماہرین موجود تھے۔ایک طرف مسلمان صرف آٹھ تلواروں کے ساتھ آئے تھے تو کفار مکہ کی سیکڑوں تلواریں اسلام کو مٹانے کے لیے مچل رہی تھیں۔مسلمان بھوک وپیاس کی شدت کے ساتھ میدان میں ڈٹے ہوئے تھے تو کافر کھانے پینے اور رنگ وسرور کا بھرپور سامان لیکر ڈیرا جمائے بیٹھے تھے۔
کئی دن کی سفری مسافت سے مسلمان نڈھال تھے۔کیوں کہ لشکر اسلام کے پاس صرف ستّر اونٹ تھے، ہر تین آدمیوں کے حصے ایک اونٹ آیا تھا۔ایک شخص سوار ہوتا تو دو ساتھی پیدل چلتے تھے۔اس طرح باری باری سواری کا موقع ملتا۔نبی کونین ﷺ کا انصاف یہ تھا کہ آپ نے بھی اپنے دو صحابہ کے ساتھ ایک ہی اونٹ میں شرکت فرمائی۔جاں نثار صحابہ نے اپنی باری بھی حضور کو پیش کرنا چاہی تو منصف اعظم نے فرمایا:
"نہ تم جسمانی طور پر مجھ سے زیادہ طاقت ور ہو نہ میں ثواب کمانے میں تم سے کم خواہش مند”
حق وانصاف کی ڈور تھامے ہوئے یہ قافلہ کبھی پیدل تو کبھی سوار، میدان بدر کی جانب رواں تھا۔ہر شخص سواری کے مقابلے دو گنا پیدل چلا تھا، وہ بھی روزے کی بھوک پیاس کے ساتھ۔اس لیے فطری طور جسم تھکے ماندے تھے مگر ان کی روحیں ایمانی جذبوں سے اس قدر سرشار تھیں کہ تھکن کا شائبہ تک ان کے چہرے پر نظر نہیں آتا تھا۔
کیف ومستی میں چلتے جاتے تھے
وہ جو دیں کو بچانے نکلے تھے
حضورﷺ کی رقت آمیز دعا
پوری کائنات رات کے آنچل تلے سوچکی تھی۔دونوں فوجیں بھی محو آرام تھیں مگر تاجدار کائنات رات کی تاریکی میں اپنے رب سے محو کلام تھے۔آنسو تھے کہ رخسار مصطفیٰ کو بھگوتے جارہے تھے۔اپنے جاں نثاروں کی مختصر تعداد اور بے سرو سامانی دیکھ کر ہادی امت اپنے رب سے دعائیں مانگتے ہوئے عرض کرتے ہیں:
اللَّهُمَّ أَنْجِزْ لِي مَا وَعَدْتَنِي اللَّهُمَّ آتِ مَا وَعَدْتَنِي اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ.(مسلم شریف)
اے اللہ! تونے جو وعدہ مجھ سے فرمایا ہے آج وہ وعدہ پورا فرما۔اگر آج مسلمانوں کی یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔
رقت کا عالم یہ تھا مصطفیٰ کریمﷺ کی داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہوگئی۔ساری کائنات اس منظر کو دیکھ کر رو پڑی۔خاموش وادی بھی سسکیاں لے رہی تھی۔رات کا سناٹا بھی غم مصطفیٰ میں شریک تھا۔فرشتوں کی جماعت بھی "انسان کامل” کے جذبات کی حرارت اور احساس درد سمجھنے میں مصروف تھی کہ رب العالمین کی جانب سے سکینہ نازل ہوا۔نور برساتی آنکھوں میں چمک آگئی۔درد سے لبریز سینے میں ٹھنڈک اتر آئی اور ہادی امت نے فرمایا:
سَیُہۡزَمُ الۡجَمۡعُ وَ یُوَلُّوۡنَ الدُّبُرَ۔(القمر:45)
کافروں کی جماعت پسپا ہوگی اور یہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔
جب مقابلہ ہوا
دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں تو کفار مکہ کی جانب سے ولید بن عتبہ ، عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ نکلے۔ان کے مقابلے کے لیے حضور اقدس نے حضرت معاذ، حضرت عوف اور حضرت عبداللہ بن رواحہ کو بھیجا۔عتبہ نے بہ کمال رعونت ان سے نام ونسب پوچھا۔جب معلوم ہوا کہ یہ انصاری ہیں تو نہایت تکبر کے ساتھ حضور علیہ السلام کو آواز دے کر کہا:
اے محمد(ﷺ) یہ ہمارے جوڑ کے نہیں ہیں، ہم سے مقابلے کے لیے ہمارے جوڑ کے بہادر بھیجو!
عتبہ کے اس کلام سے کافروں کی سوچ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کس قدر خودسر اور گھمنڈ میں چور تھے۔وہ سمجھتے تھے کہ صرف مکہ کے پچاس ساٹھ مسلمان ہی ہم سے لڑنے کے لائق ہیں باقی کسی کو وہ خاطر میں نہیں لارہے تھے مگر وہ کیا جانتے تھے:
جب سے ملی ہیں ان سے غلامی کی نسبتیں
تِنکا بھی اس دیار کا طوفاں سے کم نہیں
اس بار حضور نے حضرت امیر حمزہ، حضرت علی اور حضرت عبیدہ بن حارث کو میدان کارزار میں بھیجا۔وہ جو کچھ وقت پہلے اپنے جوڑ کا مقابل مانگ رہے تھے ذوالفقار حیدری اور شمشیر حمزہ کا شکار ہوکر واصل جہنم ہوچکے تھے۔
اعصاب شکن جنگ
یہ جنگ جہاں جنگی ساز و سامان اور افرادی اعتبار سے بے جوڑ تھی وہیں اس جنگ کا ایک اور پہلو تھا جو مسلمانوں کے لیے نہایت اعصاب شکن اور صبر آزما تھا۔اس جنگ میں خونی رشتے دار ایک دوسرے کے مد مقابل تھے۔سیدنا صدیق اکبر کے سامنے ان کے بیٹے حضرت عبد الرحمن ، حضرت عمر کے سامنے ان کا ماموں عاص بن ہشام ، حضرت ابو عبیدہ کے سامنے ان کا باپ جراح حتی کہ حضور ﷺ کے چچا حضرت عباس اور بڑے داماد حضرت ابوالعاص بھی حریف بن کر آئے تھے۔یہ مرحلہ نہایت صبر آزما اور آزمائشوں سے بھرا تھا مگر غیرت ایمانی تمام رشتوں پر بھاری پڑی اور حضرت عبیدہ نے اپنے والد اور حضرت عمر نے اپنے ماموں کو تہہ تیغ کرکے ثابت کردیا اسلامی رشتے کے آگے ہر رشتہ کمزور ہے۔
ابوجہل کی ذلت بھری موت
پوری کائنات اسلام وکفر کا یہ معرکہ دیکھ رہی تھی ایک طرف خالی ہاتھ والے مجاہد اپنے حوصلوں کو ہتھیار بنائے ہوئے تھے۔دوسری جانب ہتھیار بند جوان میدان میں ہنکار بھر رہے تھے۔کفر کے شرارے تیزی کے ساتھ لشکر اسلام کی طرف لپکے لیکن غازیان اسلام کی تکبیروں سے ٹکرا کر پاش پاش ہوگئے۔حق وباطل کی کش مکش جاری تھی۔سردار مکہ ابوجہل نہایت متکبرانہ انداز میں شیخی بگھارتے ہوئے کہہ رہا تھا:
مَا تَنْقِمُ الْحَربُ الْعَوَانُ مِنِّی
بَازِلُ عَامَیْنِ حَدِیْثُ سِنِّیْ
لِمِثْلِ ھٰذَا وَلَدَتْنِیْ اُمِّیْ
"یہ شدید جنگ مجھ سے کیا انتِقام لے سکتی ہے؟
میں تو نوجوان طاقتور اُونٹ کی طرح ہوں جو اپنے عُنْفُوانِ شباب (بھرپور جوانی) میں ہے، میری ماں نے مجھے ایسی ہی جنگوں ہی کے لئے جَنا ہے۔”
ابھی اس کی تعلیاں چل ہی رہی تھیں کہ دو ننھے مجاہد حضرت معاذ اور حضرت معوذ اس بدبخت پر آندھی طوفان کی طرح جھپٹے اور اپنے حوصلوں سے اسے تلواروں پر لے لیا۔
وہ ابوجہل جس نے حضرت سمیہ کو نیزہ مار کر شہید کیا تھا۔جس نے پیغمبر اسلام پر تشدد کیا تھا۔جو کبر ونخوت کا پتلا بنا گھومتا تھا آج انہیں ننھے سپاہیوں کی تلواروں کی زد پر تھا۔جن کے قبیلے کو کفار مکہ نے بے جوڑ کہا تھا انہیں کی اولادوں نے مکے کے سب سے بڑے سردار کو قتل کرکے ثابت کردیا تھا:
ایمان کی طاقت کا، کیا جوڑ ہے دنیا میں
بچوں کی شمشیروں نے دنیا کو بتایا ہے
یادگار فتح
اسلامی شاہینوں کے حملوں سے کچھ ہی دیر میں کافروں کے قدم اکھڑ گئے اور اسلام کو ایک یادگار فتح حاصل ہوئی۔اس جنگ میں 70 کافر مارے گئے جن میں 22 سردار تھے۔اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے 14 مسلمانوں نے بھی جام شہادت نوش کیا۔چند گھنٹوں میں اللہ نے اسلام کو ایک عظیم فتح عطا فرمائی۔بدر کی ریتیلی زمین مسلمانوں کے جذبہ ایمانی اور بے مثال ہمت وبہادری کی گواہ بن گئی۔فتح ونصرت کے شادیانے بجاتے ہوئے لشکر اسلام مدینہ میں داخل ہوا تو یہودیوں نے دانتوں تلے انگلیاں دبالیں۔انہیں لگتا تھا کہ مسلمان بری طرح شکست کھا کر لٹے پٹے لوٹیں گے مگر وہ کیا جانتے تھے؛
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
آج بھی بدر کا میدان آواز دیتا ہے کہ جذبوں میں خلوص، دلوں میں حوصلہ، غیرت دینی اور اللہ سے تعلق مضبوط ہو تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت تمہارا مقابلہ نہیں کر سکتی۔آئیے پیغام بدر کو اپنی زندگی میں اتاریں اور اپنے رب سے تعلق اتنا مضبوط کرلیں کہ ساز وسامان کا خیال تک دل سے نکل جائے۔
تم اٹھوگے تو ساتھ دے گا خدا
سبق یہی مل رہا ہے بدر سے