ہے دل اداس آخر رمضان جارہا ہے
نعمت لٹا کے ہم پہ مہمان جارہا ہے
عصیاں کا تھا مداوا کتنا عظیم تحفہ
جو تھا یہ عاصیوں پہ درمان جارہا ہے
پُر کیف ساعتیں تھیں شام و سحر میسر
حاصل رہا جو نُورِ عرفان جارہا ہے
افطار ہوں مدینے اگلے سبھی یہ روزے
دل میں جگا کے میرے ارمان جا رہا ہے
ایک دو دن ہیں باقی مانگو کرم عطائیں
جُود و کرم عطا کا سامان جارہا ہے
محشر میں یہ شفاعت فیضان کرے گا تیری
کر لے وداع ماہِ ذیشان جارہا ہے
از قلم: حافظ فیضان علی فیضان