والد صدرالافاضل، مولانا سید معین الدین نزہت کے یوم وصال پر نیاز مندانہ خراج عقیدت
ازقلم: غلام مصطفیٰ نعیمی
مدیر اعلیٰ سواد اعظم دہلی
کسی بھی شخصیت کے خد وخال سمجھنے کے لیے اس کے ذاتی اوصاف، خاندانی پس منظر، حلقہ احباب اور اس کے اساتذہ وشیوخ کو دیکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔کیوں کہ کوئی بھی شخصیت اسی وقت اوج کمال کو پہنچتی ہے جب اس کے ارد گرد ایسے افراد موجود ہوں جن کی موجودگی اس کے علم وفضل کو جلا بخشے اور اسے بڑے کاموں کے لیے مہمیز کرے۔اس ضابطے کی روشنی میں اگر ہم استاذ الشعرا حضرت مولانا معین الدین نزہت مرادآبادی (1254ھ/ 1339ھ) کو دیکھتے ہیں تو آپ ثریا ستارے کی مانند نظر آتے ہیں۔
اوصاف وکمالات
آپ کے ذاتی اوصاف وکمالات اس قدر ہیں کہ بڑے بڑے صاحبان علم وفضل کو یہ مقام نہیں ملتا جو حضرت نزہت کا حاصل ہوا۔مرادآباد جیسے علمی شہر میں کسی فاضل کا ایسا مقام ہونا کہ فاضلین شہر کی چوتھائی آبادی فرد واحد سے شاگردی کا شرف رکھتی ہو بڑی بات ہے۔حضرت نزہت کو اللہ نے ایسا منصب تدریس عطا فرمایا تھا کہ پورے شہر میں آپ کی فارسی دانی اور علم وادب کا شہرہ تھا، تاج العلما مفتی محمد عمر نعیمی تحریر فرماتے ہیں:
"مرادآباد کی ایک ربع خواندہ آبادی حضرت مولانا معین الدین کی شاگردی کا شرف رکھتی تھی۔”(حیات صدرالافاضل:21)
صرف یہی ایک اقتباس بتانے کے لیے کافی ہے کہ جناب نزہت کا علمی مقام کیا تھا اور ان کے اوصاف وکمالات کس درجے کے تھے۔آپ نے عرصہ دراز تک مرادآباد مڈل اسکول میں تعلیم وتدریس کے فرائض انجام دئے۔جس کے باعث آپ کا حلقہ شاگردی نہایت وسیع تھا۔زبان وادب پر آپ کی مہارت ہم عصروں میں آپ کو ممتاز کرتی تھی۔آپ کے علمی کمال میں خاندانی پس منظر اور علمی ماحول کا بھی بڑا اثر تھا۔آپ کے والد مولانا سید کریم الدین آرزو ایک جانے مانے شاعر اور ماہر سخن کے طور پر اپنی شناخت رکھتے تھے۔آپ کا علمی دستر خوان بھی نہایت وسیع تھا اور شہر بھر میں آپ سے استفادہ کرنے والوں کی کثیر تعداد تھی۔انہیں افراد میں ایک نام ور شاگرد نواب مہدی علی خاں ذکی بھی تھے جو مجاہد آزادی حضرت مولانا سید کفایت علی کافی کے استاذ اور شہر کے مسلم الثبوت شاعر تھے۔
حضرت نزہت نے خالص علمی ماحول میں آنکھیں کھولیں اور شعر وسخن کی فضا میں پرورش پائی۔بعد میں آپ والد گرامی کے مایہ ناز شاگرد اور شہر کے سب سے بڑے سخن ور نواب مہدی علی خاں ذکی کی درس گاہ سے وابستہ ہوگئے۔اس وقت ذکی کی شاگردی اہل علم کے لیے شرف وعزت کی بات تھی۔مولانا کفایت علی کافی مولانا محمد حسین تمنا اور نواب شبیر علی خاں تنہا جیسے یکتائے روزگار افراد جناب ذکی کی درس گاہ کے خوشہ چینوں میں شامل تھے۔حضرت نزہت نے بھی آپ سے خوب استفادہ کیا۔ایک وقت وہ بھی آیا کہ جب جناب ذکی کا تعارف ان کے شاگرد نزہت مرادآبادی کے نام سے ہونے لگا، حضرت نزہت خود فرماتے ہیں:
ذکی کا میرے دم سے ہے نام روشن
میں نزہت ہوں، مشہور اہل ہنر میں
حلقہ احباب
