تحریر: صدام حسین قادری مصباحی دیناج پوری، مغربی بنگال
رسول اللہ صل اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے بڑے حکیمانہ انداز میں پیداوار کی مختلف قسموں پر زکوٰۃ کی مختلف مقدار بیان فرمائی ہے َ ان میں سب سے پہلے پیداوار کی ان قسموں پر زکوٰۃ مقرر فرمایا جو کچھ دنوں تک باقی رہ سکتی ہے تاکہ ان سے نجی اور کاروباری فائدہ اٹھایا جا سکے َ جیسے زرعی پیداوار َ
جن چیزوں میں ترقی اور افزائش کی صلاحیت نہیں ہے ان پر زکوٰۃ فرض نہیں فرمائی َ جیسے مصنوعات بناے کے آلات، مکان، لباس، استعمال کے سازو سامان، سواریاں، قیمتی پتھر َان چیزوں پر کسی قسم کی زکوٰۃ مقرر نہیں فرمائی َ
کچھ عرصہ باقی رہنے اور نشوونما پانے والی چیزیں پانچ پیں َ معدنیات، زرعی پیداوار، جانور، سونا، چاندی اور کرنسی نوٹ (جو سونا کے حکم میں ہے) اور مال تجارت َ ان پانچ چیزوں پر آپ نے زکوٰۃ مقرر فرمایا ہے َ معدنیات جیسے سونا، چاندی، لوہا تانبا وغیرہ چونکہ ان کے حصول میں زمین کے مالک کا کوئی دخل اور کوئی خاص محنت نہیں ہو تی بلکہ یہ محض عطیہ الہی ہے اس لیے شرح زکوٰۃ ان پر سب سے زیادہ رکھی اور خمس مقرر فرمایا یعنی حاصل شدہ معدنی دولت کا پانچواں حصہ َ
زمین کی آپ نے دو قسمیں کی ایک وہ جس میں علاقائی اور موسمی خصوصیت کی وجہ سے زمین کو سیراب کرنے کے لیے کاشتکار کی بڑی محنت کا دخل نہیں ہوتا بلکہ وہ بارش کے قدرتی پانی کی وجہ سے از خود سیراب ہو تی رہتی ہے اس بلا مشقت اور بے خرچ سیرابی کیوجہ سے اس پر اس کی پیداوار کا عشر دسواں حصہ ادا کرنا فرض کیا گیا َ
زمین کی دوسری قسم جس کو سیراب کرنے کے لیے کاشتکار کو مشقت کرنی پڑتی ہے مثلاً رہٹ یا ٹیوب ویل وغیرہ وغیرہ کے ذریعے کنویں سے پانی حاصل کرتا ہے یا پیسہ خرچ کر نا پڑ تا ہے مثلاً کرایہ پر ٹیوب ویل حاصل کرتا ہے یا نہری پانی کا ٹیکس یا آبیانہ دیتا ہے اس پر آدھا عشر یعنی پیداوار کا بیسواں حصہ مقرر فرمایا َ
نقد سرمایہ، سونا، چاندی، کرنسی نوٹ اور مال تجارت جس کی ترقی، حفاظت، نشوونما اور افزائش کے لئے انسان کو دن رات سخت محنت کر نی پڑتی ہے اور جس کو وسیع پیمانے پر چلانے کے لئے بڑے سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے اور جس میں قدم قدم پر چوری، ڈاکے، گمشدگی، لوٹ مار اور نقصان کا اندیشہ رہتا ہے اس میں زمین کی اس دوسری قسم سے بھی آدھی زکوٰۃ مقرر کی گئی ہے یعنی تمام کاروباری سرمایہ پر سال گزرنے کے بعد صرف چالیسواں حصہ مقرر فرمایا َ
زرعی پیداوار اور سونے اور چاندی کا نصاب
فقہاء اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ چاندی کا نصاب دوسو درہم چاندی جو ساڑھے باون تولہ (٥٠ء٦١٢) کے برابر ہے اور سونے کا نصاب چالیس دینار جو ساڑھے سات تولہ (٤٨ء٨٧) سونے کے برابر ہے اس سے کم مقدار میں زکوٰۃ فرض نہیں اور جب اس مقدار پر سال گزر جائے تو چالیسواں حصہ ادا کرنا واجب ہے َ
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کی حدیث ہے کہ فرمایا :
فیما سقت السماء والعیون او کان عشیریا العشر وما سقی بالنضح نصف العشر
جسے بارش یا چشمے سینچیں یا بے سینچے پیداوار ہو جائے اس میں عشر ہے اور جو چھڑک کر سینچا جائے اس میں نصف عشر ہے َ
غلہ، پھل اور سبزیوں کی زمین سے جس قدر پیداوار حاصل ہو اس پر عشر یا نصف عشر دینا واجب ہے َ
کرنسی نوٹ اور زکوٰۃ :
جب کرنسی نوٹ ساڑھے باون تولہ (٣٦ء٦١٢)چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا (٤٨ء٨٧)سونے کے برابر پہنچ جائیں تو ان پر بالاتفاق زکوٰۃ واجب ہو جائے گی اس لئے کہ نوٹ سونے کا بدل اور اس کا قائم مقام ہے۔