شوال المکرم

عیدی ملنے کی رات ہے چاند رات

تحریر: محمد رمضان امجدی، پرنسپل مدرسہ اہل سنت فیض الرسول پکڑی خرد ضلع مہراج گنج

جس ماہ مبارک کے لیے اہل ایمان گیارہ مہینے تک منتظر تھے وہ بابرکت مہینہ آیا بھی اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنی رحمتیں برکتیں بخشیشں لٹا کر آج یا کل ہم سے رخصت ہو جائے گا خیر وبرکت سے لبریز وہ ماہ مقدس ہم سے جدا ہو رہا ہے جس کے متعلق سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کی رمضان المبارک میں روزانہ افطار کے وقت اللہ تعالی دس لاکھ ایسے افراد کو آزاد فرما دیتا ہے جن پر جہنم واجب ہوچکی ہوتی ہے اورجب رمضان کا آخری دن آتا ہے تو پہلی رمضان سے آخری رمضان تک کل جتنے افراد جہنم سے آزاد ہوئے تھے ان کی تعداد کے برابر اس آخری دن آزاد فرما دیتا ہے
حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا جب ماہ رمضان کی آخری رات آتی ہے تو زمین و آسمان اور ملائکہ میری امت کی مصیت کو یاد کرکے روتے ہیں۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ کون سی مصیبت؟ فرمایا رمضان المبارک کا رخصت ہونا ۔ کیونکہ اس میں صدقات اور دعاؤں کو قبول کیا جاتا ہے۔ نیکیوں کا اجر و ثواب بڑھا دیا جاتا ہے عذاب دوزخ دور کیا جاتا ہے تو رمضان المبارک کی جدائی سے بڑھ کر میری امت کے لئے اور کون سی مصیبت ہو سکتی ہے؟ اللہ اکبر
اللہ تعالی کا بے پناہ شکر و احسان ہے کہ اس نے رمضان المبارک جیسے بابرکت ماہ کے رخصت ہوتے ہی عید سعید کا پر مسرت دن عطا فرما دیا رمضان المبارک کی اختتام پر آنے والی شب بھی بڑی فضیلت و اہمیت کی حامل ہے حدیث پاک میں اس رات کو لیلتہ الجاٸزہ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے (یعنی انعام ملنے والی رات)حضرت ابو امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جس شخص نے عیدین کے دونوں راتوں میں حصول ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کا دل اس دن نہ مرے گا جس دن دل مریں گے یعنی آدمی اِن راتوں کو عبادت ِ الٰہی میں مصروف رکھے۔ نماز تلاوت اَور ذکر ودُعا کرتا رہے۔ اِن راتوں میں عبادت کرنے والے کا دِل نہ مرے گا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے خوف ناک، ہولناک اَور دہشت ناک دِن میں جبکہ ہرطرف خوف و ہراس گھبراہٹ اَور دہشت پھیلی ہوئی ہوگی لوگ بدحواس ہوں گے اُس دِن میں حق جل شانہ اِس کو نعمت والی اَور پُر سعادت زندگی سے سر فراز فرمائے گا
مذکورہ بالا روایات سے معلوم ہوا کہ رمضان المبارک کا ہم سے رخصت ہونا کسی مصیبت سے کم نہیں ہے لیکن اللہ رب العزت کا کرم بالاۓ کرم ہے کہ اس نے رمضان المبارک کے اختتام پر عید سعید کی رات کو لیلۃ الجائزہ قرار دے کر اس میں قیام کرنے والے کو محشر کی ہولناکیوں سے نجات کی بشارت دے دی ہے
لیکن آج ہمارے معاشرے میں عید کا چاند نظر آتے ہی بازار وں کی رونق میں اضافہ ہوجاتا ہےاس رات بازاروں میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کا اس قدر اختلاط ہوتا ہے کہ اللہ کی پناہ شانوں سے شانے ٹکراتے ہیں،اس رات آپس میں چھیڑ چھاڑ اور ہنسی مذاق خوب ہوتا ہے، گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ ایک دوسرے کے لیے تحفے خریدتے ہیں ، خواہ والدین یا بھائی بہن کے لیے کچھ خریدیں یا نہ خریدیں،لڑکیاں بے پردہ گھومتی ہیں،اجنبی مردوں کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر چوڑیاں پہنی جاتی ہے مہندی لگوائی جاتی ہے،یہ بھی زنا کی ایک شکل ہے ۔حدیثِ نبوی ہے :
حضرت ابوہریرۃؓ سے مروی ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا :آدمی کے لیے اس کے حصہ کا زنا مل کر رہے گا،شہوت کی نظر سے دیکھنا آنکھوں کا زنا ہے،شہوانی باتوں کا سننا کانوں کا زنا ہے،اس موضوع پر گفتگو کرنا زبان کا زنا ہے، پکڑنا ہاتھ کا زنا ہے،اس کے لیے چل کر جانا پیروں کا زنا ہے،خواہش اور تمنا دل کا زنا ہے اور شرم گاہ یا تو زنا کا عمل کر بیٹھے گی یا ارتکاب سے رک جائے گی(بخاری:)
یہ کام اس وقت انجام پاتے ہیں، جب رمضان کوگذرے ہوئے ایک دن بھی نہیں ہوتااور ان سب خرافات و بےحیائ کو عید کے نام پر کیا جاتا ہے جب کہ عید، رمضان المبارک کے ذریعے ایک مہینہ کی ٹریننگ کے بعد تربیت کو پرکھنے کا ذریعہ ہے کہ اب ہم اس خوشی کے موقع پر کون سا رویہ اختیار کریں گے؟وہ جو شیطان کو پسند ہے یا وہ جو رحمان کو محبوب ہے اور جس کی اللہ اور اس کے رسولﷺ نے تعلیم دی ہے اوراس میں ہم اپنے نفس کی پیروی کریں گے یا احکامِ شریعت کی اتباع کریں گے؟
اس وقت والدین ،خاص کر ماں کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں اور بچیوں کی عید کی تیاری میں کن چیزوں کا خیال رکھ رہی ہیں،ان کے لباس اور زیب و زینت کے سامان میں اسراف و تبذیر اور نمائش سے کام لے رہی ہیں،جو اللہ تعالی کو سخت ناپسند ہے اور جس کو شیطانی عمل کہا گیا ہے یا حکمت اور تدبر سے ان کے دلوں کو خوش کر رہی ہیں کہ یہ ان کا حق ہے۔قرآن کریم نے اسراف اور فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے۔ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین ۔وکان الشیطان لربہ کفورا (بنی اسرائیل)
فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی نا شکرا ہے
عید الفطر کی شب ہمیں عبادت وریاضت میں گذار کر اپنے رب کو راضی کرنے کی ضرورت ہے پھر کہیں جاکر عید سعید کی حقیقی خوشیاں ہمیں نصیب ہوں گی

ليس العيد لمن لبس الجديد
إنما العيد لمن خاف الوعید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے