اصلاح معاشرہ رمضان المبارک

رمضان المبارک کی آمد اور کورونا کی دوسری لہر

تحریر: محمد نبیل احمد
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد

7860082918
mdnabeelahmad92@gmail.com

رحمتوں برکتوں اور بخشش کا مہینہ رمضان اپنے ساتھ بہت سے خزانے لے کر آتا ہے اس سال بھی یقینا ایسا ہی ہے ہمارے لئے سب سے بڑی بات یہ ہوئی کہ ملک میں رویت ہلال پر کوئی تنازعہ نہیں ہوا اور ایک ہی دن روزہ شروع ہوا ہے ہمیں ہر بات میں سوچ مثبت رکھنی چاہیے اور اچھا نتیجہ اخذ کرنا چاہیے ایک دن روزہ شروع ہونا بھی برکت و رحمت اتحاد امت کا باعث ہے ہے گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی کورونا کی وبا اپنی تمام تر ہلاکت خیزی اور خوف کے ساتھ موجود ہے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اب کی بار بہت زیادہ خطرناک ضرور ہے لیکن عوام میں خوف اتنا نہیں ہے کسی بھی مصیبت میں خوفزدہ ہونا مشکلات کو مزید بڑھا دیتا ہے لیکن کرونا کے ضمن میں بے خوفی کامطلب اس سے بچاؤ کے لئے احتیاط کا دامن چھوڑ دیتا ہے اور شاید ہماری یہی غیر محتاط بے خوفی بیماری کو زیادہ پھیلانے میں مددگار ثابت ہو رہی ہے مساجد کی حد تک عبادت کے دوران احتیاطی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں ویسے بھی صاف ستھرا ماحول دن میں پانچ بار وضو کرنے میں اور زبان سے اللہ کا ذکر اور دعا کرتے رہنا بذات خود اس طرح کی وبا سے بچاؤ کے مؤثر اور مجرب ذرائع ہیں اس کے باوجود بڑی مساجد میں سینئ ٹائزنگ اور سماجی فاصلے کا اہتمام کیا جا رہا ہے چونکہ یہ سب اللہ کے حکم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے طریقے کے مطابق ہے اس لیے ہمیں یقین ہے کہ اس ماہ مبارک میں جہاں ہم گناہوں اور اللہ کے عذاب سے نجات حاصل کریں گے وہاں بھی موذی وبا سے بھی آزادی مل جائے گی لیکن ہمارا المیہ اور ذرا مختلف قسم کا ہے ہم میں سے جو لوگ مساجد جاتے بھی ہیں وہ بھی دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے بمشکل چار گھنٹے ہی ہیں باقی 20 گھنٹے جو ہم گھر بازار یا دفتر میں رہتے ہیں وہ اللہ کے حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور معمولات میں حکومت کی جاری کردہ ہدایت کس حد تک عمل کرتے ہیں ہماری زندگی پر اس کے اثرات زیادہ مرتب ہوتے ہیں یہ تو ہماری عادت ہے اور پختہ یقین ہے کہ آئین اور قانون حکومتی احکامات پر عمل صرف اس وقت ہی ضروری ہوتا ہے جب کوئی پولیس والا دیکھ رہا ہوں اور سچی بات یہ ہے کہ ہمارا اللہ کے احکامات کے حوالے سے بھی رویہ اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوتا اس لیے اجتماعی معاملات اور سماجی ذمہ داری کی بجا آوری میں بھی ہم صرف ظاہری دکھائی دینے والے اعمال پر ہی زور دیتے ہیں تاجروں پر منافع خوری ملاوٹ چوربازاری دھوکہ دہی کے کے الزامات تو ہم کسی تصدیق کے بغیر بھی عائد کر دیتے ہیں لیکن اپنے رویوں پر غور نہیں کرتے رمضان میں صدقہ و خیرات اور انفاق فی سبیل اللہ پر زیادہ زور ہوتا ہے اللہ کے نیک بندے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرتے ہیں تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی کہ اس کام میں اللہ کی رضا و خوشنودی سے زیادہ ذاتی نمود اور نمائش کا خیال رکھتے ہیں جن کو دے رہے ہیں ان کی عزت نفس کے مجروح ہونے پر دھیان نہیں دیتے روزے کے دوران دفاتر اور کام کی جگہ پر اپنے فرائض کی ادائیگی کے حوالے سے بھی ہمیں طرز عمل پر سوچنا ہو گا کیا ہی اچھا ہو کہ ہم شام کو مسجد میں جا کر جب اللہ کے حضور عبادت کے لئے حاضر ہوں تو اپنے دن بھر کے معمولات پر ایک نظر ڈالیں اور یہ دیکھیں کہ کسی کے ساتھ زیادتی تو نہیں کی دھوکا تو نہیں دیا میں اپنی کمائی کو مشکوک تو نہیں بنایا اگر خود احتسابی کی عادت پختہ ہو جائے اور دین کی مسجد کے ساتھ بازاروں دفتروں میں بھی پیش نظر رکھا جائے تو نہ صرف زندگی آسان ہو جائے گی بلکہ وباوں اور بلاؤں سے بھی نجات پا سکیں گے اس کے لیے رمضان المبارک کا ایک بہترین موقع ہے تزکیہ نفس کے لئے اس سے فائدہ اٹھانے کا مطلب زندگیوں میں حقیقی تبدیلی لانا ہے ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے