مضامین و مقالات

کپڑے ہی سب کچھ نہیں ہوتے !!

ازقلم: غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی

یادش بخیر!
زمانہ طالب علمی تھا، ہمارے عزیز دوست مولانا مستفیض احمد نعیمی کے وطن مالوف (تیلی والا، دہرادون) میں ایک جلسہ ہونے طے پایا۔نظامت کی تہمت ہمارے سر منڈھی ہوئی تھی۔دوران پروگرام اسٹیج پر ایک عظیم الجثہ شخصیت وارد ہوئی، اونچی ٹوپی، چمچماتے کپڑے اور دھانسو پرسنیلٹی!
ہم نے احتراماً نمایاں جگہ پیش کی، مستفیض صاحب نے کہا کہ کچھ دیر ان کا خطاب کرادیں۔یوں تو موصوف ہمارے لیے سراسر اجنبی اور نامانوس شے تھے مگر ان کی وضع قطع سے ہمیں یہ گمان ہوا کہ زیادہ نہ سہی کچھ نہ کچھ تو ہوں گے ہی، اس لیے دوران تعارف ان کا دھانسو ڈیل ڈول اور زرق برق لباس ذہن میں رہا اس لیے ٹھیک ٹھاک سا تعارف ہو ہی گیا جو کہ نہیں ہونا چاہیے تھا، خیر! موصوف گویا ہوئے تو؛

تا مرد سخن نگفتہ باشد ۞ عیب وہنرش نہفتہ باشد

کا معاملہ ایک بار پھر درست ثابت ہوا، خطیب صاحب نے لمبی سانس لیکر جو ہُنکار بھری تو اس ہُنکار میں سارا دَم "شان خطابت” نامی اس کتاب کا نظر آیا جو مبتدی طلبہ کے لیے خطابت کی پہلی کتاب تصور کی جاتی ہے۔ادھر موصوف اپنی جسامت کے مطابق گرج رہے تھے ادھر ہم اپنے الفاظ ضائع ہونے پر کف افسوس مَل رہے تھے، بات جب حد سے گزرنے لگی تو بہ مجبوری ہمیں "سبحان اللہ، شان خطابت” کا آوازہ بلند کرنا پڑا، جسے سنتے ہی موصوف کی گھن گرج کو قرار آیا یوں ہماری اور سامعین کی جان اس ناگہانی خطیب کی برق باری سے سلامت رہ پائی۔

سیانے کہتے ہیں کہ انسان کو اپنی شخصیت کے مطابق ہی لباس کا انتخاب کرنا چاہیے ورنہ ایسے حادثات ہونے کا ہمیشہ ڈر بنا رہتا ہے۔ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ حادثات اِسی دور میں واقع ہورہے ہیں؟ ان حادثات کی تاریخ بڑی قدیم ہے۔اسلاف کے زمانے میں بھی ایسے افراد کی کمی نہیں تھی جو ڈھول کا پول بنے گھومتے تھے اور لوگوں کو مشقت میں ڈالا کرتے تھے۔

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ اپنی درس گاہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔لگاتار بیٹھنے کی وجہ سے گھٹنے میں قدرے درد محسوس ہورہا تھا اس لیے آپ نے آرام لینے کے لیے پیٹھ دیوار سے لگا دی اور پاؤں پھیلا دئے تاکہ درد میں کچھ افاقہ ہو۔ابھی پاؤں پھیلائے ہی تھے کہ ایک شخص سامنے سے آتا دکھائی دیا۔سر پر اونچا عمامہ، جسم پر زرق برق کپڑے اور چال بڑے کر وفر والی، دیکھنے میں بڑا بارعب معلوم ہورہا تھا۔طلبہ نے اس کے لیے جگہ بنائی اس طرح خراماں خراماں چلتے وہ امام اعظم کے قریب جا بیٹھا۔اس کی وضع قطع اور خوش لباسی کے پیش نظر آپ نے لحاظاً پاؤں سمیٹ لیے، گمان تھا کہ شاید کسی درس گاہ/خانقاہ کا شیخ وعالم ہوسکتا ہے۔سبق ختم ہوا تو طلبہ کے سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوگیا۔اس شخص نے بھی ہاتھ اٹھا کر ایک سوال پوچھنے کی اجازت چاہی، آپ نے اجازت عطا کی تو موصوف گویا ہوئے؛
شیخ، مغرب کی نماز کا وقت کب ہوتا ہے؟
آپ نے فرمایا؛ جب سورج غروب ہوجائے۔”
اس پر آنجناب نے اپنی "دانائی” کا اظہار کرتے ہوئے کہا؛ اگر رات ہوجائے اور سورج غروب ہی نہ ہو تو؟

اتنا سن کر امام اعظم مسکرا پڑے اور بولے؛
چلو بھئی ابو حنیفہ! پاؤں پھیلانے کا وقت آگیا۔”
اس طرح آپ نے ابتداً اس کی خوش لباسی سے جو تاثر لیا، پاؤں پھیلا کر اس کی تلافی کردی کہ اس”عقل مند” کو کون سمجھاتا کہ سورج غروب ہوئے بغیر رات کا آنا کس طرح ممکن ہے؟

زمانہ گزر گیا مگر آج بھی ایسے ڈھول کے پول پائے جاتے ہیں۔اِس زمانے میں تو ان کی بڑی بہتات ہوگئی ہے۔زمانہ سابق میں امن تھا کہ یدا کدا ہی ایسے نمونے نظر آتے تھے لیکن اس دور زوال میں ہر دوسری گلی اور اسٹیج پر علما و مشائخ کا لباس پہنے کتنے ہی خالی ڈبّے گھوم رہے ہیں اور لوگوں کو دام فریب کا شکار بنا کر ان کی دنیا و آخرت سے خوب کھیل رہے ہیں، اس لیے عوام کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کپڑے ہی سب کچھ نہیں ہوتے کپڑوں کے اندر بھی جھانک کر دیکھا کریں تاکہ معلوم ہوجائے کہ خطیب کی شکل میں جاہل اور شیخ کی شکل میں رَنگا سِیار تو نہیں گھوم رہا ہے۔

ہیں راہزن بھی ابھی رہبری کے پردے میں
سیاہ دل ہیں اسی روشنی کے پردے میں

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے