ازقلم: حُسین قُریشی، بلڈانہ مہاراشٹرا
یوں تو رمضان المبارک کا ہر لمحہ بڑا ہی بابرکت، عظمت اور رحمت والا ہوتا ہے۔ اللہ عزوجل اس ماہ میں اپنے بندوں پر بے شمار رحمتوں اور مغفرتوں کی بارش کرتا ہے۔ اسی کے ساتھ بندوں کے نیک اعمال کی جزا میں اضافہ کردیتا ہے۔ تاکہ مسلمانوں کے نامہ اعمال میں نیکیوں کا ذخیرہ وسیع ہوجائے۔ اس ماہ میں بندوں کی مغفرت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فضل تو دیکھیے کہ وہ اپنے عاجز ، گناہ گار ، سیاہ کار اور نافرمان بندوں کو طرح طرح سے بخشش کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ اس ماہ مبارک کی شان اس بات سے بھی مزید دوبالا ہو جاتی ہےکہ قرآنِ مجید کا نزول اسی ماہ میں ہوا۔ قرآن مجید رمضان المبارک کی ایک عظیم شب میں روحِ آسمان میں اتاراگیا۔ پھر وہاں سے تھوڑا تھوڑا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتا رہا۔ اور تقریباً ٢٣ سالا قلیل مدت میں مکمل نازل ہوگیا۔ اس رات کو تمام سال کی راتوں پرافضلیت حاصل ہے۔ اس رات کو” شبِ قدر” سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جو ہزار راتوں سے افضل ہے۔ چنانچہ اللہ ربّ العزت قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے کہ ” بے شک میں نے اسے ایک با برکت رات میں اُتارا ہے۔ بے شک میں ڈر سنانے والا ہوں۔” (الدخان، 44: 3) مزید ایک اور سورت میں اللہ ربّ العالمین کا ارشاد ہے کہ "بے شک میں نے قرآن کو شبِ قدر میں اتارا۔ اور آپ کیا سمجھے ہیں کہ شبِ قدر کیا ہے؟ شبِ قدر فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس رات میں فرشتے اور روح الامین یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام اپنے رب کے حکم سے خیر و برکت کے ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں۔ یہ رات سے طلوعِ فجر تک سلامتی کے ساتھ رہتے ہے۔ (القدر) یہ ہماری خوش قسمتی ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسی عظیم بخشش والی رات عنایت کی۔ ہمیں ضرور بہ ضرور اس رات کو تلاش کرنا چاہیے۔ اور خوب بڑھ چڑھ کر عبادت و ریاضت کرنا چاہیے۔ تاکہ ہم کامیاب ہوسکے۔
شبِ قدر کی فضیلت حدیث میں بھی متعدد مرتبہ آہی ہے۔ ایک حدیثِ مبارکہ کا خلاصہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ شبِ قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں یعنی اکیسویں، تیئسویں ، پچیسویں ، ستائیسویں یا انتیسویں شب میں تلاش کرو۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ جس نے شبِ قدر میں حالت ایمان میں ثواب کی غرض سے قیام کیا اُس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اور جس نے ایمان کی حالت میں ثواب کی غرض سے رمضان کے روزے رکھے اُس کے بھی سابقہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ اور ایک جگہ ارشادِ مبارک ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ کہ تمہارے پاس رمضان المبارک کا مہینہ آیا۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض کیئے ہے۔ اس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ اورسرکش و شریر شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس ماہ میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار راتوں سے افضل اور بہتر ہے، جو اس رات کی خیرات و برکات سے محروم کر دیا گیا وہ ہر خیر سے محروم کر دیا گیا۔‘‘ لہذا ہمیں اس بابرکت و رحمت والی رات کو تلاش کرنا چاہیے۔ اورنماز،تلاوت ، ذکر و اذکار کے ساتھ پوری امت کے لئے خوب دعاؤں کا احتتام کرنا چاہیے۔ ہم پوری رات عبادت میں گزارے۔ شبِ قدر صرف امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی عطا کی گئی ہے۔ اس سے پہلے کسی بھی امت کو یہ عظمت والی ، مغفرت والی، برکت والی اور خیر والی رات عطا نہیں کی گئی۔ یہ ہم عصیان پر اللہ عزوجل کا بے انتہائی رحم و کرم ہے جس نے صرف ہمارے لئے اس رات کو عطا کیا۔ چنانچہ ایک حدیثِ مبارکہ میں بتایا گیا ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ "حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ "بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے لیلۃ القدر میری امت ہی کو عطا کی ہے ان سے پہلے کسی امت کو یہ نہیں ملی۔” ہم اس رات میں بڑی ہی دل جعمی کے ساتھ ، پورے خلوص کے ساتھ اور پوری عاجزی و انکساری کے ساتھ عبادت و ریاضت اور دعاؤں میں گزارے۔
بندہ جب رمضان کریم کے پورے روزے رکھتا ہے۔ شبِ قدر میں نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے اور ذکر و اذکار کرتےہوئے بیٹھتا ہے۔ تو اللہ سبحانہ وتعالی بہت خوش ہوتا ہے۔ اپنے بندوں پر فخر کرتا ہے۔ اے میرے پیارے ساتھیوں مچل جاؤ۔ جوش میں آجاؤ۔ اپنے پروردگار کی حمد و ثناء بیان کرو۔ جس نے ہم پر بے انتہا احسان کیا ہے۔ جو ہم پر فخر کرتا ہے۔ رمضان المبارک کے روزے اور شبِ قدر کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں جس کا مطلب یہ ہےکہ "حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، جب شب قدر ہوتی ہے تو جبریل علیہ السلام فرشتوں کی جماعت کے ساتھ زمین پراترتے ہیں، اور ہراس کھڑے بیٹھے بندے پر جو اللہ کا ذکر کرتا ہے، سلام بھیجتے ہیں۔ اور جب ان کی عید کا دن ہوتا ہے یعنی عید الفطر کا دن توﷲ ان بندوں سے اپنے فرشتوں پر فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ اے میرے فرشتو! اُس مزدور کی اُجرت کیا ہونی چاہیے جس نے اپنا کام پورا کر دیا؟ وہ عرض کرتے ہیں۔ الٰہی! اس کی اُجرت یہ ہے کہ اسے پورا پورا اجر دیا جائے۔ ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ "اے فرشتو! میرے بندے اور بندیوں نے میرا وہ فریضہ پورا کر دیا جو ان پر تھا۔ پھر وہ دعا کے لئے دست طلب دراز کرتے ہوئے نکل پڑے۔ ﷲ تعالیٰ نے فرمایا ، مجھے اپنی عزت، اپنے جلال، اپنے کرم، اپنی بلندی اور رفعتِ مکانی کی قسم، میں ان کی دعا ضرور قبول کروں گا۔ پھر اپنے بندوں سے فرماتا ہے۔ "لوٹ جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا اور تمہاری برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیا۔” اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ ” پھر یہ لوگ بخشے ہوئے اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں۔‘‘ سبحان اللہ یہ کیسا انعام و اکرام ہے۔ جو بندوں کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیتا ہے۔
اس رات کو تلاش کرنے کا ایک بہترین طریقہ، رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف ہے۔ دراصل رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کا مقصد ہی شبِ قدر کی تلاش ہے۔ اعتکاف اس مسجد کرنا چاہیے۔ جہاں پانچ وقت نماز باجماعت ہوتی ہو۔ نیز جمعہ خطبہ کے ساتھ ادا ہوتا ہے۔ یہ وہ سنت اعتکاف ہے کہ جو عام طور پر رمضان کریم کے آخری عشرے میں ہوتا ہے۔ کیونکہ حضور ﷺ نے ہر رمضان کے آخری 10 روز اعتکاف کیا، آخری عشرے میں کیے جانے والے اعتکاف کو سنت مؤکدہ کہا جاتا ہے۔ اعتکاف کی فضیلت و اہمیت کے لیے صرف یہ بھی کافی ہے کہ حضور ﷺ نے ہجرت کے بعد پوری عمر اہتمام کے ساتھ رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف کیا۔ حدیث شریف میں ہے کہ "رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں لیلۃ القدر کو تلاش کرو (الصحیح البخاری) اعتکاف میں بندہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اپنا سر جھکائے پڑا رہتا ہے۔ اور اللہ تعالی کی حمد و ثناء کے ساتھ دعاؤں کا طلبگار ہوتا ہے۔ وہ اپنے اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ پورے شہر یہاں تک کہ پوری امت کے لئے دست دراز کرتا ہے۔ اپنے گناہوں کے معافی مانگتا رہتا ہے۔ اللہ کے رحم و کرم کی امید لیے بیٹھا ہوتا ہے۔ دنیاوی غرض سے پاک ، اپنے دنیاوی کاروبار ، لین دین سے غافل اور اپنے گھر بار کا خیال نہ کرتے ہوئے۔ وہ صرف اللہ عزوجل کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔ معتکف مسجد میں رہتا ہے۔ اس لئے چھوٹے بڑے گناہوں سے بھی محفوظ ہوتا ہے۔ اس کے دن اور رات بارگاہِ الٰہی میں عبادت وریاضت میں گزرتے ہیں۔ اللہ عزوجل بندوں کی آہ و زاریاں بے کار نہیں جانے دیتا۔ بلکہ رمضان المبارک میں تو اس کا دریائے رحمت پر جوش ہوتا ہے۔ اس لئے متعکف کی تمام نیک و جائز دعایئں قبول ہوتی ہیں۔ اسے بے شمارانعام و اکرام سے نوازا جاتا ہے۔ معتکف ہزار راتوں سے بہتر شبِ قدر کو حاصل کرلیتا ہے۔ جس کی بے شمار فضیلتیں وارد ہوئی ہیں۔ پس ہمیں چاہئے کہ ہم رمضان المبارک کے آخری عشرے میں دس دنوں کا مسجد اعتکاف کرے۔ اور اس دوران اپنی مکمل توجہ بارگاہِ الٰہی کی جانب مرکوز رکھیں۔ پوری امت کے لئے دعائیں طلب کریں۔ اللہ عزوجل ہم تمام کو شبِ قدر نصیب فرمائے اور اعتکاف کرنے کی توفیق ورفیق عطافرمائے۔ آمین ثمہ آمین