کسی بھی علمی شخصیت کے کمالات کا اندازہ اس کے حلقہ احباب سے بھی لگایا جاتا ہے۔کیوں کہ انسان کی دوستی انہیں لوگوں سے ہوتی ہے جو اس کے ہم ذوق اور مزاج آشنا ہوں۔اس لحاظ سے بھی حضرت نزہت خوش نصیب تھے کہ ان کا حلقہ احباب ایسے افراد پر مشتمل تھا جو علم وادب اور فکر وفن میں فرد فرید کی حیثیت رکھتے تھے۔انہیں احباب میں شہید حریت حضرت مولانا سید کفایت علی کافی علیہ الرحمہ کا نام سر فہرست ہے۔جنہیں مجدد اعظم اعلی حضرت نعت کہنے والوں کا سلطان کہتے تھے اور اللہ سے امید رکھتے تھے کہ کافی صاحب کی سلطنت نعت گوئی کی وزارت عظمی کی سعادت انہیں حاصل ہوگی۔اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کرتے ہیں:
کافی سلطان نعت گویاں ہیں رضا
ان شاء اللہ میں وزیر اعظم
وقت کے مجدد کی نگاہ میں جو شخص مدح خوان مصطفی کا سلطان تھا وہ حضرت نزہت کے دوست اور ان کے والد کریم الدین آرزو کے پوتا شاگرد تھے۔حضرت کافی کا علمی اثاثہ نزہت مرادآبادی کے والد جناب آرزو کی درس گاہ کا فیض اور صدقہ تھا۔جس درس گاہ سے ‘سلطان نعت’ جیسے سخن ور تیار ہوئے ہوں خود صاحب درس گاہ کا علمی مقام کیا ہوگا؟
شیخ ومرشد
خوشی نصیبی اور رفعتیں گویا حضرت نزہت کا مقدر تھیں۔اس لیے انہیں جہاں ایک شریف ونجیب خاندان ملا، یکتائے روزگار احباب ملے تو تقدیر کی بلندی دیکھیے کہ انہیں اعلی حضرت امام احمد رضا جیسے شیخ ومرشد ملے۔اعلی حضرت سے بیعت وارادت کی داستان بھی نہایت دل چسپ ہے۔اس زمانے میں مولوی قاسم نانوتوی کا مرادآباد آنا جانا خوب ہوا کرتا تھا۔جیسا دیس ویسا بھیس کی مانند گنگا گئے تو گنگا رام اور جمنا گئے تو جمنا داس بن جانے کی پالیسی پر عمل پیرا نانوتوی صاحب نے خود کو مرادآباد میں ایک سنی عالم اور چشتی پیر کے طور پر متعارف کرا رکھا تھا۔حضرت نزہت بھی نانوتوی صاحب کے ظاہرے کو دیکھ کر بیعت ہوگئے مگر بعد میں آپ کے شہزادے حضرت صدرالافاضل نے نانوتوی صاحب کی کتاب تحذیرالناس کی ایمان شکن عبارات دکھائیں تو فوراً ہی بیعت فسخ کی اور اعلی حضرت عظیم البرکت کے دامن کرم سے وابستہ ہوگئے۔اس موقع پر حضرت نزہت نے ایک تاریخی شعر کہا تھا:
پھرا ہوں میں اس گلی سے نزہت
ہوں گمراہ جس میں شیخ وقاضی
رضائے احمد اسی میں سمجھوں
کہ مجھ سے احمد رضا ہوں راضی
اعلی حضرت آپ کے پیر تھے مگر آپ کی علمی جلالت اور خاندانی نجابت کا بہت احترام کرتے تھے۔صفحات تاریخ میں ایسے گنے چنے مرید ملیں گے جن پر خود ان کے مشائخ فخر فرماتے ہوں۔حضرت نزہت ایک ایسے ہی مرید تھے جن پر ان کے شیخ اور مجدد دین وملت فخر ومباحات فرماتے تھے۔حضرت نزہت کا وصال ہوا تو اعلی حضرت بغرض علاج بھوالی نینی تال میں تشریف فرما تھے۔اسی وقت ایک تعزیتی خط صدرالافاضل کو تحریر فرمایا خط کی آخری سطور میں لکھتے ہیں:
"قابل حاضری ہوتا تو سر سے چل کر مزار کی زیارت اور آپ کی تعزیت کرتا۔مصطفیٰ رضا کل بریلی گئے ہیں میں نے کہہ دیا ہے کہ تعزیت کے لیے حاضر خدمت ہوں۔”
(سواد اعظم لاہور:76)
اعلی حضرت کے اس مکتوب سے حضرت نزہت کے مقام ومرتبے کا خوب اندازہ ہوتا ہے۔باوجود کہ اعلی حضرت مرشد ہیں مگر فرماتے ہیں کہ جناب نزہت کا مقام یہ ہے کہ سر کے بل چل کر جانا ممکن ہوتا تو ضرور حاضر ہوتا۔
اللہ اکبر!
