علما ومشائخ اور سرکرد ہ سیاسی وسماجی شخصیات کی جانب سے تعزیت کا سلسلہ جاری
مگہر/سنت کبیر نگر: مشرقی یوپی کی ممتاز شخصیت خلیفہ الحاج صوفی سخاوت علی برکاتی علیہ الرحمہ کی اہلیہ محترمہ اور معروف درسگاہ دارالعلوم برکاتیہ موید الاسلام مگہر کے سرپرست قاری محمد اختر نسیم برکاتی کی والدہ ماجدہ بروزاتوار بعد نماز ظہر ”خانقاہ در سخی بیکس پناہ“ کے قریب ہزاروں پرنم آنکھوں سے سپر د خاک کر دیاگیا۔ہفتہ کی شام ان کا انتقال ہو گیا تھا،اتوار کی صبح سے ہی مرحومہ کے شیر پورمگہر واقع رہائش گاہ”کا شانہ برکات‘ پر صوفی صاحب کے ہزاروں مریدین اور عقیدت مند اورحضرت کے دوست احباب اور اہل مگہر پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔بعد نماز ظہر جنازے کو”کاشانہ برکات“ سے برکاتی صحن میں لایا گیا۔جہاں مرحومہ کے صاحب زادے پیر طریقت حضرت الحاج مولاناقاری اختر نسیم صاحب سجادہ نشین خانقاہ قادریہ برکاتیہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔خانقاہ کے قریب ہی ان کی تدفین عمل میں آئی۔اس موقعہ پرکاندھا دینے اور تدفین میں شریک ہونے کے لیے لوگ آگے بڑھتے گئے۔ہزواروں سوگواروں نے دیر شام تک مرحومہ کو مٹی دی۔اس موقع پر ضلع اور اطراف سے آئے ہوئے علما اور دانشوران کی شرکت ہوئی۔بعد میں قاری اختر نسیم صاحب برکاتی نے بتایاکہ والدہ مرحومہ کے ایصال ثواب کے لیے منگل کے روز صبح ۹ بجے سے قرآن خوانی اور فاتحہ خوانی کا اہتمام خانقاہ برکاتیہ پر کیا گیاہے جس میں مرحومہ کے لیے دعائے مغفرت کی جائے گی۔
فقیر گدائے اشرفی سالک دہلوی نے حضرت قاری اختر نسیم صاحب برکاتی سے بذریعہ موبائل رابطہ کر کے تعزیت کی سعادت حاصل کی تو موصوف آبدیدہ ہوگئے۔اور لرزتی آواز اور برستے آنسؤوں سے اپنی پیاری والد ہ مرحومہ ومغفورہ کا ذکر جمیل کیااور کہا کہ اگر چہ میری والدہ محترمہ اپنی عمر طبعی کوپہنچ چکی تھیں اور ایک اندازے کے مطابق ان کی عمر مبارک اسی سال سے زائد تھی،مگر پھر بھی والدہ محترمہ انتقال پر میں اتنا رویا جتنا کہ قبلہ حضور والد صاحب صوفی سخاوت علی علیہ الرحمہ کے وصال پر بھی نہیں رویاتھا۔ میری والدہ جنت کا ایک درخت تھیں جو مجھ سے بچھڑ گئیں، مولاتعالی ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہاکہ یو ں تو ہر ایک کو اپنی والدہ محترمہ عزیز ہوتی ہیں مگر میری والدہ واقعی لاکھوں میں ایک تھیں۔مرحومہ صوم وصلاۃ کی پابند تھیں۔دنیا سے کوئی مطلب نہ تھا۔اکثر خاموش رہاکرتی تھیں۔حضور والد صاحب کے زمانے میں بھی کچھ کم زیادہ یہی حال تھا۔ان کابس ایک کام تھا کہ حضور والد صاحب کی خدمت کریں اور ان کی دعا وخوشی لیں۔اور دنیاوی فضو ل گوئی سے دور ونفور رہیں۔موصوفہ نے پس ماندگان میں ایک بیٹا قاری نسیم اختر ناظم درالعلوم موید الاسلام مگہروجانشین حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ اور خلیفہ حضور سیدحسنین میاں نظمی مارہرہ شریف،چار بیٹیا ں،اور دو پوتے مولانامحمدجامی،مولانا محمد یحییٰ چھوڑے ہیں۔اللہ تعالی سب کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین
قاری نسیم اختر برکاتیصاحب نے کہا جب میری شادی ہوئی اور بہو گھر میں آئیں تو بھی ساس بہو والاکو ئی معاملہ ان کے ساتھ نہیں تھا۔بس دو وقت کی روٹی مل جائے اور اللہ اللہ کرتی رہیں۔میں نے قاری صاحب سے پوچھا کہ والدہ کے انتقال کے بعد کیا کہنا چاہیں گے،اور اپنے تمام دوست و احباب اور مریدین ومتعلقین کے نام کیا پیغام دیں گے تو قاری صاحب نے کہا کہ میری بس یہی دعا ہے کہ اللہ تعالی ہر مسلمان کو میری والدہ کی طرح والدہ عطا کرے۔اور ہر والدہ کو میری طرح فرزند عطا کرے۔انھوں نے فخریہ اندا زمیں کہاکہ چونکہ میری زندگی یہیں گھر پرمگہر میں گزری اور ہمیشہ والدہ کے ساتھ رہا،اسی لیے جی بھر کر خدمت کا موقعہ ملا،ورنہ علما وخطبا اور مدرسین کے ساتھ اکثرایسا ہو تا ہے کہ گھر سے دور رہنے کی وجہ سے تشفی بخش طریقے سے والدہ یا والد کی چاہتے ہوئے بھی خدمت نہیں کر پاتے۔ میں ا سلسلے میں اپنے آپ کوخوش قسمت سمجھتا ہوں مجھے کو ئی پچھتا وا نہیں ہے۔مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ اس کے باوجود ان کی خد مت کاایک حصہ بھی ادا نہیں کرسکا۔
مولانا ظہیر الدین برکاتی استاذ دارالعلوم موید الاسلام مگہرسے رابطہ ہوا تو انھوں نے بتا یا کہ جنازہ میں کرونا کاماحول ہونے کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں معززین علاقہ،عوام وخواص،قرب وجوار کے خوش عقید عوام خصوصا سلسلہ قاریہ برکاتیہ کے وابستگان جو ق درجوق جنازے میں شرکت کی غرض سے مگہر کی جانب روں دواں نظر آئے۔سیاسی وسماجی شخصیات کے علاوہ بڑی تعداد میں علما ومشائخ اور اساتذہ وطلبہ اور دینی وقومی رہ نما شریک جنازہ ہوئے۔اس افراتفری میں کسی کانام لکھنا ممکن نہیں اور نہ ہی شدرت درد وغم سے ان کے نام یاد ہیں البتہ کچھ نام ذہن میں آرہے ہیں جن میں سیداسید اشرف اشرفی نئی دہلی،سید بختیار حسین گونڈہ، سید سلطان حیدر نئی دہلی،مولانا عظمت علی بستی،حافظ ابو عبیدہ علیگ علی گڑھ،قاری غلام غوث الوریٰ لکھنؤ،قاری ریاض احمد بھوپال،سید حافظ عثمان کشی نگر،مولانا اشتیاق احمد برکاتی مہراج گنج،حافظ زبیر احمد برکاتی ممبئی،حافظ محمد مونس برکاتی گو رکھپور،مولانا ضیاء الدین گو رکھپور،مولانا محمد دانش آل رسول مارہرہ شریف،حافظ اظہر الدین نئی دہلی،قاری محمد عارف برکاتی کشی نگر،حافظ اقرار احمد برکاتی پڈرونہ،حافظ محمد یعقوب برکاتی بسہیا،مولاان محمد انوار احمد مصباحی خلیل آباد،حافظ حشم اللہ پرنسپل دارالعلوم بحر العلوم خلیل آباد،مولانا شمیم احمد برکاتی ڈپو ہاری،قاری بر کت اللہ خلیل آباد،قاری برکت اللہ برکاتی خلیل آباد،قاری خلاق احمد نظامی مہداول،حافظ محمد عیسی
ٰ ن
