محمد عامر امجدی مہراجگنجوی
متعلم: جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی مٸو یوپی الہند
رمضان المبارک کی راتوں میں سے ایک رات شب قدر کہلاتی ہے ہے جو بہت ہی قدرومنزلت خیر و برکت کی حامل رات ہے اسی رات کو اللہ تعالی نے ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے ہزار مہینوں کے تراسی برس چار ماہ بنتے ہیں دونکتے جس شخص کی یہ ایک رات عبادت میں گزری اس نے تراسی برس چار ماہ کا زمانہ عبادت میں گزار دیا اور تراسی برس کا زمانہ کم از کم ہے کیونکہ” خیر من الف شہر” کہ کر اس امر کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ کریم جتنا زاٸد اجر عطا فرمانا چاہٸے گا عطا فرما دے گا ۔اس اجر کا اندازہ انسان کے بس سے باہر ہے۔
آیات قرآنیہ
اِنَّا اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَیْلَةٍ مُّبٰـرَکَةٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَo
’’بے شک ہم نے اسے ایک با برکت رات میں اُتارا ہے بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں۔‘‘
اِنَّآ اَنْزَلَنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِo وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِo لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شهرo تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَةُ وَ الرُّوْحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ ج مِّنْ کُلِّ اَمْرٍo سَلٰمٌ قف هِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِo
’’بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے۔ اور آپ کیا سمجھے ہیں (کہ) شبِ قدر کیا ہے؟ شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں۔ یہ (رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہے۔‘‘
احادیث نبویہ
عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: قَالَ: تَحَرَّوْا لَیْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، وَفِي رِوَایَةٍ: فِي السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب صلاة التراویح، باب تحري لیلة القدر في الوتر من العشر الأواخر،
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: شبِ قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں (اور ایک روایت میں ہے کہ رمضان کی آخری سات طاق راتوں) میں تلاش کیا کرو۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنہما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: الْتَمِسُوْهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ لَیْلَةَ الْقَدْرِ فِي تَاسِعَةٍ تَبْقٰی، فِي سَابِعَةٍ تَبْقٰی، فِي خَامِسَةٍ تَبْقٰی. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الصیام، باب تحري لیلة القدر في الوتر من العشر الأواخر، 711
’’حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس (یعنی شبِ قدر) کو رمضان المبارک کے آخری عشرے میں باقی رہنے والی راتوں میں سے نویں، ساتویں اور پانچویں رات میں تلاش کرو۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری اور بیہقی نے روایت کیا ہے
عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: مَنْ قَامَ لَیْلَةَ الْقَدْرِ إِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهٖ وَمَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهٖ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الصوم، باب من صام صوم رمضان إیمانا واحتسابا، 2/672،
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے شبِ قدر میں حالت ایمان میں ثواب کی غرض سے قیام کیا اُس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اور جس نے ایمان کی حالت میں ثواب کی غرض سے رمضان کے روزے رکھے اُس کے بھی سابقہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: مَنْ یَقُمْ لَیْلَةَ الْقَدْرِ فَیُوَافِقُهَا، أُرَاهُ قَالَ: إِیمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الإیمان، باب قیام لیلة القدر من الإیمان، 1/21
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص لیلۃ القدر میں قیام کرے اور اس کو پا لے اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔ راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے کہ ابو ہریرہ نے یہ بھی کہا تھا کہ ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ ﷲِ، أَرَأَیْتَ إِنْ عَلِمْتُ أَيُّ لَیْلَةٍ لَیْلَةُ الْقَدْرِ، مَا أَقُوْلُ فِیْهَا؟ قَالَ: قُوْلِي: اَللّٰهُمَّ إِنَّکَ عُفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الدعوات، باب 85، 5/534،
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! بتائیے اگر مجھے شب قدر معلوم ہو جائے تو میں اس میں کیا دعا مانگوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کہو: ’’اَللّٰهُمَّ إِنَّکَ عُفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي‘‘ (یا اللہ! تو بہت معاف فرمانے والا کریم ہے، عفو و درگزر کو پسند کرتا ہے پس مجھے معاف فرما دے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے نیز امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: أَتَاکُمْ رَمَضَانُ شَهْرٌ مُبَارَکٌ فَرَضَ ﷲُ عزوجل عَلَیْکُمْ صِیَامَهُ، تُفْتَحُ فِیْهِ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَتُغْلَقُ فِیْهِ أَبْوَابُ الْجَحِیْمِ وَتُغَلُّ فِیْهِ مَرَدَةُ الشَّیَاطِیْنِ، ِﷲِ فِیْهِ لَیْلَةٌ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، مَنْ حُرِمَ خَیْرَهَا فَقَدْ حُرِمَ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
6: أخرجه النسائي في السنن، کتاب الصیام،
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارے پاس رمضان المبارک کا مہینہ آیا۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض کیے ہیں۔ اس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اورسرکش و شریر شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس ماہ میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار راتوں سے افضل اور بہتر ہے، جو اس (رات) کی خیرات و برکات سے محروم کر دیا گیا وہ (ہر خیر سے) محروم کر دیا گیا
7 عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: إِذَا کَانَ لَیْلَةُ الْقَدْرِ نَزَلَ جِبْرِیْلُ ں فِي کَبْکَبَةٍ مِنَ الْمَـلَائِکَةِ یُصَلُّوْنَ عَلَی کُلِّ عَبْدٍ قَائِمٍ أَوْ قَاعِدٍ یَذْکُرُ اﷲَ ل، فَإِذَاکَانَ یَوْمُ عِیْدِهِمْ یَعْنِي یَوْمَ فِطْرِهِمْ بَاهٰی بِهِمْ مَـلَائِکَتَهٗ فَقَالَ: یَا مَـلَائِکَتِيْ، مَا جَزَاءُ أَجِیْرٍ وَفّٰی عَمَلَهٗ، قَالُوْا: رَبَّنَا، جَزَائُهٗ أَنْ یُوَفّٰی أَجْرُهٗ. قَالَ: مَـلَائِکَتِيْ، عَبِیْدِيْ وَإِمَائِيْ قَضَوْا فَرِیْضَتِي عَلَیْهِمْ ثُمَّ خَرَجُوْا یَعُجُّوْنَ إِلَيَّ بِالدُّعَاءِ وَعِزَّتِي وَجَـلَالِي وَکَرَمِي وَعُلُوِّي وَارْتِفَاعِ مَکَانِي لَأُجِیْبَنَّهُمْ فَیَقُوْلُ: ارْجِعُوْا قَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ وَبَدَّلْتُ سَیِّاٰتِکُمْ حَسَنَاتٍ قَالَ: فَیَرْجِعُوْنَ مَغْفُوْرًا لَّهُمْ.
رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ، أخرجه البیهقي في شعب الإیمان، 3/343،
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب شب قدر ہوتی ہے تو جبریل ں فرشتوں کی جماعت میں اترتے ہیں، اور ہر اس کھڑے بیٹھے بندے پر جو اللہ کا ذکر کرتا ہے، سلام بھیجتے ہیں۔ جب ان کی عید کا دن ہوتا ہے یعنی عید الفطر کا دن تو اﷲ ان بندوں سے اپنے فرشتوں پر فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے: اے میرے فرشتو! اُس مزدور کی اُجرت کیا ہونی چاہیے جو اپنا کام پورا کر دے؟ وہ عرض کرتے ہیں: الٰہی! اس کی اُجرت یہ ہے کہ اسے پورا پورا اجر دیا جائے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: اے فرشتو! میرے بندے اور بندیوں نے میرا وہ فریضہ پورا کر دیا جو ان پر تھا۔ پھر وہ دعا میں دست طلب دراز کرتے ہوئے نکل پڑے۔(اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:) مجھے اپنی عزت، اپنے جلال، اپنے کرم، اپنی بلندی اور رفعتِ مکانی کی قسم: میں ان کی دعا ضرور قبول کروں گا۔ پھر ( اپنے بندوں سے) فرماتا ہے: لوٹ جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا اور تمہاری برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیا۔ فرمایا: پھر یہ لوگ بخشے ہوئے اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں۔‘‘