تحریر: فیاض احمد برکاتی مصباحی
لگاتار تیسرا رمضان ہے جس میں ملک کا مسلمان بے چینی ، اضطراب اور کرب کی زندگی جی رہا ہے ۔ دو رمضان تو خدائی آفات کی زد میں رہے جب کہ تیسرا رمضان ظالم کے شکنجے میں کسا ہوا گزر رہا ہے ۔ امید یہ تھی کہ یہ رمضان صبروسکون ، خوشی وشادمانی کے نغمے سنائے گا لیکن ہوا کچھ یوں کہ پورے ملک میں بے چینی وبد امنی نے مسلمانوں کی زبانیں گنگ کردی ہیں ۔ رام نومی کے موقع پر جگہ جگہ سازش کے تحت فسادات برپا کئے گئے اور اب سازش کے اگلے حصے پر ایمان داری کے ساتھ عمل کیا جارہا ہے ۔ ملک میں نفرت کی چنگاری آج سے نہیں بلکہ صدیوں سے سلگ رہی تھی ، دلوں میں دبی ہوئی چنگاری کو اب شہ ملنے لگی ہے اور اب وہی چنگاری شعلوں کی شکل میں ملک کے مختلف حصے میں دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ قرآن پاک کی سورہ مائدہ کی آیت نمبر 82 ، میں اللہ تعالی نے اس کی طرف واضح طور پر متوجہ کیا ہے کہ ” آپ یقینا ایمان والوں کے حق میں بلحاظ عدوات سب لوگوں سے زیادہ سخت یہودیوں اور مشرکوں کو پائیں گے اور آپ یقینا ایمان والوں کے حق میں بلحاظ محبت سب سے قریب تر ان لوگوں کو پائیں گے جو کہتے ہیں بے شک ہم نصاری ہیں ۔ یہ اس لیے کہ ان میں علماء شریعت بھی ہیں اور عبادت گزار گوشہ نشیں بھی ہیں اور وہ تکبر بھی نہیں کرتے ۔” اس آیت کی روشنی میں اگر دیکھیں تو مشرکین کی اہل توحید سے نفرت ہماری نگاہوں کے سامنے اشکارا ہوجاتی ہے ۔ ساتھ ہی برہمنی چال بازی کی وجہ سے اہل شرک نے ہمیشہ اہل توحید کے افراد کا استعمال مہرے کی طرح کیا ہے ۔ غالبا آپ سب کو گجرات کی عشرت جہاں کا کیس یاد ہو ، جو گجرات میں مسلمانوں کے خلاف بہت ہی اونچی لیول کی مخبرہ تھی ، لیکن ان کے آقاؤں نے بر وقت اس کا ایسا استعمال کیا کہ عقل مندوں کے ہوش اڑ گئے ۔ ابھی ابھی دہلی کی جہانگیر پوری میں جو کچھ ہورہا ہے اور جس مجرم کو اس فساد کا کلیدی مجرم ٹھہرایا گیا ہے وہ بھی ایک مخصوص پارٹی کا علاقائی مہرہ تھا ۔ اہل بصیرت کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ آپ جس نظام پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں اور انصاف کی امید لگائے ہیں اگر قرآن کی ہر آیت پر پختہ ایمان ہے تو یقین کرلیجیے کہ ابھی تک آپ دھوکے میں تھے ۔ ملک میں جمہوریت ہے ہی نہیں ہے ، جمہوریت کا ناٹک چل رہا ہے وہ بھی اس وقت تک چلے گا جب تک ایک مخصوص کمیونیٹی کے افراد کو اس سے فایدہ پہونچتا رہےگا ۔