عموماً مرید اپنے شیخ کے آستانے پر حاضری کے لیے یہ انداز بیان اختیار کرتے ہیں مگر اعلی حضرت اپنے مرید کے لیے یہ انداز اختیار کرکے اہل دنیا کو جناب نزہت کا مقام ومرتبہ بتا رہے ہیں۔
اولاد
_کہتے ہیں جیسا درخت ہوتا ہے ویسا ہی پھل آتا ہے۔حضرت نزہت جس طرح علم وفضل اور شرافت ونجابت کا پیکر تھے۔اللہ تعالیٰ انہیں 1300ھ/1883ء میں صدرالافاضل ، فخرالاماثل الشاہ سید محمد نعیم الدین قدس سرہ العزیز جیسا طالع مند فرزند عطا فرمایا جس نے خاندانی شہرت کو چہار دانگ عالم میں پھیلا دیا۔کل تک جو خانوادہ شہر اور اطراف شہر میں جانا جاتا تھا اس شہرت کو آپ نے ملک گیر بنا دیا۔جس طرح شہر کے ایک چوتھائی فاضلین حضرت نزہت کے شاگرد تھے ایک وقت آیا کہ پورے ملک کے مشاہیر علما وفضلا اور مشائخ کی کثیر تعداد صدرالافاضل کی شاگردی کا اعزاز رکھتی تھی۔اسی لیے اعلی حضرت نے حضرت نزہت کی رحلت پر کہا تھا:
مردہ ہرگز نئے معین الدین
کہ ترا چوں نعیم دیں پسر ست
"اے معین الدین آپ ہر گز مردہ نہیں ہیں کہ جب کہ آپ کے پاس نعیم الدین جیسا بیٹا ہے۔”
واقعی امام نے سچ کہا تھا، حضرت صدرالافاضل نے اپنے خداداد علم وفضل سے اپنے والد اور پورے خانوادے کو زندہ وجاوید کردیا۔آج بر صغیر ہندو پاک سے لیکر دیار یوروپ تک نعیمی فرزندان کی موجودگی خانوادہ نعیمیہ کی زندگی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
وصال پرملال
_ایک کامیاب اور قابل رشک زندگی گزار کر حضرت نزہت نے سفر آخرت کی تیاری شروع کی۔رمضان المبارک کا مقدس مہینہ تھا۔عمر کی پچاسی بہاریں دیکھ چکے تھے۔مگر زہد وتقوی کا یہ عالم کہ 19 رمضان تک سارے روزے رکھے۔اس کے بعد بخار قاصد اجل کی دستک لیکر حاضر ہوا۔چار دن تک بخار میں مبتلا رہے۔اس درمیان سوائے ذکر الٰہی کے کوئی بات نہیں فرمائی۔آخر رمضان کی پچیس تاریخ بروز جمعہ رخصت ہونے کا دن آپہنچا۔
تو ہی جاں میں ہے اور نظر میں ہے
جلوہ رنگ ما سوا نہ رہا
آج نزہت ہوا فنا فی اللہ
کہتے کہتے خدا خدا، نہ رہا
اس طرح رمضان المبارک کی بہاروں کے جلو میں یہ عاشق صادق اپنے رب کا مہمان ہوگیا۔بعد وصال آنکھیں کھلی رہ گئی تھیں جسے بند کرنے کی کوشش کی گئی مگر ناکام رہے اور آنکھیں بند ہو بھی نہیں سکتی تھیں کہ ان کی دیرینہ آرزو تھی:
پس فنا بھی جو کھلی ہیں آنکھیں، کسی کے میں انتظار میں ہوں
یہ کون آتا ہے آنے والا کہ منتظر میں، مزار میں ہوں
(گذشتہ سال ٢٥ رمضان المبارک ١٤٤٢ھ/8 مئی 2021 بروز ہفتہ کو لکھی گئی تحریر)