ازقلم: سعدیہ بتول اشرفی(سبا)
بنت عبد الحمید اشرفی
الحمدللہ رب العالمین الصلوۃ والسلام علیٰ سید الانبیاء والمرسلین اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَاۤ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِ تَكُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَةً مِّنْكَۚ-وَ ارْزُقْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ(۱۱۴)
عیسیٰ ابن مریم نے عرض کی اے اللہ اے رب ہمارے ہم پر آسمان سے ایک خوان اُتار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ہمارے اگلے پچھلوں کی اور تیری طرف سے نشانی اور ہمیں رزق دے اور تو سب سے بہتر روزی دینے والا ہے ۔
عید کے معنی خوشی کے ہیں
جس دن اللہ پاک کی طرف سے کوئ انعام اترے یا اللہ پاک کی نعمت اترے اس دن عید منانا اللہ پاک کے نبی اور اللہ پاک کے نیک بندوں کا طریقہ ہے
معزز قارئین ! عید کا دن بہت ہی مبارک ، رحمتوں برکتوں والا ہوتا ہے عید الفطر کے دن اللہ تعالی اپنے بندوں کو بخش دیتا ہے
ان سے راضی ہوتا ہے ان کے گناہوں کو معاف فرماتا ہے اور جب بندے نماز عید سے فارغ ہوتے ھیں تو اللہ رب العزت اس طرح کلام فرماتا ہے "ائے بندو ! واپس جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا اور تمہاری بدیوں کو نیکیوں میں تبدیل کردیا ۔ سبحان اللہ
ایک روایت میں یوں بھی ہے کہ عید کے دن اللہ تعالی فرشتوں سے خطاب فرماتا ہے کہ ائے فرشتو! بتاؤ اس مزدور کا کیا صلہ ہے جو اپنی محنت کا پورا پورا حق ادا کرچکا ہو ؟
فرشتے عرض کرتے ہیں ائے میرے رب اس کا صلہ تو یہ ہی ہے کہ اس کی محنت کا پورا پورا معاوضہ دیا جائے ” اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے
فرشتوں ! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے رمضان میں روضے رکھنے والوں ، اور تراویح و نوافل میں قیام کرنے والوں کا ثواب اپنی رضا مندی اور مغفرت کو قرار دیا ہے
انہوں نے میرا فرض ادا کردیا ہے اور پھر نماز عید اور تکبیر کے شوق میں کلمات طیبہ کا ورد کرتے ہوئے اپنے گھروں سےعید گاہ کا رخ کرتے ہیں لہذا مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم ھے کہ میں ان کی خطاؤں کو در گزر کروں گا ان کی ستر پوشی کروں گا ان کے حق میں ان کی دعائیں بھی قبول کروں گا
سبحان اللہ
معزز قارئین !آئیے جانتے ہیں کہ یہ مبارک عید ہمیں کس طرح ملی چنانچہ ابو داؤد شریف کی روایت ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا ﷺ جب مدینۃ منورہ تشریف لائے
تو اس وقت اہل مدینۃ کے نزدیک دو دن ایسے تھے جس میں وہ خوشیاں مناتے تھے ۔ آقا ﷺ نے دریافت فرمایا : یہ دو دن کیسے ہیں؟
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے عرض کی ۔ ان ایام میں ہم لوگ زمانہ جہالت میں خوشیاں منایا کرتے تھے
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک نے تمہارے لئے ان دو دنوں کو بہترین دنوں میں تبدیل فرمادیا ہے ۔۔ یعنی عید قرباں اور عید الفطر کے دنوں میں __
عید الفطر مسلمانوں کے لئے عید کا دن ہےخوشی منانے کا دن ہے
ہمیں اس دن کو کس طرح گزارنا چاہئے؟
کچھ لوگ معاذ اللہ اللہ پاک کے عطا کردہ اس عظیم دن کو بے پردگی کرتے ہوئے گزار دیتے ہیں ۔ بن ٹھن کر غیر محرم کے سامنے آکر اللہ پاک کی ناراضگی مول لیتے ہیں
کوئ نمازیں قضا کرکے سارا وقت سونے میں گزار دیتے ہیں
کوئ گانے باجے سنتے ہوئے غرض کہ اللہ پاک کی نافرمانی والے کاموں میں اس دن کو گزارتے ہیں
حالانکہ اس دن تو اور زیادہ اللہ پاک کی عبادت کرنی چاہئے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سجدۂ شکر ادا کرنا چاہیے کہ مولی تیرا شکر ہے کہ تو نے ہم پر کرم فرمایا اور ہمیں اتنا مبارک دن عطا فرمایا اور یہ ہی ہمارے بزرگان دین کا طریقہ رہا
چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ عید الفطر و عید الضحی کو ذکر الہی، حمد و ثنا ،عظمت و پاکیزگی کے بیان سے زینت دو
معزز قارئین ! پتہ چلا کہ اس دن کو ہمیں گناہوں میں نہیں گزارنا بلکہ اس دن خالق عالم کی حمد و ثنا کریں اس کی بارگاہ میں سجدۂ شکر ادا کریں اس کی بزرگی و برتری بیان کریں اس کی پاکی بولیں چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے کہ
فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ حِیْنَ تُمْسُوْنَ وَ حِیْنَ تُصْبِحُوْنَ(۱۷)
تو الله کی پاکی بولو جب شام کرو اور جب صبح ہو۔
مختصراً یہ کہ اس دن کو اس طرح منائیں کہ اللہ پاک کے ناراض کرنے والے کاموں سے بچیں اور اس کو راضی کرنے والے کاموں میں لگ جائیں
معزز قارئین ! کچھ لوگ وہ ہیں جو اس دن صرف اچھے کپڑے پہنے کو ضروری سمجھتے ہیں اور خود کو ہی سنوارنے میں لگ جاتے ہیں ۔ معززین قارئین! ایسا نہ کریں صرف جسم ہی نہ سنواریں بلکہ روح کو بھی اللہ پاک کی اطاعت کرکے سنواریں
تو بعض لوگ یہ مناتے ھیں کہ اچھے کپڑے پہن کر گھر سے باہر نکل گئے تو پھر ان کی واپسی شام ہی کو ہوتی ہے
ایسے بھی نہ کریں
بلکہ کچھ وقت اپنے گھر والوں کے ساتھ بھی گزاریں اس سے دل میں محبت بڑھتی ہے
اپنے والدین ، اپنے اہل خانہ ، اپنے بچوں کو ساتھ لے کر بیٹھیں اچھی اچھی دینی باتیں انہیں بتائیں آقاﷺ کے اخلاق کریمہ کے بارے میں بتائیں گھر والوں کے ساتھ اچھا وقت گزاریں
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہو اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہوں
سبحان اللہ ! تو اپنے گھر والوں کے ساتھ بھی وقت گزاریں
اور پھر اس دن خاص طور پررشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کریں، غریبوں ، مسکینوں یتیموں کا بھی اس دن خیال رکھیں ان کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کریں ، انہیں خوشی دیں ان کے چہروں پر مسکراہٹ لائیں ان کے چہروں کو چمکائیں اللہ پاک آپ کی قسمت کو چمکائے گا
معززین قارئین ! اس معاملے میں ہمارے اسلاف کا کردار کیا تھا وہ کس طرح لوگوں کے ساتھ صلح رحمی فرماتے اس ضمن میں ایک واقعہ ملاحظہ فرماتے چلیں
حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں ایک بار نماز عید پڑھنے کے بعد واپس لوٹ رہا تھا راستے میں میں نے حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا آپ کے ساتھ ایک بچہ بھی تھا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور وہ ٹوٹے دل کے ساتھ رو رہا تھا میں نے عرض کی یا سیدی ! کیا ہوا آپ کے ساتھ یہ بچہ کیوں رو رہا ہے ؟آپ نے جواب دیا : میں نے چند بچوں کو اخروٹ سےکھیلتے ہوئے دیکھا جب کہ یہ بچہ غمگین حالت میں ایک طرف کھڑا تھا اور ان کے سات نہیں کھیل رہا تھا میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میں یتیم ھوں میرے پاس کچھ رقم نہیں کہ جن سے اخروٹ خرید کر ان بچوں کے ساتھ کھیل سکوں
چناچہ اس بچے کو میں اپنے ساتھ لے آیا تاکہ گھٹلیاں جمع کرکے اسے اخروٹ خرید کر دوں کہ یہ دوسرے بچوں کے ساتھ یہ کھیل سکے
میں نے عرض کی آپ یہ بچہ مجھے دے دیں کہ میں بس کی خراب حالت بدل سکوں ۔ آپ نے فرمایا:کیا واقعی تم ایسا کروگے ؟میں نے عرض کی جی ہاں ! فرمایا: چلو اسے لےلو اللہ پاک تمھارا دل ایمان کی برکت سے غنی کرے اور اپنے راستے کی ظاہری و باطنی پہچان عطا فرمائے
حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں اس بچے کو لے کر بازار گیا اسے اچھے کپڑے پہنائے اور اخروٹ خرید کر دئیے جن سے وہ دن بھر بچوں کے ساتھ کھیلتا رہا
بچوں نے اس سے پوچھا تجھ پر یہ احسان کس نے کیا ؟اس نے جواب دیا : حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ نے ۔ جب بچے کھیل کر چلے گئے تو وہ خوشی خوشی میرے پاس آیا ۔ میں نے پوچھا تمہارا عید کا دن کیسا گزرا ؟ اس نے کہا چچا !آپ نے مجھے اچھے کپڑے پہنائے مجھے خوش کرکے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لئے بھیجا میرے غمگین اور ٹوٹے دل کو جوڑا ، اللہ پاک آپ کو اپنی بارگاہ سے اس کا بدلہ عطا فرمائے اور آپ کے لئے اپنی بارگاہ کا رستہ کھول دے
حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس بچے کے کلام سے بہت خوشی ہوئ اور اس سے میری عکڈ کی خوشیاں مزید بڑھ گئیں
(الروض و الفائق۔ ص ١٨٥)
معزز قارئین ! عید ہوتی کس کی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عید ان روزہ داروں کے لئے ہے جنہوں نے رمضان المبارک میں اللہ پاک کے حکم پر روضے رکھے اس کی رضا اور خوشنودی کے لئے عبادتیں کرکے اس کو راضی کیا ان کے لئے یہ دن عید ہے ان کے لئے یہ خوشی کا دن ہےان کو مزدوری ملنے کا دن ہے
ہمیں ڈرنا چاہئے کہ ہم نے ماہ مبارک کا حق ادا نہیں کیا
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے مکان پر عید کے دن چند اشخاص جمع ہوئیے دیکھا امیر المومنین دروازہ بند کرکے سارو قطار رو رہے ہیں پوچھا گیا حضور آج تو خوشی منانے کا دن ہے آج یہ رونا کیسا؟ فرمایا : یہ عید کا دن ہے اور وعید کا بھی
جس کے نماز روزے قبول ہوئے بلاشبہ اس کے لئے یہ خوشی منانے کا دن ہے عید کا دن ہے لیکن جس کے نماز روزے منہ پر ماردئیے گئے اس کے لئے تو یہ وعید کا دن ہے
اللہ اکبر ! معزز قارئین ہمیں اس دن اللہ پاک کو منانا چاہیے کہ مولی ہماری عبادتوں کو قبول فرما ہم نے حق تو ادا نہیں کیا ہے تو اپنے فضل سے مزدوری عطا فرما ہمیں بخشش دے
پتہ چلا عید اس کے لئے ھے جس نے ماہ مبارک میں عبادت کرکےاپنے رب کو منایا ہے
عشاق کی عید _ آقا ﷺ کی جس وقت دید ہوتی ہے وہ ہی اک عاشق کے لئے عید کا دن ہوتا ہے اس سے بڑھ کر اس کے لئے خوشی کیا ہوگی کہ جس محبوبﷺ کا وہ دن رات ذکر کیا کرتا تھا شب وہ اس کے روبرو تھے اللہ پاک اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ و اصحابہ و امھاتہ و بارک وسلم کے صدقے میں عید الفطر کی برکتوں اور رحمتوں سے ہم تمام کو مالا مال فرمائیے آمین ثم آمین