آزادی سے پہلے بھی ہمارے ملک میں فسادات ہوئے اور آزادی کے بعد بھی ہوئے ، ہر فساد کی تاریخ اور پس منظر کا مطالعہ کریں تو ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے بہت ہی منظم طریقے سے ہوتا ہے ۔ مہینوں اس کی تیاری کی جاتی ہے ، پورے ملک کے مسلمانوں کا زمینی مطالعہ کیا جاتا ہے کہ کہاں مسلمان معیشت کے اعتبار سے مضبوط ہیں ؟ یا مسلمان اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کی ڈگر پر ہیں ؟ ۔ مسلمان آبادی کے اعتبار سے کس علاقے میں کمزور ہیں ، مسلمانوں کی دوکانیں کہاں کہاں ہیں اور ان میں کون کون سی دوکانیں انشورنس شدہ ہیں اور کن دوکانوں کی آمدنی زیادہ ہے ، مسلمانوں کی کون سی مارکیٹ ان کی ابادی سے دور ہے ۔ باحوصلہ مسلمان کس علاقے میں رہتے ہیں ۔ نہتے ، کمزور ، مزدور پیشہ مسلمان کس آبادی میں بودوباش اختیار کرتے ہیں ؟ ایک خاص تنظیم کے خاص افراد سال بھر ، بلکہ کئی کئی سال تک اس کا سروے کرکے تنظیم کے ہائی کمان تک اس کی رپورٹ دیتے ہیں ۔ اس کے بعد کرایے کے قاتل ، علاقے کے اوباش ، نشیڑھی اور سماج میں اراجکتا پھیلانے والوں کو بہت ہی اچھی قیمت پر افراد مہیا کرانے کی ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے ۔ جن علاقوں کو فساد کا شکار بنانا ہوتا ہے وہاں ہر طرح کے ظالم سفاک اور نفرت میں ڈوبے ہوئے افراد پہلے سے ہی پہونچائے جاتے ہیں جو کئی دنوں تک گھوم گھوم کر پورے علاقے کا جائزہ لیتے ہیں ۔ ہم جن دنوں میں بے خوف سورہے ہوتے ہیں ہمارے خلاف سازش کے تانے بانے بنے جاتے ہیں ۔ اس کو جھوٹ رنگ و روغن میں لپیٹ کر میڈیا سے سند جواز فراہم کی جاتی ۔ اس کی طرف بھرپور طریقے سے اشارہ قدرت اللہ شہاب نے اپنی خود نوشت سوانح ” شہاب نامہ ” میں کیا ہے ۔ موجودہ وقت میں اس میں چند چیزیں جوڑ دی گئی ہیں ۔ جیسے کمیرہ باز کا ایسی پوزیشن سے ویڈیو بنانا جس میں ان کے خلاف کوئی ثبوت نہ ہو ، مسلم علاقوں میں غیر قانونی اشیاء کو پہلے سے چھپادینا ۔ چھتوں پر پٹرول سے بھری بوتلیں پھینکنا تاکہ بروقت اس کی بھی ویڈیو بناکر دیکھائی جاسکے ۔ ایسے مواقع پر کچھ پٹرول پمپ سے بالکل مفت پٹرول بانٹا جاتا ہے ، اس کے پیسے کون ادا کرتا ہے اس کی جانکاری بھی علاقے میں حاصل کرنا ضروری ہے ۔اس سال بھی مختلف جگہوں پر پٹرول بوتل میں بھر بھر کر بانٹے گئے ہیں ۔یہ سارے کارہائے نمایاں انجام دینے کے لیے اور خرافاتی دماغ سے چکمہ دینے کے لیے ایک خطرناک تنظیم کی خدمات اس وقت حاصل کی گئی ہیں ۔ اگر آپ غور کریں گے تو آپ کو ہر جگہ اسرائیلی ماڈل نظر آئے گا ۔ پتھر پتھر چلاکر مسلمانوں کو مجرم بنانا پھر ان کے مکانات منہدم کرنا یہ اسرائیلی پالیسی ہے جو یہودیوں نے اپنے بچھڑے ہوئے خاندان برہمن کو اس ملک میں آزمانے کے لیے کہا ہے ۔ ملک میں اب نہ قانون ہے اور نہ ہی قانونی محافظ انڈین پولس قانون کے تئیں ایمان دار اور فادار ہے ۔ اس لیے مسلمانوں کو کسی سے بھی بھلائی کی توقع نہ رکھ کر اپنی منزل خود طے کرنی ہونگی ۔ مسلمانوں کا کوئی رہنما بھی نہیں ہے نہ مذہبی اور نہ سیاسی اس لیے اپنی جان ، مال ، عزت وآبرو اور جائیداد کے تحفظ کے لیے خود کو ہی اپنا رہنما بنانا ہوگا ۔ آزادی کے بعد سے لے کر اب تک ایک اندازے کے مطابق تقریبا ڈیڑھ لاکھ مسلمان فسادات میں شہید ہوئے ہیں ۔ ایک خاص بات نوٹ کرنے کی ہے کہ مسلم اکثریتی علاقے میں پہلے قتل وغارت گری کرنے کی ان میں ہمت نہیں ہوا کرتی تھی لیکن اب یہ مسلم اکثریتی علاقے کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کرنے لگے ہیں ۔ مقصد ہے ہر طرف خوف وہراس پھیلانا۔ حوصلے ان لوگوں سے مل رہے ہیں جو پہلے فسادی تھے اور اب صاحب منصب ہیں ۔ اکثریتی طبقے کو یہ باور کرانا کہ تم جب چاہو جس کی چاہو عزت وآبرو اور جان ومال سے کھیل سکتے ہو ۔ گجرات کا مشہور فساد بڑا بھیانک تھا ، اس کے لیے بھی مہینوں تیاری ہوئی تھی اس کے باوجود مسلم اکثریتی علاقوں پر فسادی حملہ آور نہیں ہوسکے تھے ۔ ابھی کے حالیہ فسادات میں بھی دیکھا گیا ہے کہ جب مسلم نوجوان مقابلے پر آئے ہیں تو فسادی اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر دم دبا بھاگ نکلے ہیں ۔ اصل میں ان کو یقین دلایا جاتا ہے کہ تم اپنی من مانی کروگے کوئی مقابلے میں نہیں آئے گا اگر آئے گا تو قانونی محافظ تمہارے ساتھ کھڑے ہونگے ۔ پیڑ پودوں کے سایوں سے ڈرنے والے شیر دلوں کا مقابلہ کبھی نہیں کرسکتے ۔ بس ہمارے یہاں حکمت عملی کی کمی ہے اور ایمان نہایت کمزور ہوتا جارہا ہے ۔ یہ تو یقین رکھنا چاہیے کہ جو کچھ ہورہا ہے اس میں اللہ کی مرضی شامل ہے ۔ آخر ایسا کیوں ہورہا ہے یہ سوال ہر مسلمان کے دماغ میں ہونا چاہیے ۔؟ اس کا جواب بھی مسلمانوں کو ہی ڈھونڈنا ہے اور اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے یہاں بھی صرف بھیڑ ہے دین پر عمل کرنے والے افراد دس فیصد بھی نہیں رہ گئے ہیں ۔ جھارکھنڈ ، گجرات ، مدھیہ پردیش ، دہلی بہار سے جو ویڈیوز آئی ہیں ان میں ایسے افراد بھی بڑی تعداد میں دکھائ دیے ہیں جو رمضان المبارک میں اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی روزہ سے نہیں تھے ۔ مساجد کے آس پاس ، نکڑ اور گلیوں میں رات رات بھر بیٹھ کر برائیوں کو بڑھاوا دینے والے مسلم نوجوان ہی ہوتے ہیں ۔ جب دین سے دوری ہوگی ، گناہ گار جری ہونگے ، اللہ کا قانون کھلے عام توڑا جائے گا ۔ احکام الٰہی کا مذاق اڑایا جائے گا تو اللہ ظالموں کو مسلط کرکے گنہ گاروں کو کیفر کردار تک ضرور پہونچا ہے گا ۔
مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے ؟
سب سے پہلے تو مسلمانوں کو اجتماعی توبہ کرنا چاہیے ۔ اللہ کے جس دین کو انہوں نے امانتا قبول کیا ہے اس کا پورا پورا حق ادا کرنا چاہے ۔ اپنے بچوں کو دین کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اللہ سے قرآن سے ، رسول ، دین سے ، علماء سے بے انتہا محبت ہونی چاہیے ۔ آپسی اتحاد پر زیادہ توجہ اور زور دینا چاہیے ۔ مسلم سماج میں ہر اس مسائل کو چھوڑنا ضروری ہوگیا جس سے اسلامی اتحاد کمزور ہوتا ہے ۔ بچوں کی اعلی تعلیم کا انتظام ہونا چاہیے ۔ اگر مسلمان چاہ لیں اور ایک ہدف متعین کرکے کام کریں تو پندرہ سے بیس سالوں میں ملک کا منظر نامہ بدل سکتے ہیں ۔ مسلمانوں کو خود ہی مسلمان بننا ہوگا ، ان عذاب الٰہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے جو مسلمانوں کو مسلمان بنائے ۔ اپنے ارد گرد پر گہری نظر رکھنی ہونگی ۔ آپسی اختلافات کا اسلامی طریقے حل ڈھونڈنے کی کوشش کرنی ہونگی ۔ جو لوگ مسلمان ہیں لیکن اسلام اور مسلمان کے خلاف سوچتے ہیں یا بولتے ہیں ان کی اصلاح کرنی ہونگی ۔ بالکل خاموشی کے ساتھ مسلمانوں کو اپنے بچوں کو بڑی حکمت سے ملک کی ہر ریاست میں پولس میں اور انڈین فورس میں شامل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی ۔ اب یہ باتیں صرف لکھنے اور سوچنے کی نہیں رہ گئی ہیں بلکہ اس پر عمل ہونا اور خود عمل کرنا ضروری ہے ۔ کچھ ریاستوں میں اس کی طرف پہل ہوچکی ہے اور نتائج بھی اچھے آرہے ہیں ۔ مسلمان اپنی کسی بھی کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹنے سے بچیں ۔ یہ نہایت احمقانہ حرکت ہے ہے ۔ ایک اور بات یہاں ذہن نشیں کرلینی چاہیے کہ فسادیوں کا جو ٹولہ ہم پر حملہ آور ہوتا ہے وہ بالکل نکموں اور آوارہ بچوں کا ٹولہ ہوتا ہے ۔ ان بچوں کی عمر بارہ سال سے بائس سال تک ہوتی ہے ۔ یہ زیادہ مزدوری کرنے والوں کے بچے ہوتے ہیں ان کے پاس نہ تعلیم ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی امنگ۔ ان بچوں میں پنچانوے فیصد نشے کے عادی ہوتے ہیں ۔ یہ باتیں اس لیے بتا رہاہوں کہ اگر غور کریں تو اس کے پس پردہ مسلمانوں کا شاندار مستقبل ان کا انتظار کررہا ہے ۔ ظالم طاقت کے نشے میں دھت ہے ، ظلم وظغیان نے اس کی آنکھیں بند کررکھی ہیں اگر مسلمان صبر وسکون ، محنت وجگر کاوی سے چاہیں تو سب کچھ اپنے حق میں کرسکتے ہیں ۔ پولس انتظامیہ اور فورس کو اپنا نصب العین بنائیں ۔ پولس اور فورس کی چھوٹی بڑی ہر سروس قومی مفاد میں ہے ۔ ہمارے بچوں کے دماغ میں یہ بات ڈال دی گئی ہے کہ ان شعبوں میں آپ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے شاید اسی لیے مسلم نوجوان رات بھر ببجی اور فری فائر کھیلتا ہے اور دن میں گیارہ بجے تک سوتا ہے ۔ دوسری طرف فسادی گروپ کے جو ہوشیار ماں باپ ہیں ان کے بچے فجر سے پہلے ہی روڈ پر دوڑ رہے ہوتے ہیں ۔ اگر مسلم نوجوان انڈین فورس اور پولس کی تیاری کریں تو جن کی قسمت میں سروس ہوگی وہ تو یقینا کامیاب ہونگے اور جن کی قسمت میں نہیں ہوگی کم سے کم وہ صحت مند ، طاقت ور اور توانا تو رہیں گے ۔
جن دنوں فسادات ہوتے ہیں اس سے پہلے ہی علاقے کے مسلم نوجوان چاق وچوبند ہو جائیں ۔ ہر جگہ کمیرہ لے کر کھڑے رہیں ۔ خالص مسلم علاقوں سے کوئی فسادی جلوس نہ گزرے اس کے لیے تھانے میں درخواست دیں ۔ اپنی درخواست کو وائرل کریں ۔ اکیلے باہر نکلنے سے پرہیز کریں ۔ اگر کہیں کوئی گڑبڑی دکھ جائے تو سب سے پہلے پولس کو فون کریں ۔ فون کرتے وقت کی بھی ویڈیو بنائیں ۔ تاکہ بے شرم برہمنوں کے پاس آپ کے خلاف کوئی ثبوت نہ رہے ۔ یہ برہمنی نظام جھوٹ پر مبنی ہے ۔ سچ سے ان کو کتنی تکلیف ہوتی ہے میڈیا کے مباحث سے اندازہ ہوتا ہے ۔ جو نظام جھوٹ پر مبنی ہے ، چھل کپٹ جس کی طاقت ہو ، ظلم وطغیانی جس کی سرشت میں داخل ہو ،اس نظام کا خاتمہ بھی بہت جلد ہوجاتا ہے ۔ ان شاءاللہ یہ ظالمانہ نظام ہمیشہ ہمیش کے لیے نیست ونابود ہوگا ۔
سوشل میڈیا کا ایک پوسٹ مفاد عامہ کی غرض سے کچھ جزوی تبدیلی کے ساتھ پیش کررہاہوں ۔ امید ہے ان کار آمد باتوں پر نوجوان نسل توجہ دےگی ۔
مسلمان اپنی حفاظت کا سامان خود کریں جیسا کہ کچھ جگہوں پر ابھی تک دیکھنے میں آرہا ہے اسی وجہ سے سنگھی بوکھلائے ہوئے ہیں ۔ اجتماعیت پیدا کریں ، اگر کسی مسلمان پر حملہ ہوتو سب مل کر دفاع کریں ، اپنی باری کا انتظار نہ کریں ، دین سے قربت پیدا کریں ، مساجدیں آباد کریں ، ملی جلی ابادی سے ہجرت کرجائیں ۔ مسلم اکثریتی والے علاقے میں آباد ہونا شروع ہو جائیں ، کیونکہ ابھی تک سنگھیانہ طاقت کے سپورٹ کے بعد بھی بزدل فسادیوں میں مسلم علاقوں پر حملہ آور ہونے کی ہمت پیدا نہیں ہے ۔ اپنے بچوں کو مارشل آرٹ سکھائیں ، بوڑھے پرانے لوگ جو لاٹھی اور تلوار بازی کے کرتب سے واقف ہیں وہ مسلم جوانوں کو ضرور لاٹھی اور شمشیر زنی سکھائیں ۔
اپنے کاروبار کا انشورنس ضرور کرائیں ، اکثر ان دوکانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جس کا انشورنس نہیں ہوتا ہے ۔ مسلم نوجوان اپنی زندگی کا بیمہ بھی کرائیں تاکہ شہادت کے بعد حکومت کو اس کی قیمت چکانی پڑے ۔ حکومت کی خالی زمین پر قبضہ کرنے سے پرہیز کریں ۔ اگر مکان بنا چکے ہیں تو کسی طرح بھی قانونی طور پر خود کو مضبوط کریں ۔ وقف کی جو جائیدادیں خالی پڑی ہیں اس پر غریب مسلمانوں کو بسائیں اور ان کے ذمہ کچھ کرایہ لازم کردیں ۔ وقف کے ذمہ داران کو اس پر غور کرنا ہوگا ۔ غریب مسلمان دردر کی ٹھوکر کھارہے ہیں اور مسلمانوں کی وقف کی جائداد یا تو برباد ہورہی ہے یا اس پر زمینی مافیا قابض ہوچکے ہیں ۔ خاص کر دہلی ، مہاراشٹرا ، کرناٹک اور مدھیہ پردیش وغیرہ میں ۔ وقف بورڈ کو خالص مسلم اور آزاد ادارہ بنانے کی کوشش کریں ۔
تعلیم پر زیادہ سے زیادہ توجہ دیں ، دین سے بے اعتنائی برتنا چھوڑ دیں ۔ لاکھ طاقت ، دولت ، اتحاد ، تجارت اور تعلیم کے بعد بھی اگر مسلمان دین دار نہیں ہے تو وہ اللہ کے عذاب سے بچ نہیں سکتا ۔
شتر مرغ بننے والے مسلمان خوش فہمی کی سزا خود بھگتیں گے ۔ دین سے بے اعتنائی، بے توجہی اور دوری کی سزا بھی مختلف شکل میں ملے گی ۔ خاص کر رات میں گلیوں اور نکڑوں پر بیٹھ کر اچھوتانہ حرکت کرنے کی سزا پیروں تلے سے زمین کھسکا کر ہی دی جائے گی۔