ظامی سعی بزرگ،حافظ محمد نظام الدین چھپیا،حاٖظ اکبر علی برکاتی،قاری نصرف علی برکاتی بانسی،خطیب اہل سنت مولانا ابو ذر شبلی آل رسول،دارالعلوم موید الاسلام کے موقر اساتذہ مولانا محمد ظہیر احمد برکاتی،قاری حفیظ اللہ برکاتی،قاری حبیب الرحمن برکاتی،قاری طفیل احمد برکاتی،قاری غلام نبی احمد برکاتی،قاری محمد شریف نظامی،قاری محمد ایوب برکاتی، قاری ظفر عالم برکاتی،ماسٹر محمد احمد وجملہ اسٹاف دارالعلوم ہٰذاقابل ذکر ہیں،بقیہ حضرات سے معذرت ہے۔میں اس وقت اس پوزیشن میں نہیں ہوکہ کسی کانام دفتر میں قلم بند کروں۔
فقیر گدائے اشرفی سالک دہلوی عرض گزار ہے کہ حضرت صوفی قبلہ سخاوت علی علیہ الرحمہ کی ذات بابرکات بڑی فیض رساں تھی،اللہ تعالی نے ان کے ہاتھ میں شفارکھی تھی،اور ان کی دعاؤں میں قبولیت تھی،زہد وتقویٰ اور ذکر وفکر اور تدین وامانت ان کا خاص شیوہ تھا۔آپ کا حلقہ ارادت ملک کے طول وعرض میں پھیلا ہوا ہے۔جب تک رہے ابر فیض وکرم کی طرح علاقے شمال مشرقی بھارت پر برستے رہے۔ان کے دروازے پر ہمیشہ تعویذ لینے والوں،آسیب زدوں اور سحرمیں گرفتار لوگوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی۔اس میں خود میری فیملی کے متعدد افراد شامل ہیں۔میر ابھی اس آستانے سے خصوصی لگاؤ ہے،خصوصا قاری نسیم اختر سے خاص دوستانہ ہے۔ یو پی آتا ہوں تو کوشش کرتا ہوں کہ ملاقات ہوجائے۔پروگرام کے ایام میں جب بھی گورکھوپر لکھنؤ روڈسے گزر ہوتا ہے،تو ضرور حاضر ہوتا ہوں۔حضرت صوفی صاحب قبلہ کی غالباصرف ایک بار ان کے گھر پر زیارت کی تھی اور ایک بارممبئی میں مسجد رضا کرلامیں حسن اتفاق سے ملاقات ہوئی تھی۔دارالعلوم برکاتیہ مگہرکے ذریعے علمی فیضان سے خطہ ہمالیہ کو مالال کیا اور روحانی تصرفات سے لوگوں کی روحانی تشنگی دور کرنے کا سامان کیا۔آپ کے چاہنے والے ہزاروں میں تھے،اور اسی نسبت سے عورتوں میں والدہ محترمہ سے عقیدت رکھنے والی ہزار ہاہزارخواتین اسلام شامل ہیں۔ان کے وصال سے ان تمام خواتین اسلام کا بظاہر سہارا ٹوٹ گیا۔اوروہ سب کی سب بے حد رنجیدہ ہیں
قاری نسیم اختر صاحب برکاتی نے مزید کہا کہ الحمد للہ پورے خطہ شمال مشرقی ہند میں مریدین ومتوسلین میں قرآن خوانی،ایصال ثواب اور تعزیت رسانی کاسلسلہ جاری ہے،مزید اس سلسلے کو آگے بڑھانے کی درخواست کروں گا۔میں فردا دفردا سب کا شکریہ نہیں ادا کرسکتا،میں اسی رپورٹ کے ذریعے اپنے تمام احباب اور خیر خواہان کاشکریہ اد اکرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی سب کی والدہ محترمہ کاسایہ کرم ان کے سروں پر قائم ودائم رکھے۔اورہم اپنے لیے یہی د عاکریں گے کہ اللہ تعالی ہمیں والدہ کے وصال کے بعد حضور والد صاحب کے چھوڑے ہوئے مشن،دارالعلوم موید الاسلام اور خانقاہ برکاتیہ کی خد مت اور اس کی تعمیرو ترقی کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔آمین
جو لوگ جنازے میں شریک نہیں ہوسکے انھوں نے زبانی اور فون کے ذریعے اپنی قیمتی تعزیت پیش کرکے خراج عقیدت پیش کیا۔ہم ان تمام احباب کے ممنون ہیں۔ان میں کچھ نام جو یاد آرہے ہیں،درج ذیل ہیں۔حضور وقار ملت حضرت الشاہ سید سبطین حیدر میاں قادری برکاتی زیدی سجادہ نشین خانقاہ مارہرہ مطہرہ،والدہ محترمہ قبلہ حضور وقار ملت قبلہ،پھوپھی جان قبلہ حضور وقار ملت،مولانا محمد سلمان قادری خلیفہ قبلہ حضور وقار ملت اورئی،مولانا معین الدین صدیقی خلیفہ حضور سید ملت بھانڈوپ،خطیب اہل سنت مفتی محمد شفیق لقادری حنفی ممبئی،قاری محمد ایوب برکاتی خلیفہ قبلہ حضور وقار ملت خطیب وامام جونی مسجدمدن پورہ ممبئی،مولانا محمد صابر براکتی استاذ دارالعلوم حنفیہ رضویہ قلابہ،مولانا زاہد علی برکاتی خلیفہ قبلہ حضور محبوب الاولیاووقار ملت وامام مسجد نالہ سپارہ ممبئی،حافظ صغیر احمد برکاتی خلیفہ قبلہ حضور محبوب الاولیا وخطیب وامام مسجد بدر اندرا نگر،ممبئی،حافظ شہاب الدین برکاتی خلیفہ قبلہ حضور محبوب الاولیا چمبور، صوفی ضیاء الدین (جناب جی)خلیفہ قبلہ حضور محبوب الاولیا بھانڈوپ ممبئی،مولانا نصیر الدین اشرفی دھاراوی ممبئی،مولانا اعجاز احمد برکاتی خلیفہ قبلہ حضور ووقار ملت ممبئی،سید محمواحمد برکاتی ممبئی،امتیازاحمد برکاتی ممبئی،مولانا ممتازحسین ازہرپرنسپل جامعہ آل رسول مارہرہ شریف،مولانا منصور عالم برکاتی جامعہ آل رسول مارہرہ شریف، مولانا حمد حسین برکاتی جامعہ آل رسول مارہرہ شریف،قاری شرف الدین برکاتی جامعہ آل رسول مارہرہ شریف،حافظ ماجد علی برکاتی پربھنی،مہا راشٹرا،ڈاکٹر کنیز فاطمہ برکاتی ایم ڈی نو ر ہاسپیٹل،ممبئی۔دیگر احباب میں فیاض احمد برکاتی چیک مینگلور،عمر خان برکاتی،ممبئی،ابرار احمد لعل خان برکاتی ممبئی،عاقل خان برکاتی ممبئی،شمس الہدیٰ برکاتی ممبئی،حاجی توفیق سائن ممبئی،ابرار بھائی سائن ممبئی،گلزار برکاتی سائن ممبئی،شیر عالم سائن ممبئی، نے اپنی بے پناہ لگا واورمحبت کااظاہر کیا اور اپنے ہر طرح کے تیعاون کایقین دلایا۔اللہ تعالی ان تمام احباب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔آمین بجاہ حبیبہ النبی الکریم وآلہ واصحابہ اجمعین
فقیر گدائے اشرفی سالک دہلوی حضرت قاری صاحب کے درد وغم میں برابر کاشریک ہوے م اور ان کی والدہ کی وفات اور ان کوپہنچنے والے رنج والم سے میں ۶۰۰۲ ء میں اپنی والدہ کے وفات حسرت آایت کو یاد کرتاہوں۔ انشاء اللہ تیجہ کے موقعے پر جامعہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی،نئی دہلی میں بھی میرے زیر اہتمام قرآن خوانی وایصال ثواب کا اہتمام ہوگا۔میری درخواست ہے کہ حضرت کے مریدین کے علاوہ بھی جملہ احباب اہل سنت مرحومہ کے لیے دعائے مغفرت کااہتمام کریں۔
نوٹ: مرحومہ کے وصال اور تدفین کی خبراردو روز نامہ راشٹریہ سہارا گورکھپور نے نمایاں طور پر شایع کیاہے۔ابتدائی معلومات اسی اخبار سے لی گئی ہیں۔پڈرونہ میں بھی انجمن اتحاد ملت گلہریا(پڈرونہ)میں پوسٹ آفس کے پاس ایک ہال میں تعزیتی نشست کااہتمام کیاگیا۔جس میں قار ی توقیر احمد برکاتی،قاری غلام نبی نظامی،مولانا حشمت رضا مصباحی،شریک ہوئے۔
شریک درد وغم: (فقیر گدائے اشرفی) مقبول احمد سالک مصباحی
بانی و مہتمم جامعہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی